• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زہیرہ جمشید، سیال کوٹ

شمس الدّین نے قدرت کے سبز ،دبیز اوس پڑے گیلے قالین پہ اپنے بوڑھے قدم رکھے۔ آسمان سیاہ چادر اُتارچکا تھا اور صبحِ کاذب اب صادق میں ڈھل چکی تھی۔ہر طرف نیلگو ں اندھیرا تھا۔مشرق سے روشنی ایسے چھارہی تھی، جیسے آسمان ایک کینوس ہو اور کسی نےاس پرسفید ، پیلے رنگ بکھیر دئیے ہوں۔چھوٹی چھوٹی سفید بدلیاں ان روشنی کی زنجیروں کو خود سے منعکس کر کے خُوب صُورت رنگوں میں تبدیل کرنے لگیں۔شمس الدّین نے کُھلی فضا میں لمبا سانس لیا تاکہ تازہ دَم ہو سکیں۔ 

سفید داڑھی والے شمس الدّین، کافوری لباس میں مزید پُر وقار لگ رہے تھے۔ ان کے گھرکے باغیچے کے چاروں طرف دیواریں اورپھول، پودوں سے لدی کیاریاں تھیں۔کیاریوں میں پھول ایسے چوکنّے کھڑے تھے، جیسے سبز وادی میں رنگ برنگی پوشاکیں پہنے درباری کھڑے ہوں۔گھاس اور پھول ،پتّیوں پہ شبنم ہیروں کی طرح چمک رہی تھی۔ پپیتے کے دراز قد درختوں پر میٹھے نغمے گاتے پرندے ماحول کومزید دوام بخش رہے تھے۔

شمس الدّین کے گھر میں موجود یہ باغیچہ بہت خُوب صُورت تھا۔ وہ روزانہ نمازِ فجر سے فارغ ہو کر اس کی سبز گھاس پہ ننگے پاؤں ٹہلتے تھےکہ پاؤں سے ہوتی ہوئی ٹھنڈک ان کے کلیجے کو سُکون دیتی تھی۔ معمول کے مطابق وہ آج بھی تسبیح لیے باغیچے میں ٹہل رہے تھےکہ ان کی پوتی ، آنکھوں کی ٹھنڈک اور گھر بھر کی لاڈلی ننّھی حیانے دادا ابّو کوآواز دی ۔ گلابی فراک پہنے وہ بھی باغیچے ہی کا ایک پھول لگ رہی تھی۔ ماں کا سفید دوپٹّا، جو اس کے قدسے خاصا بڑا تھا،آدھا سر پہ لے رکھا تھا اور باقی کسی بیل کی طرح اس کے پیچھے زمین پہ گِرا ہوا تھا۔دادا ابّو کو دیکھ کر بھاگتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔ انہوں نے اس کی پیشانی چومی ۔ ’’پڑھ لی نماز میری گڑیا نے؟‘‘اس نے جلدی سے اثبات میںگردن ہلائی ، دَر حقیقت اس کا سارا دھیان دادا کی لمبی سی تسبیح پرتھا۔’’دادا ابّو! آپ اِس پرکیا پڑھتے ہیں؟‘‘ اس نے تسبیح کو چُھوتے ہوئے اپنی توتلی سی زبان میں پوچھا۔’’مَیں اس پر اللہ پاک کا ذکر کرتا ہوں۔‘‘’’ذکر کیا ہوتا ہے؟‘‘ حیانے دادا کو گھاس پہ بیٹھتے دیکھا ،تو خود بھی اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’ذکر…‘‘ شمس الدّین ایک لمحے کو رُکے،پھر گویا ہوئے’’ذکر ،یاد کا دوسرا نام ہے۔‘‘’’تو آپ پیارےاللہ کو یاد کرتے ہیں، کیا اللہ پاک بھی آپ کو یاد کرتاہے؟‘‘’’جی میرے بچّے، کیوںنہیں! اللہ تعالیٰ توہر وقت اپنے بندوں کو یاد رکھتا ہے۔‘‘’’ماما کہتی ہیں کہ اللہ تعالی جی ہمیں دیکھتے اور سُنتے بھی ہیں۔تو جب ہم انہیں یاد کرتے ہیں ، تو انہیں فوراً پتا چل جاتا ہوگا۔ ہے ناں، ہے ناں…؟؟لیکن حیاکو کیسے پتا چلے گا کہ پیارے اللہ اُسے یاد کر رہے ہیں؟‘‘ اس نے سوچنے کی اداکاری کرتے ہوئےایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے۔

