• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کی سرزمین مسلمانوں ہی نہیں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی مقدّس ترین ہے۔ یہ خطّہ اِن تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اِس ارضِ مقدّس کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہیں مسجدِ اقصیٰ ہے، جہاں حضرت محمّدﷺ کی امامت میں تمام انبیائے کرامؑ نے نماز ادا کی۔’’ ڈوم آف دی راک‘‘یعنی’’ قبۃ الصخرہ‘‘ بھی یہاں کی پہچان ہے، جہاں سے رسول اللّٰہﷺ، اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عرش پر تشریف لے گئے۔ 

یہیں رسول اکرمﷺ نے برّاق باندھا۔ نیز، اسی سرزمین پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحٰقؑ، حضرت یوسفؑ، حضرت یعقوبؑ اور حضرت موسٰیؑ کے مزارات ہیں۔ یہودیوں کا تین ہزار سال پرانا قبرستان بھی یہیں ہے۔پھر یہ کہ عیسائیوں کا بیتُ اللحم میں پرانا، مقدّس ترین چرچ اور دیگر مذہبی یادگاریں ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمیں فلسطین اور اسرائیل میں آٹھ روز گزارنے کا موقع ملا۔ بنیادی طور پر یہ وِزٹ برطانیہ کی ایک این جی او کے زیرِ اہتمام تھا، جس کے چیئرمین، عبدالرّزاق ساجد کا مطمعِ نظر اسرائیلی مظالم کے شکار اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنا تھا۔ 

سرزمینِ انبیاء پر چند روز
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت

یہ چھوٹا سا خطّہ سیکڑوں سال سے جنگ و جدل کی لپیٹ میںہے۔ اسے کبھی حضرت عُمر فاروقؓ نے فتح کیا، تو کبھی بخت نصر نے تاراج کر ڈالا۔ سلطان صلاح الدّین ایّوبی نے کئی صلیبی جنگوں کے بعد اسے فتح کرکے اس پر اسلام کا جھنڈا لہرایا، پھر اسے سازشوں کے ذریعے مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔محلِ وقوع کے اعتبار سے فلسطین، برّاعظم ایشیا کے مغرب میں بحرِمُردار کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ 

اس کے شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیجِ عقبہ ہے۔ جنوب مغرب میں مِصر، مشرق میں شام اور اُردن سے سرحدیں ملتی ہیں، جب کہ مغرب میں وسیع ساحل پھیلا ہوا ہے۔ فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزّہ سمیت 27ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ ہمیں رملہ، الخلیل، نابلس، خان یونس، طومکرم، عقا، یافا اور غزہ دیکھنے کا موقع ملا۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کو بہت سی نعمتوں سے نوازا، اُنھیں کئی بار اقتدار ملا، درجنوں انبیائے کرامؑ مبعوث فرمائے گئے، مگر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اس قوم جیسی پستی، بدکرداری، تنگ نظری، تعصب اور ذلّت کا مظاہرہ کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ یہودیوں نے اپنی چال بازیوں، سازشوں سے بنی نوعِ انسان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور آج وہ مظلوم و بے بس فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے اُن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بہرحال،20ستمبر کو براستہ استنبول، اسرائیل کے تل ابیب ہوائی اڈے پہنچے، تو محسوس ہوا کہ وہ دنیا کے دیگر ائیرپورٹس جیسا نہیں تھا۔ عجیب سی خاموشی اور خوف کی فضا تھی۔ 

زیادہ تر لوگ معنی خیز نظروں سے ہم جیسے چہرے، مُہرے والوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے مُلکوں کی طرح زیادہ رش تھا اور نہ ہی لوگ اپنے اپنے حال میں مست تھے، یوں لگتا تھا جیسے ہر شخص، بلکہ در و دیوار بھی ہماری طرف مشتبہ نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مانا کہ یہ خوف اور احساس ہمارے اندر کا بھی ہوسکتا تھا، مگر باقی افراد کی بھی کچھ ایسی ہی رائے تھی۔ لیگیج بیلٹ سے سامان اٹھانے کے بعد امیگریشن کائونٹر پہنچے، تو افسر کی عقابی نگاہوں نے سر تا پا ہمارا کچھ یوں جائزہ لیا، جیسے قسائی ذبح سے پہلے کھونٹے سے بندھی گائے کو دیکھتا ہے۔ 

