• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

درختوں کی بڑی تعداد ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کاٹ دی گئی

درخت انسانی زندگی کا اہم اور ضروری جزو ہیں۔ درخت نہ صرف ہمارے ماحول کو صاف رکھتے ہیں بلکہ ہمیں بہت سی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں۔ درخت پرندوں اور دیگر جانوروں کے لیے خوراک اور رہائش فراہم کرتے ہیں، جبکہ انسان نہ صرف درختوں پر اگنے والی مختلف جڑی بوٹیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں بلکہ مختلف اقسام کے پھلوں سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 

درختوں کی لکڑی فرنیچر اور مختلف سامان بنانے کے کام آتی ہے۔ درخت کی لکڑی کی وجہ سے ہی کاغذ وجود میں آیا۔درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ممکنہ طور پر نقصان دہ گیسیں جیسے سلفر ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

ایک بڑا درخت 4 افراد کے لیے ایک دن کی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔ آب و ہوا کی بحالی،ہوا کے معیار میں بہتری، مٹی کا تحفظ اور جنگلی زندگی کی بقا کے لیے درخت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فوٹوسینتھیسز کے عمل کے دوران درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔ 

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق ایک ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا جنگل 6 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور 4 ٹن آکسیجن خارج کرتا ہے۔ یہ 8 افراد کی سالانہ آکسیجن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔کراچی میں درختوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے، شہرمیں صرف 3 فیصد درخت موجودہیں، وہ بھی ترقیاتی منصوبوں کی نذر ہوتے جارہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق درخت جہاں شہر کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتے ہیں، وہیں ماحولیات کے توازن کا خیال رکھنے میں بھی مددگارثابت ہوتے ہیں ، جس کے لئے شہر میں 25فی صد درخت ہونے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے کراچی میں 3 فیصد درخت بھی نہیں ہیں۔

ماہر ماحولیات کے مطابق شہر میں جہاں بیشتر پودے ترقیاتی منصوبوں کی نذر ہوئے وہیں 55 قدیم درختوں کو کاٹ دیاگیا، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق درختوں کی کمی کے باعث ہر سال درجہ حرارت بڑھ رہاہے، جسے کنٹرول کرنے کےلئے پودے لگانے کی اشد ضرورت ہے۔ماہرین کے مطابق کراچی کو دو کروڑ درختوں کی ضرورت ہے۔

نصف صدی پہلے کا کراچی کیسا تھا؟سندھ کے دانشور مرحوم پیر علی محمد راشدی اپنی خود نوشت’وہ دن، وہ لوگ‘ میں لکھتے ہیں:

’’لاڑکانہ کی چلچلاتی گرمی اور مچھروں سے تنگ آ کر کراچی کا رخ کرتے تھے۔ جب ریل گاڑی جنگ شاہی اسٹیشن سے آگے نکلتی تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم کو چومنے لگتے۔ دھابے جی اسٹیشن پہنچنے تک جِلد سے گرمی دانوں میں کمی اور بدن میں توانائی محسوس ہونے لگتی۔ دنیا گھوم لی، پھر ایسی صاف، خوشبو دار ہوا نہ ملی۔ پرانے کراچی کی یہ ٹھنڈی ہوا کیا تھی، اس کا اندازہ لگانا بھی آج کل کے حالات میں ممکن نہیں۔‘‘

مرحوم پیر علی محمد راشدی کے بقول تب پی سی ایچ ایس سوسائٹی کا علاقہ گھنا جنگل تھا ،جہاں باقاعدہ شکار گاہیں تھیں۔‘‘پی سی ایچ ایس کا یہ جنگل آج کراچی کا گنجان آباد اور بیش قیمت علاقہ ہے، جہاں شہر کا مصروف تجارتی مرکز طارق روڈ بھی واقع ہے۔ یہاں انسانوں کا جنگل ہے اور کثیرالمنزلہ تجارتی شاپنگ مال ہیںلیکن درختوں کا سایہ کہیں نہیں، البتہ فضا میں دھویں کے کثیف بادل ہمہ وقت موجود رہتےہیں۔

ستر کی دہائی تک ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں حائل رکاوٹ قرار دے کر شہر بھر میں پانچ ہزار درخت کاٹے گئے۔ملیر پرفضا جگہ تھی۔ ابھی دھواں اتنا پھیلا نہیں تھا۔ نیم، بکائن، پیپل، برگد اور بادام کے درخت بہت تھے۔ لوگ گھروں میں لگے درختوں کی بھی بہت دیکھ بھال کرتے، مگر اب سب گذری باتیں ہیں، درخت اور گھر کا تو رشتہ ہی ختم ہوگیا۔

