• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کراچی کے مسائل‘ سب کو اس کی تعمیر اور ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی

پاکستان کا پہلا دارالحکومت اور صوبہ سندھ کا دارالخلافہ کراچی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مولد و مسکن، رقبے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سمندری پورٹ اور ملک کا صنعتی و تجارتی شہر ہونے کی وجہ سے کراچی میں روزگار کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا میڈیا سینٹر ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز بھی ہے۔ اسکول، کالج اور جامعات کی سب سے بڑی تعداد کراچی میں ہے۔یہ ملک کا سب سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والا شہر ہے۔ ایک غریب پرور شہر ہے۔ 

ان سب وجوہات سے کراچی کی آبادی میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت تقریباً دس لاکھ آبادی والے شہر کی اس وقت آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ جنوب تا شمال، مشرق تا مغرب 3780 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے شہر کراچی کی آبادی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یہاں ایک مربع کلو میٹر علاقے میں تقریباً چوبیس ہزار افراد رہائش پذیر ہیں۔ 

یہاں آباد لوگوں کی اکثریت اردو بولنے والوں کی ہے۔ اس کے کئی علاقوں میں لاکھوں سندھی اور بلوچ کئی صدیوں سے آباد ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ یہاں پختون، پنجابی، سرائیکی، کشمیری اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے افراد بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ 

مختلف وفاقی، صوبائی اور ضلعی ٹیکسز کی صورت میں کراچی ملک اور صوبے کو سب سے زیادہ وسائل فراہم کرتا ہے۔ انتہائی دکھ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ تیزی سے پھیلتے ہوئے اس ساحلی، صنعتی اور تجارتی شہر کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی طرف سے منظم اور سنجیدہ کوششوں اور مالیاتی وسائل کی بوجوہ بہت کمی رہی ہے۔ 

کراچی کے بڑے بڑے مسائل میں پانی کی فراہمی، سیوریج نظام، پبلک ٹرانسپورٹ، سڑکوں اور پلوں کی ابتر صورت، برساتی پانی کی بروقت نکاسی نہ ہونا، ٹریفک مینجمنٹ، پبلک ہیلتھ کا ناقص نظام، پرائمری اور سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری تعلیم کی سرکاری سطح پر فراہمی میں حکومتوں کی عدم دلچسپی، کچی آبادیوں کا پھیلاؤ، جرائم میں روز بہ روز اضافہ، اسپورٹس اور تفریحی سہولیات کی عدم فراہمی، سرکاری زمینوں اور نجی املاک پر قبضے حتیٰ کہ ندی نالوں اور دیگر آبی گزر گاہوں میں مکانات کی تعمیر، کھیل کے میدانوں، پبلک پارکس اور دیگرایمینیٹی پلاٹس پر قبضہ مافیا کا راج اور دیگر کئی مسائل شامل ہیں۔

مذکورہ بالا میں سے کئی مسائل کے حل کے لیے کسی لمبی چوڑی منصوبہ بندی یا بہت بڑے فنڈز کی بھی ضرورت نہیں بلکہ یہ مسائل محض چند انتظامی اقدامات سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔ یہ انتظامی اقدامات نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ کئی حلقوں میں کراچی کے لیے اخلاص کی کمی ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جس سطح پر ایک اونرشپ کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ وہ اونرشپ یا وابستگی نظر نہیں آتی۔

پاکستان بلکہ اسلامی ممالک کا سب سے بڑا شہر، جو کبھی عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ آج کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے مالیاتی مرکز میں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز کی وجہ سے شہری اب بھی عدم تحفظ اور خوف میں مبتلا ہیں۔ 

مزدوروں، نیم ہنر مندوں، ہنر مندوں اور پروفیشنلز کی سب سے بڑی تعداد کو کراچی میں روزگار ملا ہوا ہے۔ پاکستان اور صوبہ سندھ کو سب سے زیادہ وسائل اور سب سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے والے شہر کا حال یہ ہے کہ اڑھائی کروڑ آبادی کی نقل و حرکت کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں۔ 

پبلک ٹرانسپورٹ خاص طور پر ماس ٹرانزسٹ منصوبے حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور روایتی سرخ فیتے کی وجہ سے دہائیوں سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ متروکہ سرکلر ریلوے کو اب سی پیک میں شامل کرکے دوبارہ بحال کیا جارہا ہے۔ اس کی بحالی اور تعمیر تو کے لیے شہری اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔ 

سرجانی ٹاؤن تا ٹاور کراچی گرین لائن بس پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہوتی جارہی ہے۔ سیوریج کا نظام بوسیدہ ہوچکا ہے۔ کئی علاقوں میں گٹر ابلنے سے شہریوں کو اذیتوں، نقل و حرکت میں رکاوٹوں، گندے پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا سامنا ہے۔ 

کراچی کا ایک مسئلہ رہائشی مکانات کی فلیٹس یا اپارٹمنٹس میں تبدیلی بھی ہے۔ 120،200یا 400 گز کے جس ایک یا دومنزلہ مکان میں دو خاندان رہائش پذیر تھے، شہری ادارے ان پلاٹس پر کئی منزلہ فلیٹس یا اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کے اجازت نامے جاری کر رہے ہیں۔ اس طرح آٹھ دس افراد کی رہائش والی جگہ پر اب پچاس ساٹھ یا کہیں ان سے بھی زیادہ افراد رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

کراچی کے مسائل حل کرنے کےلئے سیاسی جماعتوں میں بھرپور سیاسی عزم اور اسٹیبلشمنٹ میں پروفیشنل اہلیت کے بھرپور اظہار کی ضرورت ہے۔ہم سب کو مل کر کراچی کی تعمیر اور ترقی میں اپنا اپنا کردار مخلصانہ طور پر ادا کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

تازہ ترین