سرزمینِ انبیاء پر چند روز
یہودی دیوارِ گریہ کے سامنے مذہبی رسومات ادا کر رہے ہیں

لندن کے اسرائیلی سفارت خانے میں ایک دوست کے توسّط سے ہمارے پاسپورٹس کی کاپیاں چند روز قبل وہاں پہنچ چُکی تھیں اور یقیناً امیگریشن حکّام نے ہماری معلومات کمپیوٹر میں فیڈ کر رکھی تھیں، اِسی لیے ایک، دو سوالات کے سِوا ہمیں کسی دِقّت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ امیگریشن کاؤنٹر سے ٹیکسی کی علامات دیکھتے ہوئے باہر آگئے۔ ٹیکسی رینک میں ترتیب سے گاڑیاں کھڑی تھیں۔ شروع میں ایک سرکاری کائونٹر تھا، جس کے باہر ایک باوَردی خاتون کھڑی تھیں، جو باری آنے پر گاہک کے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دیتیں۔ 

ہمیں بھی چِٹ دی گئی۔ ڈرائیور نے سامان ٹیکسی میں رکھا، ہمارا ایڈریس نیویگیٹر میں ڈالا اور میٹر آن کیے بغیر چل پڑا۔ صاف ستھری لیکن سڑکیں سُنسان، آس پاس اونچی نیچی پہاڑیاں اور اُن پر ترتیب سے بنے مکانات، خاص طور پر بلند و بالا عمارتیں عجب سماں باندھ رہی تھیں۔ ہمارے استفسار پر ڈرائیور نے بتایا کہ’’اسرائیل میں جمعہ اور ہفتے کی چُھٹی ہوتی ہے، ہفتے کا پہلا ورکنگ ڈے اتوار ہے۔‘‘ اُس کا کہنا تھا کہ’’ آج چوں کہ جمعہ ہے، اس لیے ہر چیز بند ہے، حتیٰ کہ کوئی چھوٹی سی دُکان بھی کُھلی نہیں ملے گی۔‘‘ ہمارا قیام مقبوضہ بیتُ المقدِس( یروشلم) کے اُس علاقے میں تھا، جہاں کی پوری آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے۔ 

یہ مقام چوں کہ القدس شریف(مسجدِ اقصیٰ) سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اس لیے ہم نے رہائش کے لیے اُسے ترجیح دی تھی۔ مقبوضہ بیتُ المقدِس کے دونوں حصّے(نئے اور پرانے) دیکھنے کی تمنّا برسوں سے دل میں مچل رہی تھی۔ نئے شہر میں تو ہر وہ چیز ہے، جو جدید شہروں میں ہوتی ہے، لیکن پرانے شہر میں، جسے چاروں طرف سے اونچی اور قدیم فصیل گھیرے ہوئے ہے، مقدّس مقامات ہیں۔ اسی کے اندر قبۃ الصخرہ، مسجدِ اقصیٰ، عیسائیوں کا مقدّس ترین چرچ، کنیسۃ القیامہ اور یہودیوں کی دیوارِ گریہ ہیں۔ پچاس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہوٹل پہنچے۔ 

اگلے روز ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پتا چلا کہ اُس یہودی ڈرائیور نے ہم سے چار گُنا زاید کرایہ وصول کیا تھا۔ یہ سُن کر بہت دُکھ ہوا، کیوں کہ ہمیں اس کی توقّع نہیں تھی، لیکن اگلے چند روز میں کئی مسلمان، عیسائی، یہودی ٹیکسی ڈرائیورز اور دُکان داروں سے لین دین کے بعد اندازہ ہوا، وہاں بلالحاظ نسل ومذہب تقریباً سب سیّاحوں کو لُوٹتے ہیں۔

اسرائیل کے زیرِ تسلّط علاقوں کے ساتھ ، ہماری کوشش تھی کہ فلسطین یا مغربی کنارے کے اُن علاقوں میں بھی ضرور جایا جائے، جہاں اسرائیلی فوج، نہتّے فلسطینیوں کا خون بہا رہی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہ علاقے سیکیوریٹی کے لحاظ سے انتہائی پُرخطر ہیں، پھر یہ کہ جب اُن علاقوں سے واپس اسرائیلی علاقے میں داخل ہوں گے، تو چیک پوسٹ پر سخت سوالات اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن ہم نے اس سب کچھ کے باوجود وہاں جانے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ ہماری پہلی منزل نابلس تھی۔ ٹیکسی میں مغربی کنارے کے لیے روانہ ہوئے۔ 

