• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عزیزہ انجم

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیےکل ایک لاکھ24ہزار پیغمبر بھیجے۔اورجب انسانی زندگی شعورکاارتقائی سفر طے کرکے اپنے عروج تک پہنچی،تو اللہ نے حبیبِ مُکرم حضرت محمّد مُصطفیٰ احمدِ مُجتبیﷺ کوعالمِ انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری نبی بنا کر بھیجا۔پیارے نبی ﷺکی حیاتِ مبارکہ ہدایت کا کامل نمونہ ہے۔ اس میں پیغمبرانہ دعوت کی دِن رات کی محنت، لگن، اصحاب کی تعمیرِسیرت، میدانِ جنگ کی بہادری، سپاہ سالاری، ربّ کے آگے طویل قیام و سجود، اپنی اُمت کے لیے آہ و زاری، غرض سب ہی کچھ شامل ہے۔رسولِ اکرمﷺ نے دُنیا میں سب سے بڑا اور متاثر کُن انقلاب برپا کیا۔اللہ تعالی نے دین کو غالب کرنے کا جو مشن حضورِپاک ﷺکے سپرد کیا،انہوں نے اپنی بے مثال،لافانی محنت اور جدوجہد سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔

دُنیا میں بیک وقت مختلف النّوع ذمّے داریاں ادا کیں،اس کے باوجود نبیِ کریم ﷺ کی ذاتی زندگی محبّت و الفت ،اخلاق حسنہ اور حُسنِ کردار سے عبارت تھی ۔ آپؐ اہلِ خانہ کے لیے سراپا محبّت و رحمت تھے۔آپؐنے فرمایا،’’تم میںسے بہتر وہ ہے، جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہے۔ اور مَیں، تم سب میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘آپ ﷺاپنی ازواج کے بہترین شوہر، بیٹیوں کے بہترین باپ، رشتے داروں کے بہترین عزیز اور دوستوں کے بہترین رفیق تھے۔خاص طور پر آپﷺکی خانگی و ازدواجی زندگی بیویوں سے حُسنِ سلوک اور محبّت و تعلق کی آئینہ دار اور اپنے پیرو کاروں کے لیے عمل کا کامل نمونہ ہے۔

رسول اکرم ﷺپیغمبرِوقت تھے، رسالت و نبوّت کے منصب پر فائز تھے۔ جبریل علیہ السلام، اللہ کا کلام لے کر آپؐکے پاس تشریف لاتے تھے، اس کے باوجود اپنی ازواجِ مطہراتؓ سےانتہائی نرمی، محبّت اور انسانی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے تعلق رکھتے۔مگرافسوس کہ ہمارے معاشرے میں عموماً بیوی سے محبّت کے اظہار کا اہتمام ہوتا ہے، نہ اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ بیوی ،عُمر بَھر شوہر کے منہ سے تالیفِ قلب کے دو بول سُننے ہی کی منتظر رہتی ہے۔نبیِ کریم ﷺاپنی ازواج سے محبّت کرتے تھے اور اس محبّت کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺکو ساری ازدواج سے زیادہ محبّت تھی اورآپؐ اس کاباقاعدہ اظہار فرماتے ۔

اُن کی تعریف کیاکرتے،جب کہ آپؐ نےانہیں ’’حمیرا‘‘ کا لقب بھی عطا کیا۔ہمارے پیارے نبیﷺ نے ایک موقعے پرارشادفرمایا،’’عائشہ کو عورتوں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے، جیسی ثرید کوتمام کھانوں پر۔‘‘رسولِ اکرمﷺ بے پناہ مصروفیات کے باوجوداپنی ازواج کے ساتھ وقت گزارتے ،جس کے لیے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت وقف تھا۔ اس دوران آپ ﷺتمام ازواج کے حُجروں میں تشریف لے جاتے اورجن زوجہ مطہرہؓ کاوہ دِن ہوتا، اُنھیں کے ہاں طعام و قیام فرماتے۔سیرتِ طیّبہ کے مطالعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آپؐ نےاپنی ازواج کی دِل جوئی فرمائی، ان کے ناز اُٹھائے اور ہر طرح سےخیال رکھا۔ 

ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سَر میں درد ہوا، توکہنے لگیں، ’’ہائے میرا سَر۔‘‘ آپ ﷺنے یہ سُن کر فرمایا،’’نہیں عائشہ، یوں کہو ہائے میرا سَر۔ یعنی درد تمہارے نہیں، میرے سَر میں ہورہا ہے۔‘‘ایک مرتبہ دورانِ سفر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ تیز ہوا ، توحضورِ پاک ﷺنے اونٹ کی رفتار کم کرنے کو کہا اورخواتین سے متعلق فرمایا،’’یہ آبگینے ہیں، ان کا خیال رکھو۔‘‘پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم سفر میں ازواج کو ساتھ رکھتے اور اس کے لیے قرعۂ اندازی کا طریقہ اختیارفرماتے۔آپ صل اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو اپنے رازوں میں شریک رکھتے،ان سے مشورے لیتے اوراپنی پریشانیاں اُن سے بانٹا کرتے۔

صلحِ حدیبیہ کے بعد حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے مشورے سے خاتم الانبیاﷺ نے احرام کھولا اور تمام صحابہ کرام نے بھی آپ ﷺکی اطاعت میں احرام کھو لا ۔ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپﷺ ان کا ذکربہت اچھے الفاظ میں فرماتے۔اُن کی رفاقت اور قربانیوں کو یاد کرتے۔رسول اکرمﷺ نے اپنی ازواج کو دین سکھایا اورانھیں مسلمان خواتین کے لیے دین سیکھنے کا ذریعہ بنایا۔اور پھر ازواجِ مطہراتؓ نے درس و تدریس کا فریضہ انجام دیا اور اُمّت تک خاص طور پر نبی کریم ﷺکی بہترین ذاتی زندگی پر عمل کی خاطر اسوہ نبوی ﷺ پہنچایا۔

آج ہر طرف معاشرتی اور ازدواجی زندگی کے حوالے سے تکلیف دہ صُورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ خواتین کو عموماً شوہروں سے عدم التفات اور لاتعلقی کی شکایت رہتی ہے، تو مَردوں کا بھی گھروں میں لیا دیا روّیہ ہی رہتا ہے۔ بیویوں کے تمام ترحقوق ادا کرنا، ضروریات کا خیال رکھنا اور اُن کی دِل جوئی کرنا اکثرشوہر اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمان خواتین کو شوہروں کی اطاعت کا حکم دیا۔شوہر کے مال، گھر اور اُس کی عزّت کی حفاظت کی تاکید کی، لیکن ساتھ ساتھ مسلمان مَردوں کوبھی اہلِ خانہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تعلیم دی ۔ 

اپنی مقدّس، پاکیزہ زندگی سے روداری کا درس دیا،محبّت کا سبق سکھایا۔اللہ کے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تورہتی دُنیا تک انسانیت کے لیے رہنمائی و ہدایت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی سیرت کانہ صرف مطالعہ کیا جائے،بلکہ اس پر عمل بھی کیا جائے کہ آج گھروں میں سب سے زیادہ ضرورت الفت و محبّت اور پُرخلوص روّیوں کی ہے۔ یاد رکھیے، باہر کی دُنیا کتنی ہی روشن، چمکتی دمکتی کیوں نہ ہو، گھر اور دِل کی دُنیا کی روشنی بے حد ضروری ہے اور زندگی کے حقیقی سکون کے لیے نبیﷺکا اسوہ ہی چراغِ راہ ہے ۔

تازہ ترین