• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کعبے کی رونق، کعبے کا منظر اللہُ اکبر، اللہُ اکبر....

ریحانہ منوّر انصاری، کراچی

سال 2018ءمیرے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا، جومیری زندگی کوہمیشہ کے لیے ویران ، بیابان کر گیا۔میری متاعِ جاں، میرا ہم سفر مجھ سے جداہو گیااوریوں 34 سالہ رفاقت موت کے ہاتھوں ہار گئی۔ابھی شوہر کے انتقال کو چھےہی ماہ ہوئے تھے کہ میرا بھائی ایک ماہ کی چھٹیوں پر کینیڈا سے پاکستان آیا۔ اس نے والدہ سے پوچھا کہ ’’عُمرےپہ چلیں گی‘‘، تو انہوں نے تڑپ کر کہا، ’’ کون سا مسلمان یہ سعادت حاصل نہیں کرنا چاہتا ۔ ‘‘بھائی نے یہی سوال مجھ سمیت دیگر بہن، بھائیوں سے پوچھا اور یوں خاندان کےدس افراد پر مشتمل ہماراقافلہ اللہ کے گھر روانہ ہوا۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ابھی چند روز پہلے تک میری زندگی کے معنی، مفہوم تک کھو سے گئے تھے اور اب اچانک اللہ پاک کے گھر جانے کی خوشی نے جیسےبے جان حیات میں ایک نئی روح پھونک دی۔

جہاز ’’لبّیک، اللّٰھمّ لبّیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہا تھا،ہر آنکھ اشک بار اور دلوں میں اِک تڑپ سی تھی۔ 10بجے شب جہاز جدّہ ایئرپورٹ پر اترا۔ امیگریشن کے تمام مراحل طے کر کے مکّہ مکرمہ کے لیے بس میں سوار ہوئے۔ تقریباً2گھنٹے بعد ٹیکسی اسٹینڈ پہنچے اور وہاں سے بذریعہ ٹیکسی ہوٹل۔ کچھ دیر آرام کے بعد تہجّد کے لیے ربّ ِ ذوالجلال کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آہ!کیا روح پرور مناظر تھے… چند گھنٹوں بعد حرم شریف میں اذانِ فجر کی صدائیں بلند ہوئیں اور پھر انسانوں کاایک ازدحام اپنے خالق کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔ کیا نظارہ تھا کہ نہ صرف انسان بلکہ اَن گنت ابابیلیں بھی خدائے ذوالجلال کی حمد و ثناء میں مصروف نظر آئیں۔ نمازِ فجر کے بعد ہوٹل آئے، کچھ دیر آرام کے بعد ناشتا کیا۔ 

ہر 15منٹ بعد ہوٹل سےایک ایئرکنڈیشنڈ کوچ حرم شریف پہنچانے کے لیے تیار رہتی ہے، سو، ہم لوگ بھی اسی میں سوار ہوکر خانۂ خداپہنچ گئے۔عُمرے کے دوران ہم بہن، بھائیوں کی یہی کوشش تھی کہ امّی کو کسی قِسم کی تکلیف نہ ہو، مگر ہماری ماں جی کے جذبۂ ایمانی اور قوّتِ ارادی کے بھی کیا کہنے، 80سال کی عُمر میں بھی اپنے پیروں طواف کیا۔

ہم نے مقام ِابراہیمؑ پر دو رکعت نفل ’’تحیۃ الطّواف‘‘ ادا کیے۔ نفل کی ادائی کے بعد آبِ زم زم پینا عمرے کا حصّہ اورزم زم پیتے ہوئے یہ دعا’’اے اللہ !مَیں تجھ سے مانگتا ہوں علمِ نافع، کشادہ رزق اور تمام بیماریوں سے شِفا‘‘ پڑھنا سنّت ہے۔ سعی کے لیے صفا کی طرف جانے سے پہلے حجرِ اسود کا اِستلام کیا اور پھر صفاو مروہ کی جانب روانہ ہوگئے۔ صفا و مروہ یہ وہ دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان بی بی حاجرہ ؑ، اپنی بھوک ، پیاس کی پروا کیے بغیر ننّھے شِیرخوار، حضرت اسمٰعیل علیہ السّلام کے لیے پانی کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑی تھیں۔ 

اللہ تعالیٰ کو ایک ماں کی یہ تڑپ اور محبّت اتنی پسند آئی کہ وہاں سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا ،جسے بی بی حاجرہ ؑنے مٹی کی منڈیر بنا کر روک لیا اور معصوم، اسمٰعیلؑ کی پیاس بجھائی۔ تب سےآج تک یہ چشمہ خشک نہیں ہوا،سبحان اللہ!یہ ماں کی محبّت کی انتہا ہی تھی کہ جس کی وجہ سے اللہ پاک نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکّروں کو حج و عُمرے کے لیے واجب کر دیا۔