راستے میں جریکو، رام اللّٰہ، ایریل اور دیگر کئی شہر آئے۔ نابلس پہنچے، تو زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ ہم یہاں ایک لندن کے دوست کے توسّط سے ایک فلسطینی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچُکا تھا، اِس لیے فلسطینی میزبان ہمیں شہر کے وسط میں قائم ایک اعلیٰ درجے کے ریستوران میں لے گیا۔ وہاں تقریباً یورپی ماحول تھا۔ نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے لباس سے نہیں لگتا تھا کہ یہ خطّہ حالتِ جنگ میں ہے۔ لڑکیاں سرِعام شیشہ پی رہی تھیں۔ وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے بھی یہی محسوس ہوا کہ ہم کسی یورپی شہر میں گھوم رہے ہیں۔ 

میکڈونلڈ سے لے کر دنیا کے ہر برانڈ کی فوڈ چین اور شاپنگ مال وہاں موجود تھے۔ برانڈڈ شاپس اور نئے ماڈل کی بیش قیمت گاڑیاں یعنی بی ایم ڈبلیو اور مرسیڈیز عام دیکھی جاسکتی تھیں۔ غرض کہ غربت نام کی کوئی چیز وہاں دِکھائی نہیں دی۔ نابلس اور مغربی کنارے کے دیگر شہر بہ ظاہر تو خوش حال ہی نظر آئے، لیکن ہمارے میزبان کے مطابق اُن کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اُن کی پوری ریاست عملاً اسرائیلی یہودیوں کے قبضے میں ہے، حتیٰ کہ فلسطینی شہروں میں پولیس یوں تو مسلمانوں پر مشتمل ہے، لیکن بنیادی طور پر ،وہ بھی اسرائیلیوں ہی کے ماتحت کام کرتی ہے۔

دیگر ممالک کے شہری یروشلم ہو یا اسرائیل کا کوئی دوسرا شہر، وہاں جا سکتے ہیں، فلسطینی اتھارٹی کے بھی کسی علاقے میں بلاجھجک جایا جاسکتا ہے، لیکن فلسطینی مسلمان اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں نہیں جاسکتے۔ اُنہیں صرف رمضان اور جمعے کے روز بیتُ المقدِس یعنی مسجدِ اقصیٰ جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کا ایک اور مسئلہ پاسپورٹس کا بھی ہے۔ اُن کے پاس تُرکی، اُردن یا مِصر کے پاسپورٹ ہیں، لیکن یہ پاسپورٹس صرف بیرونِ ممالک سفر کے لیے دئیے گئے ہیں، اُن کی حیثیت مذکورہ ممالک کی شہریت کی نہیں ہے۔

بیتُ المقدِس کے قدیم شہر سے کوئی آٹھ کلومیٹر جنوب کی طرف بیتُ اللّحم واقع ہے۔ یہ چھوٹا سا گائوں پوری دنیا کے عیسائیوں کے لیے انتہائی مقدّس مقام ہے، کیوں کہ اُن کے مطابق یہاں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوئی تھی۔وہاں صلیب کی شکل کا ایک چرچ بنا ہوا ہے۔ اس گائوں کے گرد سفید پتھروں کی فصیل تعمیر کی گئی ہے۔ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ ایک روایت کے مطابق حضرت دائودؑ کی پیدائش بھی اسی جگہ ہوئی تھی۔ 

اس بستی کے تقریباً تمام رہائشی عیسائی ہیں اور اُن کی گزر اوقات سیّاحت ہی پر ہے۔ یہ علاقہ کبھی اُردن میں شامل تھا، لیکن 1967ء کی جنگ میں اس پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ اسرائیلی قبضے کے باوجود زیادہ تر انبیائے کرامؑ کے مزارات اور مقاماتِ مقدّسہ فلسطینی علاقوں میں ہیں۔ اسرائیل میں ہمارے ایک میزبان نے بتایا کہ غزہ جانا ممکن نہیں، کیوں کہ وہاں فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے مابین جھڑپیں روز کا معمول ہیں۔ 

