• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاتم الانبیاء، سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پیغام کی عظمت و آفادیت

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

سیّدِ عرب و عجم، ہادیِ اعظم، فخر دو عالم، سرورِکائنات حضرت محمد ﷺ کی پیغمبرانہ خصوصیات میں سب سے اہم اور نمایاں خصوصیت آپﷺ کا امام الانبیاء، سیّدالمرسلین اور خاتم النبیین ہوناہے۔ آپﷺ کی دعوت، آپﷺ کا پیغام اور دین اسلام کائناتی اور آفاقی ہے۔ آپﷺ بنی نوع آدم اور عالم انس وجن کے لیے دائمی نمونۂ عمل اور خاتم الانبیاء بنا کر مبعوث فرمائے گئے اور آپﷺ پر دینِ مبین کی تکمیل کردی گئی۔ یعنی پوری انسانیت آپ ﷺکی امّت اور آپﷺ پوری انسانیت کے لیے بشیر ونذیر ہیں۔ 

اس ابدی حقیقت کی وضاحت قرآنِ کریم کی اس آیت میں بھی بہ تمام وکمال کر دی گئی۔ ارشادِ ربّانی ہے:’’اور ہم نے آپﷺ کو تمام انسانوں کے لیےخوش خبری سُنانے والا اور آگاہ کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘‘(سورۂ سبا 28/)۔ آپﷺ کی نبوّت ورسالت کی آفاقیت اور عالم گیریت کے حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے:’’کہہ دیجیے، اے لوگو، میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں۔(سورۃ الاعراف /158)۔

پوری کائنات اور عالمِ انسانیت کو آپﷺ کے ابدی اور مثالی پیغام کا مخاطب اور آپﷺ کی دعوت وتبلیغ کے زیرِاثربھیجےجانےکےحوالےسے ارشاد ہوا:’’برکت والا ہے وہ پروردگار، جس نے حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندے (محمدﷺ) پر نازل کی، تاکہ وہ دنیا جہاں کے لیے ہوشیار وآگاہ کرنے والا ہو۔‘‘(سورۃالفرقان /2,1)۔ہادیِ آخرواعظم، سیّدِ عرب وعجم، حضرت محمدﷺ انسانیت کے ہادی بناکرمبعوث فرمائےگئے اور آپﷺ کی بہت سی احادیث میں بھی اس ابدی حقیقت کو بیان کیاگیاہے۔ رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’میں کالے اور گورے (مشرق ومغرب) تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیاگیاہوں۔‘‘( احمد بن حنبل / المسند، 416/4)۔ ایک موقعے پر آپ ﷺنے اپنی پیغمبرانہ خصوصیت کےحوالےسےارشاد فرمایا:’’میں (عمومیت کے ساتھ) تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیاہوں، حالاں کہ مجھ سے پہلے جو نبی بھی مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے۔‘‘ (ایضاً)- رسول اللہﷺ کا ایک ارشادِ گرامی حضرت جابربن عبداللہ ؓ سے روایت ہے: پہلے ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیے جاتے تھے اور مَیں تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ (بخاری / الجامع الصحیح، کتاب الوضوء،86/1)

اس ابدی حقیقت کو جان لینے کے بعد دوسرے پہلو کی طرف آئیے۔ رسول اکرمﷺ چوں کہ ہادی عالم اور خاتم الانبیاء ہیں، آپﷺ پر دینِ مبین کی تکمیل کردی گئی، لہٰذا آپؐ کی حیاتِ طیبہ کا ہر ہر گوشہ، دینِ مبین کی قولی یا عملی تعلیم، تشریح وتعبیر یا تبلیغِ دین کا حصّہ ہے، جس کا بہ تمام وکمال محفوظ رہنا ضروری تھا۔ اس اہم اور ناقابلِ تردید نکتے کو جان لینے کے بعد آئیے رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کی طرف۔ 