ترقی کا عمل فطرت کی قیمت پر نہیں ہوتا، مگر ہم نے یہ سودا کراچی میں کیا ،شہر میں درختوں کی بڑی تعداد ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کاٹ دی گئی۔ ترقی کی قیمت تو ادا کردی، اب آلودہ فضا اُسی سودے کی سزا ہے۔صدر، کلفٹن، ملیر، ڈرگ روڈ، بندر روڈ، سولجر بازار وغیرہ میں درختوں کی چھاؤں اب کہیں نہیں۔

پاکستان میں تخفظِ ماحول کے قانون مجریہ 1997ء کی رو سے’درخت کاٹ کر سبز ماحول کو نقصان پہنچانے کا جرم مستوجبِ سزا ہے، جس پر مجرم کو تین ہزار روپے جرمانے اور چھ ما قید کی سزا رکھی گئی ہےلیکن اسکے باوجودکئی برسوں سے درختوں کی بے دریغ کٹائی نے شہر کراچی میں ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ کیاہے، آکسیجن کی کمی کے باعث شہریوں کی صحت پر مضر اثرات بڑھ گئے، آبادی کا دو فی صد سے زائد حصہ پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں سمیت دیگر کئی امراض کا شکار ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق کراچی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی اور برسوں سے باقاعدہ شجر کاری مہم نہ چلائے جانے کے باعث آکسیجن کی کمی نے صحت کے مسائل کو گمبھیر بنا دیا ہے،۔ ماہرین کے مطابق آکسیجن کی کمی کی اہم وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے جو درختوں کی کٹائی کی وجہ سے کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے، شہر کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور سیسے کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اورنج میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کے لیے اب تک ایک لاکھ دس ہزار سے درخت کاٹے جا چکے ہیں۔

سابق میئر جناب مصطفی کمال نے کراچی میں بہت شاندار کارگردگی کا مظاہرہ کیا اور کونوکارپس (Cornocarpus)کے درخت لائے جو کہ پورے شہر کی سڑکوں کی گرین بیلٹس پر لگائے گئے۔ لیکن افسوس کہ کے ایم سی کے کسی اہلکارنے اور خصوصاً ہارٹی کلچر ڈپارٹمنٹ سے کسی فرد نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ کراچی جیسے شہر میں، جہاں پانی کی بے حد کمی ہے، کس طرح کے درخت لگانے چاہئیے، جوکہ ان کی بنیادی ذمہ داری تھی۔

ایک طویل عرصہ بعد اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ (Cornocarpus) کے درخت ہمارے ماحولیاتی نظام کو تباہ کررہے ہیں ،جب کہ ہمارے یہاں زیرزمین پانی کی سطح مزید نیچے جاچکی ہے۔کراچی میں ویسے بھی درخت ختم ہوچکے ہیں، مگر پھل دار درخت اور ایسے درخت جن کےبیج لگتے ہیں وہ تو ناپید ہوچکے ہیں۔ شہر میں کہیں بھی کچی زمیں نہیں رہی ہرجگہ کنکریٹ بھر دیا گیا ہے۔ 

کراچی سے پرندے بھی غائب ہونے لگے،اسی کراچی میں 150 سے زائد اقسام کے پرندے پائے جاتے تھے، جس میں بگلہ، شکر خورہ، چڑیا، درزی چڑیا، فاختہ، بلبل، دھوبن چڑیا، کونج، مینا، طوطے شامل ہیں، مگر اب ان میں کئی اقسام یا تو مکمل طور پرغائب ہو گئی ہیں یا ان کی آبادی کم ہو گئی ہے۔

شہر قائد تیزی کیساتھ سیمنٹ و سریئے کا ایک ڈبا بننتا جارہا ہے، جہاں درخت لگانے کے بجائے جو تھوڑے بہت ہیں ان کو بھی کاٹا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف شہر میں ہر جگہ پہ درخت لگائے جائیں بلکہ پلوں ،فلائی اورز اور عمارتوں کی چھتوں پر بھی پودے لگائے جائیں۔

درخت لگانے پر نہ صرف ہم کو اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی بلکہ اِس پر سرمایہ کاری بھی کرنی ہوگی. درخت ہمارےماحول کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی ضرورت ہے اور اس کام کے لیے ہمیں خود کھڑا ہونا چاہیے اس سے قبل کے بہت دیر ہو جائے۔

تازہ ترین