چناں چہ ہم وہاں نہیں گئے۔ بہ ظاہر تو اسرائیلی یہی کہتے ہیں کہ اُن کا ہدف فلسطینی عسکریت پسند اور حماس کے اسلحے کے ذخائر ہیں، حالاں کہ فلسطینیوں کے پاس اپنے دفاع کے لیے کسی قسم کے جدید ہتھیار نہیں ہیں۔ اُن کے پاس کوئی توپ خانہ ہے، نہ باقاعدہ فوج۔ جنگی جہاز ہیں، نہ بحری بیڑے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ جنگ نہیں، بلکہ منظّم نسل کُشی اور قتلِ عام ہے، لیکن حیرت ہے کہ دنیا کے 52سے زاید مسلمان ممالک شرم ناک حد تک خاموش ہیں۔

ہم تل ابیب پہنچے، تو اسرائیل میں عام انتخابات کو دو روز ہی گزرے تھے اور حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ جاری تھا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کی ایک اعلیٰ خاتون عہدے دار، امیرہ اردون نے ایک ملاقات میں بتایا کہ’’ اسرائیل کی پارلیمینٹ میں 14 عرب مسلمان بھی ہیں۔ ہم فلسطین تنازعے کا پُرامن حل چاہتے ہیں، لیکن دوسری طرف سے گوریلا کارروائیوں کی وجہ سے اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے۔‘‘تاہم، غیر جانب دار ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات خاتون عُہدے دار کے دعوے کی تردید کرتی ہیں، سو ہمارے لیے بھی اُن سے اتفاق ممکن نہ تھا۔ 

امیرہ نے دورانِ گفتگو اِس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آخر پاکستانی پاسپورٹ پر یہ کیوں لکھا گیا ہے کہ’’ پاسپورٹ ہولڈر اسرائیل نہیں جاسکتا۔‘‘ اُن کے مطابق’’ ہم تو پاکستان سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں اور اگر پاکستان چاہے، تو سفارتی تعلقات بھی استوار ہوسکتے ہیں۔‘‘تاہم اس حوالے سے پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج ہر سال 500 سے زائد فلسطینی بچّوں کو گرفتار کرلیتی ہے، جن میں سے کچھ کی عُمریں 12سال یا اس سے بھی کم ہوتی ہیں۔اسرائیل شاید دنیا کا وہ واحد مُلک ہے، جہاں بچّوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔

القدس شریف ہماری رہائش کے قریب تھا، اس لیے ہم تقریباً روز ہی وہاں جاتے۔ مسجدِ اقصیٰ اور دیگر مقدّس مقامات کی زیارت کرتے۔ بیتُ المقدِس کی تاریخ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پُرانی ہے اور یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ کئی بار جنگ و جدل سے تباہ ہوا اور دوبارہ بسا۔ اسی پُرانے شہر کے اندر’’ دیوارِ گریہ‘‘ بھی ہے، جو یہودیوں کے لیے انتہائی مقدّس ہے۔ اس دیوار تک جانے کے لیے مسجدِ اقصیٰ سے باہر نکل کر دائیں ہاتھ مُڑیں، تو تنگ گلیوں سے گزر کر تقریباً پانچ منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے۔ 

دیوار تک پہنچنے سے پہلے ایک پولیس پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں سے کڑی تفتیش کے بعد ہی آگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہ دیوار اُن کے معبد کا ایک بچا ہوا حصّہ ہے۔ جب کہ مسلمان اسے’’ دیوارِ برّاق‘‘ کہتے ہیں، کیوں کہ مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں دائیں طرف وہ مقام ہے، جہاں نبی اکرمﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے براق (وہ سواری، جس پر رسول اللہ ؐ شبِ معراج سوار ہوئے) کو باندھا تھا۔ چناں چہ یہ دیوار ایک طرف سے یہودیوں اور دوسری طرف سے مسلمانوں کے لیے متبرّک ہے۔ ہیکلِ سلیمانی درحقیقت ایک عبادت گاہ تھی، جو یہودی نقطۂ نظر سے حضرت سلیمانؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جنّات سے تعمیر کروائی۔ 

اس کے اندر تابوتِ سکینہ بھی رکھا گیا۔ مسجدِ اقصیٰ کے باہر سیکوریٹی پر مامور بدر نامی ایک محافظ نے بتایا کہ’’یہودیوں نے دیوارِ گریہ کی طرف سے تابوتِ سکینہ کی تلاش میں کئی سُرنگیں کھود رکھی ہیں۔ آئے روز مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین کسی نہ کسی بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے، جس کے بعد اندرونِ شہر کا یہ سارا علاقہ سیل کردیا جاتا ہے۔‘‘تابوتِ سکینہ کے متعلق روایت ہے کہ اُسے شمشاد نامی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ اس مقدّس صندوق میں حضرت موسٰیؑ کا عصا، مَن و سلویٰ، حضرت سلیمانؑ اور دیگر انبیائے کرامؑ کی یادگاریں تھیں۔ 

یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ اس تابوت کی برکت سے ہر پریشانی کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ یہودی اس صندوق کو لشکر کے سامنے رکھ دیا کرتے اور اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے۔ بائبل کی روایت کے مطابق جب حضرت دائودؑ کو بادشاہت عطا ہوئی، تو اُنہوں نے اپنے لیے ایک محل تعمیر کروایا۔ ایک روز اُنھیں خیال آیا کہ قوم کا معبد آج بھی ایک خیمے میں رکھا ہے، چناں چہ اُنھوں نے ہیکل تعمیر کروانے کا ارادہ کیا،جسے اُن کے صاحب زادے، حضرت سلیمانؑ نے 970 قبل از مسیح میں مکمل کروایا۔ مسجدِ اقصیٰ اور اس کے احاطے کی چار دیواری دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی تعمیرات انسانوں کے بس میں نہیں تھیں۔ 

بھاری اور دیوہیکل پتھروں کو جنّات ہی نے دیواروں کی شکل دی ہوگی۔ حضرت عیسیٰ ؑ سے کوئی پانچ سو سال پہلے، ہابل کا بادشاہ، بخت نصر حملہ کرکے لاکھوں یہودیوں کو قتل، ہیکل کو تباہ کرنے کے بعد، تابوتِ سکینہ بھی اپنے ساتھ لے گیا، لیکن یہودیوں کا خیال ہے کہ تابوتِ سکینہ اب بھی مسجدِ اقصیٰ کے نیچے کہیں موجود ہے، اسی لیے وہ وہاں کھدائی کرتے رہتے ہیں۔ اندرونِ شہر کی انتہائی قدیم اور تنگ گلیوں میں زیادہ تر دُکانیں مسلمانوں کی ہیں، تاہم یہودی اور عیسائی بھی وہاں کاروبار کرتے ہیں۔ وہاں رہنے والے مسلمان غریب ہیں، اُن کی خواتین برقع پہنے سارا دن پھلوں اور سبزیوں کے ٹوکرے رکھے بیٹھی رہتی ہیں۔

مسجدِ اقصیٰ کے دالان میں داخل ہوں، تو پہلے گنبدِ صخرہ کی عمارت آتی ہے۔ عام طور پر اسی عمارت کو مسجدِ اقصیٰ سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ مختلف تصاویر میں یہی مسجد دِکھائی جاتی ہے، حالاں کہ مسجدِ اقصیٰ تو اس کے بالکل سامنے چند سیڑھیاں نیچے اُتر کر واقع ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قبتہ الصخرہ وہ جگہ ہے، جہاں حضورﷺ نے معراج پر جانے سے قبل نوافل ادا کیے اور یہیں سے حضرت جبرائیلؑ کے ہم راہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ دوسری طرف، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ’’ ڈوم آف دی راک‘‘ اصل میں’’ مائونٹ موریا‘‘ ہے، جہاں حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسحٰقؑ کو قربانی کے لیے لِٹایا تھا، جب کہ مسلمانوں کے مطابق یہ واقعہ مکّۃ المکرّمہ میں حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ 

قرآنِ پاک میں اس مقدّس مقام کا ذکر موجود ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ پاک ہے وہ ذات، جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک سیر کروائی، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اُنھیں اپنی نشانیاں دِکھائیں۔ بے شک وہ سُننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘

بیتُ المقدِس سے روانہ ہوئے، تو تقریباً 40منٹ کے مسافت طے کر کے حضرت موسٰیؑ سے منسوب مزار پر جا پہنچے۔ یہ مزار رتیلے، چٹیل پہاڑوں کے درمیان صحرائے یہودا کے کنارے واقع ہے۔ یہ چھوٹی سی بستی’’ نبی موسٰیؑ‘‘ کہلاتی ہے۔ مزار پر بہت کم لوگ تھے۔ ایک چھوٹی سی دُکان تھی، جس میں تسبیحاں اور اسی قسم کی دیگر اشیاء رکھی گئی تھیں۔ تھوڑی دُور دو اونٹ کھڑے تھے اور ایک کوسٹر سے چند سیّاح اُتر رہے تھے۔ 