انھوں نے پیار سے ننّھی پری کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ، ’’گڑیا! واصف علی واصف کہا کرتے تھے کہ’’ جب آنکھوںمیںبلاوجہ آنسو آجائیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہمیں یاد کر رہا ہے۔‘‘یہ کہہ کر شمس الدّین نے ایک نگاہ آسمان پر ڈالی، جس کی وسعت ربّ العالمین کی محبت کے آگے بہت کم تھی۔اُن کی بات سُن کر حیاکچھ دیر چُپ رہی اوروہ تسبیح پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ ’’دادا ابّو! ہم کسی کو کیوں یاد کرتے ہیں؟‘‘’’یاد ،یقین کے سفر کو کہتے ہیں۔ہم اُسی کو یاد کرتے ہیں، جس سے پیار کرتے ہیں ۔اسی طرح جیسے ہمیں پتا ہے کہ اللہ، رحمٰن و رحیم ہے۔اور جب ہم پہ کوئی مصیبت ، آزمائش یا پریشانی آتی ہے، تو ہمارا دل جانتا ہے کہ ہمارا مالک ہمیں مشکل میں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ہم کسی کے سامنے نہیں جُھکتے، صرف اللہ پر توکّل کرتے ہیں اور صبر و نماز سے ہدایت لیتے ہیں۔‘‘

اپنے گھر کا باغیچہ شمس الدّین ہی نے سجایا تھا، وہ جانتے تھے کہ بیج کیسے بویا جاتا ہے۔فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار وہ ننّھے، زرخیز ذہن میں ایمان کے بیج بو رہے تھے۔جس کی آب یاری خودزندگی کرتی ہے۔’’گڑیا رانی! آپ کو سورۃفاتحہ کا ترجمہ یاد ہوگیا ہے ناں؟‘‘انہوں نے حیا سے پوچھا۔’’جی‘‘حیا نے پُرجوش لہجے میں جواب دیا۔’’اس پہ غور کرو،پہلے اللہ کا بندہ ، اپنے ربّ کی تعریف بیان کرتا ہے،پھر کہتا ہے کہ ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ 

بس یہی تسبیح کا فائدہ ہے کہ انسان گمراہی سے بچ جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مفصّل جواب دیا۔ ’’اور…اللہ کا ذکر کرنے کا ایک اور راز بتاؤں؟‘‘انہوں نے اپنی آواز کو سرگوشی میں بدل کر کہا۔’’جی!‘‘حیا نے بھی دادا کے مزید قریب ہوتے ہوئے کہا۔’’ہم جس انداز میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، وہ بھی ہمیںاُسی طرح یاد کرتا ہے۔ یعنی اگر ہم دل میں اُسے یاد کرتے ہیں، تو وہ بھی ہمیں اپنے جی میں یاد کرتا ہے،جب ہم اسے کسی محفل میں یاد کرتے ہیں تو وہ فرشتوں کی محفل میں ہماراذکر کرتا ہے۔ ‘‘دادا کی باتیں توجّہ سے سننے والی حیا جھٹ بولی،’’تو کیا اللہ پاک اپنے اچھے بندوں کے لیے چاکلیٹس بھی بھیجتے ہیں؟‘‘ اس نے یہ بات سرگوشی کے سےانداز میں پوچھی جیسے ڈر ہو کہ مامانہ سُن لیں۔ 

شمس الدّین زور سے ہنس دئیے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’ارے ہاں… چاکلیٹس تو بھیجی تھیں،لیکن تم اس وقت سو رہی تھیں، توآپ کی چاکلیٹس مَیں نے رکھ لیں۔آؤ، مَیں دیتا ہوں۔‘‘انہوں نے گھر کے اندرونی حصّے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ’’سچی…؟؟‘‘حیانےچمکتی آنکھوں میں بے یقینی لیے پوچھا۔ ’’مُچّی‘‘ دونوں باتیں کرتے گھر میں داخل ہوئے، تو دادا، پوتی کے ساتھ تسبیح کرتے درخت، پھول، پرندے، شبنم،گھاس سب مُسکرا دئیے۔

تازہ ترین