انسانی زندگی کے دوپہلو ہوتے ہیں، ایک بیرونی اور دوسرا خانگی یا اندرونی، کسی بھی شخصیت کی عملی حالت، اس کے اخلاق وکردار، اس کی سیرت وحیات کے مختلف گوشوں اور پہلوئوں کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے دونوں اہم پہلوئوں، بیرونی اور اندرونی زندگی کے تمام حالات بیان کیے جائیں۔ بہ الفاظِ دیگر بہ تمام وکمال حالات کا علم ہو۔ چناں چہ بیرونی زندگی اس کیفیت اور حالت کانام ہے جو انسان عام لوگوں کے سامنے بسرکرتا ہے۔ 

اس حصّے کے متعلق انسان کے تفصیلی حالات معلوم کرنے یا اس کے جاننے کے لیے کثرت سے شواہد دست یاب ہو سکتے ہیں۔ سو، اس حوالے سے خاتم النّبیین، سیّد المرسلینﷺ کی حیاتِ طیبہ کو دیکھاجائے،تو یہ بات انتہائی فخر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے رسولِ اکرمﷺ کی سیرت وکردار، اخلاق و تعلیمات اور دیگر گوشوں کو اس کمال کےساتھ محفوظ کیا کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور یہ ضروری بھی تھا، اس لیے کہ آپ ﷺکی ذاتِ اطہر پردینِ اسلام کی تکمیل کردی گئی۔ 

 آپﷺ کا ہر ہر عمل، آپﷺ کا ہر فرمان دین کا ترجمان اور فی الحقیقت دین ہے، خود قرآن اس حقیقت کی گواہی دے چُکا ہے: وہ (نبیﷺ) اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے، وہ تو سراسر وحی ہے، جو آپﷺ کی طرف بھیجی گئی ہے۔ (سورۃالنجم/4-3) لہٰذا آپﷺ کی حیاتِ طیّبہ کے دونوں اہم پہلوئوں، بیرونی زندگی اور خانگی یا اندرونی زندگی دونوں کی پوری پوری حفاظت ضروری تھی، اور تاریخ اس کی شاہد ہے کہ اس کی پوری پوری حفاظت کی گئی۔

صحابہؓ وصحابیاتؓ اور امّت کی امّہات ومعلّمات ازواجِ مطہراتؓ نے آپﷺ کی سیرت وسنّت کی جس طرح حفاظت کی اور اسے جس صداقت و دیانت اور احتیاط کے ساتھ امّت کی طرف منتقل کیا، وہ اسلامی تاریخ کاشان دار اور مثالی کارنامہ ہے، چناں چہ آپﷺ کے ذاتی حالات میں کہیں چند، کہیں بہ کثرت روایات موجود ہیں اور ان میں سے ہر ہر پہلو صاف اور روشن ہے۔ اندرونی اور خانگی زندگی میں آپﷺ ازواجِ مطہراتؓ کے مجمعے میں ہوتے تھے، باہر معتقدین اور صحابۂ کرام ؓ کی محفل میں۔ یورپ کے مشہور مورخ گبّن نے لکھا ہے: ’’تمام پیغمبروں میں سے کسی نے اپنے پیروئوں کا اس قدر سخت امتحان نہیں لیا، جس قدر محمدﷺ نے۔ انہوں نے دفعتاً اپنی ذات کو سب سے پہلے اُن لوگوں کےسامنے پیش کیا جو انہیں بہ حیثیت انسان بہت اچھی طرح جانتے تھے، اپنی بیوی، اپنے غلام، اپنے بھائی، اپنے سب سے واقف کار دوست کے سامنے پیش کیا، اور ان سب نے بلا پس وپیش آپﷺ کے دعوے کی صداقت کو تسلیم کرلیا۔ 

بیوی سے بڑھ کر انسان کی اندرونی زندگی کا واقف کوئی اور نہیں ہوسکتا، لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ آںحضرتﷺ کی صداقت پر سب سے پہلے آپﷺ ہی کی زوجۂ محترمہ (امّ المومنین) حضرت خدیجہؓ ایمان لائیں، وہ نبوّت سے پہلے پندرہ برس تک آپﷺ کی رفاقت میں رہ چُکی تھیں، اور آپﷺ کے ہرحال اور ہر کیفیت کی نسبت ذاتی واقفیت رکھتی تھیں، بہ ایں ہمہ جب آںحضرتﷺ نے اعلانِ نبوت کیا تو سب سے پہلے اُن ہی نے اس دعوے کی سچائی تسلیم کی۔