پیر3دسمبر2018ء ، مکّہ مکرّمہ سے ہماری روانگی کا دن تھا۔اس روز دل بڑا ادا س ، بہت بے قرار تھا۔ نمازِ فجر کے بعد الوداعی طواف کیا۔ آنسوئوں کا ایک سیلاب تھا ،جو آنکھوں سے رواں تھا۔ روح مضطرب سی تھی کہ جانے اب زندگی میں دوبارہ یہ موقع کب نصیب ہوگا۔ اُس لمحے بس یہی دل چاہ رہا تھا کہ’’ اے کاش! وقت یہیں تھم جائے، لمحے طویل ہو جائیں۔ یہ ساعتیں کبھی ختم نہ ہوں۔‘‘ واپسی پر ہم نے آب ِزم زم پیا، کبوتروں کو دانہ ڈالا، ہوٹل آ کر ناشتا کیااورمدینہ منوّرہ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔کسی چھوٹے بچّے کی طرح نم دیدہ، حسرت بھری نگاہوں سے مڑ مڑ کرپیچھےدیکھتے رہے ۔ کلاک ٹاور دُور تک نظر آرہاتھا ،جس کی پیشانی پر چمکتا ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ عزّوجل کی عظمت و کبریائی بیان کر رہا تھا۔

کیاروح پر وَر سفر تھا۔ چوڑی صاف و شفّاف بل کھاتی سڑکیں، دونوں طرف بلند و بالاپہاڑ ، سُرخ، سُرمئی اور بھورے رنگ کے یہ پہاڑ قدرت کی صنّاعی کا بہترین نمونہ ہیں اور ہم کھڑکی کی طرف بیٹھے، قدرت کے نظارے کرتے یہ سوچ رہے تھے کہ نبی محترمﷺ ان تپتے ریگستانوں میں کبھی اونٹوں پر، تو کبھی پیدل سفر کرتے ، پر ان کے لبوں پر ہر لحظہ اللہ کا شکر اور حمد و ثناء ہوتی اورہم کتنے نا شُکرے ہیں کہ تمام تر آسائشیں میسّر ہونے کے با وجود بھی ہر وقت محرومیوں ہی کا رونا روتے رہتے ہیں۔

ابھی ہم انہی سوچوں میں گُم تھے کہ یک دَم گاڑی ایک جھٹکے سے رُکی اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔دیکھا توہم اس خاص الخاص کنویں کے پاس پہنچ چکے تھے ،جس کا پانی ’’آب ِشفا ‘‘کے نام سے معروف ہے۔ جیسے جیسے مدینہ قریب آ رہا تھا ،دل میںٹھنڈک اُترتی جا رہی تھی کہ کسی طرح جلد از جلد روضۂ رسولﷺ کی زیارت ہو جائے۔دُور ہی سےگنبدِ خضرا کے مینار پر نظر پڑی اور زباں درود و سلام کا وردکرنے لگی۔

شام 4بجے ہوٹل پہنچےاورنمازِ عصر کے لیےمسجدِ نبویﷺ پہنچ گئے۔ نماز اداکرنے کے بعد خواتین اندرچلی گئیں، جہاں ریاض الجنّہ جانے کے لیے لمبی قطار لگی تھی۔ اندر جا کےدو نفل اداکیے۔ابھی دُعا ہی مانگ رہے تھے کہ منتظم لڑکی نے باہر جانے کا پروانہ دے دیا۔ بادلِ ناخواستہ باہر آنا پڑا۔ اگلے دن ہم مقاماتِ مقدّسہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔مسجد ِقُبا میں دو نفل ادا کیے۔ پھر مشہور مساجد ’’ مسجد غمامہ، مسجد ابوبکرؓ، مسجد عمرؓ بن خطاب، مسجد عثمانؓ بنی عفان اور مسجد علی ؓبن ابوطالب‘‘ دیکھیں۔ 

ان مساجد سے تھوڑے فاصلے پر کھجور بازار ہے، جہاں انواع و اقسام کی کھجوریں دست یاب ہیں۔ پھر جنّت البقیع گئے۔ وہاں خواتین کا داخلہ ممنوع ہے، لہٰذا ہم نے باہر ہی سے فاتحہ پڑھی اورنمازِعشاء ادا کرکے ہوٹل آ گئے۔ جمعۃ المبارک کو مدینے میںہمارا آخری دن تھا۔ سب افسردہ تھے۔ دل میں بس یہی خیال آرہاتھا کہ نہ جانے اب زندگی میں یہ ساعتیں نصیب ہوں گی بھی یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کویہ سعادت نصیب فرمائے۔ (آمین )

تازہ ترین