لق دق صحرا، گرمی کی شدّت 40سینٹی گریڈ تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور کے مطابق، یہ مقام یروشلم سے کافی نیچے ہے۔ جوں جوں آگے جائیں، گرمی بڑھتی جائے گی، تھوڑا آگے بحرِ مُردار شروع ہوجاتا ہے، جب کہ اُردن کی پہاڑیاں بھی وہاں سے صاف دِکھائی دے رہی تھیں۔عبدالرّزاق ساجد چوں کہ امدادی دورے کی نیّت سے آئے تھے، لہٰذا جہاں کہیں کوئی غریب، ضرورت مند یا جنگ سے متاثر مسلمان دِکھائی دیا، اُس کی دِل کھول کر مالی مدد کی۔ مسجدِ اقصیٰ میں بچّوں، عورتوں اور بے آسرا مسلمانوں کو ساتوں دن کھانے پینے کی اشیاء کی صُورت یا مالی طور پر اُن کی مدد کرتے رہے۔ فلسطین کے زیرِ انتظام ایک اسپتال میں نوزائیدہ بچّوں کی اُن مائوں کی بھی مدد کی، جو جنگ زدہ علاقوں سے وہاں پہنچی تھیں۔ 

اُنہوں نے مسجدِ اقصیٰ کے امام اور ڈائریکٹر، شیخ عُمر الکسوانی سے ملاقات کی اور اُنھیں پاکستان اور لندن کے دورے کی دعوت دی، جو اُنہوں نے قبول کرلی۔ ایک ہفتے کے اس دَورے میں ایک بات شدّت سے محسوس کی کہ یہودی مسلمانوں سے واقعی نفرت کرتے ہیں۔ چوں کہ ہمارے پاس برطانوی پاسپورٹ تھے، اس لیے ہم جگہ جگہ قائم پولیس ناکوں اور ہوائی اڈّے پر مجرموں جیسی تفتیش سے بچتے رہے، وگرنہ یہودی تو مسلمانوں سے بات تک کرنے کے روادار نہیں۔ 

ہم کسی یہودی ٹیکسی ڈرائیور کو روکتے، تو اوّل تو وہ رُکتا ہی نہیں تھا، اگر رُک جاتا، تو بڑی نفرت سے مسجدِ اقصیٰ جانے سے انکار کردیتا۔ البتہ یہودیوں میں انسان دوست اور سیکولر ذہن رکھنے والے بھی موجود ہیں۔ ہمارے ساتھی، راجا فیض سلطان کی راہ چلتے عینک گر گئی، تو پیچھے آنے والے ایک یہودی نے، جو تھا بھی آرتھوڈکس، یعنی سخت مذہبی، جُھک کر عینک اٹھائی اور راجا صاحب کو پکڑا کر ہلکی مُسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح جب ہم پہلے روز یروشلم پہنچے، تو ایک یہودی نے قیام کی جگہ تلاش کرنے میں مدد کرتے ہوئے کہا’’ویلکم! آپ ہمارے کزن ہیں۔‘‘ اُس نے بتایا کہ وہ دو بار پاکستان جا چُکے ہیں اور اُن کی اہلیہ کا تعلق لاہور سے ہے، اب وہ امریکا میں رہتے ہیں۔

اس مقدّس خطّے کے دَورے میں یہ بات بھی تجربے میں آئی کہ وہاں کا زیارتوں وغیرہ کا ماحول پاکستان یا برّصغیر سے قطعی مختلف ہے۔ ہمارے ہاں بزرگوں کے مزارات پر جس طرح منّتیں مانگی اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں، وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ زائرین آتے ہیں، کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر دُعا کرتے اور چلے جاتے ہیں۔ چندے کی پیٹیاں ہیں اور نہ ہی ان مزارات کا کوئی متولّی بنا بیٹھا ہے۔ ملنگ ہوتے ہیں، نہ دھمال اور قوالیاں۔ حتیٰ کہ جوتوں تک کا ٹھیکہ کسی کے پاس نہیں۔ ان تمام مقدّس جگہوں پر ایک توقیر آمیز خاموشی ہے۔ انتظامیہ نے ان مقامات کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنا رکھا۔

تازہ ترین