بڑے سے بڑا انسان بھی یہ ہمّت نہیں کرسکتا کہ یہ اذنِ عام دے دے کہ میری ہربات، ہر حالت اور ہر واقعے کو بر ملا کہہ دیا جائے، مگر رسولِ اکرمﷺ کی تمام ازواج مطہراتؓ کو یہ اذنِ عام تھا کہ وہ حیاتِ طیّبہ اور آپﷺ کی سیرت واخلاق کو بعینہ بیان کردیں، اِسے عام لوگوں تک پہنچا دیں۔ کیا اس اخلاقی وثوق واعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟

صحابہ وصحابیاتؓ اور ازواجِ مطہراتؓ نے رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دونوں اہم پہلوئوں، بیرونی اور اندرونی و خانگی زندگی کے حالات و واقعات، آپﷺ کی تعلیمات، احادیث و روایات اور دیگر گوشوں کو جس اہتمام، تمام وکمال، حزم واحتیاط اورجزئیات وکلّیات کےساتھ محفوظ کیا، اُسےعلاّمہ سیّد سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النّبی‘‘ جلد ہفتم اور ’’خطباتِ مدراس‘‘ میں انتہائی تحقیق و تفصیل کے ساتھ درج کردیا ہے۔ 

حیاتِ طیبّہ کے بیرونی حالات بہ تمام و کمال صحابۂ کرامؓ کی مقدس جماعت نے دنیا کو پہنچائے، جس کی نظیر کسی ملّت ومذہب میں نہیں ملتی۔ کسی امّت نے اپنے نبی کی زندگی کےحالات اس تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ تو کیا، اِس کا عُشرِ عشیر بھی دنیا کے سامنے پیش نہیں کیے۔ جس طرح اسلام ایک عالم گیر اور آفاقی دین ہے، اسی طرح خاتم الانبیاء، سرکار دوجہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرتِ طیبہ اور آپﷺ کا پیغام بھی آفاقی عظمت اور عالم گیر اہمیت کا حامل ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے رسول اکرمﷺ کی سیرتِ طیبہ، آپ ﷺکے فرامین اور ارشادات کو اُمّت تک پہنچا کر آپﷺ کے پیغام کی عظمت کا اظہار کیا۔

رسول اللہﷺ نےخطبۂ حجۃ الوداع کے تاریخ ساز موقعے پر جو کہ تکمیلِ دین کا اہم مرحلہ تھا، صحابۂ کرام ؓ کے عظیم اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے بار بار اپنے پیغام کی عظمت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا: ’’آگاہ رہوکہ میں نے دین کی تبلیغ کا حق ادا کردیا، تو جو تم میں اس وقت موجود ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ دین کایہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں ہیں۔‘‘ 

تاریخ شاہد ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے اس حُکم کی اتّباع جس طرح صحابۂ کرامؓ نے کی اور آپ ﷺکے ابدی اور مثالی پیغامِ رشدوہدایت کو دنیامیں عام کرنے میں جو تاریخ ساز کردار انہوں نے ادا کیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپﷺ کے پیغام کی عظمت وآفاقیت کے پیشِ نظر صحابۂ کرام ؓ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد آپﷺ کی ہدایت و وصیت کے نتیجے میں دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے دنیا کےکونے کونے میں تشریف لے گئے، اور دنیا کو اسلام کے نور سے منوّر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 

دوسری طرف آپﷺ کی خانگی اور اندرونی زندگی کےحالات وتعلیمات اورپیغام کو امّہات المومنینؓ یعنی ازواج مطہرات ؓ نے امّت کے سامنے پیش کیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکارِدوجہاں، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی سیرتِ طیبہ کو حرزِ جان بنالیا جائے۔ آپﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور آپﷺ کے مثالی اور ابدی پیغامِ امن و سلامتی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہی دین و دنیا میں ہماری کام یابی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ اور فلاح کی یقینی ضمانت ہے۔

تازہ ترین