• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد حمزہ

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند سب سے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت اور دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی یہاں ہے۔ کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دارالحکومت بھی رہا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستیوں میں سے ایک کا نام کولاچی جو گوٹھ تھا۔

انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کی آمد ہوئی۔ بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔

پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں اور اس وجہ سے یہاں مختلف مذہبی، نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔ کراچی کو اسی وجہ سے منی پاکستان بھی کہتے ہیں۔

شہر کا رقبہ 3،527 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ ایک ناہموار میدانی علاقہ تھا، جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں تھیں۔ شہر کے درمیان سے دو بڑی ندیاں گزرتی ہیں، ملیر ندی اورلیاری ندی۔ اس کے ساتھ ساتھ شہر سے کئی اور چھوٹی بڑی ندیاں گزرتی ہیں۔

کراچی شہر کی بلدیہ کا آغاز 1933ء میں ہوا۔ ابتدا میں شہر کا ایک میئر، ایک نائب میئر اور 57 کونسلر ہوتے تھے۔ 1976ء میں بلدیہ کراچی کو بلدیہ عظمی کراچی بنا دیا گیا۔ سن 2000ء میں حکومت پاکستان نے سیاسی، انتظامی اور مالی وسائل اور ذمہ داریوں کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے بعد 2001ء میں اس منصوبے کے نفاذ سے پہلے کراچی انتظامی ڈھانچے میں دوسرے درجے کی انتظامی وحدت یعنی ڈویژن، کراچی ڈویژن، تھا۔ کراچی ڈویژن میں پانچ اضلاع، ضلع کراچی جنوبی، ضلع کراچی شرقی، ضلع کراچی غربی،ضلع کراچی وسطی اور ضلع ملیر شامل تھے۔

سن 2001ء میں ان تمام ضلعوں کو ایک ضلعے میں جوڑ لیا گیا۔ اب کراچی کا انتظامی نظام تین سطحوں پر واقع ہے۔

سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن، یونین کونسل ایڈمنسٹریشن۔

ضلع کراچی کو 18 ٹاؤن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سب کی منتخب بلدیاتی انتظامیہ موجود ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں پانی کی فراہمی، نکاسی آب، کوڑے کی صفائی، سڑکوں کی مرمت، باغات، ٹریفک سگنل اور چند دیگر زمرے آتے ہیں۔ بقیہ اختیارات ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہیں۔

یہ ٹاؤنز مزید 178 یونین کونسلوں میں تقسیم ہیں جو مقامی حکومتوں کے نظام کی بنیادی اکائی ہے۔ ہر یونین کونسل 13 افراد کی باڈی پر مشتمل ہے، جس میں ناظم اور نائب ناظم بھی شامل ہیں۔ یوسی ناظم مقامی انتظامیہ کا سربراہ اور شہری حکومت کے منصوبہ جات اور بلدیاتی خدمات کے علاوہ عوام کی شکایات حکام بالا تک پہنچانے کا بھی ذمہ دار ہے۔

کراچی شہر مندرجہ ذیل قصبات میں تقسیم ہے: نیو کراچی ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ،صدر، شاہ فیصل، سائٹ، کیماڑی ، کورنگی ، لانڈھی، لیاقت آباد، لیاری، ملیر، بلدیہ ، بن قاسم ، گڈاپ ، گلبرگ ، گلشن اورجمشید ٹاؤن۔

واضح رہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں قائم ہے لیکن وہ کراچی کا ٹاؤن نہیں اور نہ ہی کسی ٹاؤن کا حصہ ہے بلکہ پاک افواج کے زیر انتظام ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ آبادی اردو بولنے والے مہاجرین کی ہے جو 1947ء میں تقسیم برصغیرکے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آکر کراچی میں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان سے آئے ہوئے ان مسلم مہاجرین کو نو آموز مملکت پاکستان کی حکومت کی مدد سے مختلف رہائش گاہیں نوازی گئیں، جن میں سے اکثر پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے والی ہندو اور سکھ برادری کی تھی۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی لسانی تقسیم اس طرح سے ہے: اردو بولنے والے 65 فیصد، پنجابی 8 فیصد، سندھی 7.22 فیصد، پشتو 11.42 فیصد، بلوچی 4.34 فیصد، سرائیکی 2.11 فیصد، دیگر 7.4 فیصد۔ دیگر میں گجراتی، داؤدی بوہرہ، میمن، گھانچی، براہوی، مکرانی، بروشسکی، عربی، فارسی اور بنگالی شامل ہیں۔ شہر کی اکثریت مسلمان ہے جن کی تعداد 96.49 فیصد ہے۔ عیسائی 2.35 فیصد، ہندو 0.83 فیصد، احمدی 0.17 فیصد اور دیگر 0.13 فیصد ہیں۔ دیگر میں پارسی، یہودی اور بدھ مت شامل ہیں۔

قومی محصولات کا 70 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کے تمام سرکاری و نجی بینکوں کے دفاتر کراچی میں قائم ہیں۔ جن میں سے تقریبا تمام کے دفاتر پاکستان کی وال اسٹریٹ ’’آئی آئی چندریگر روڈ‘‘ پر قائم ہیں۔

بینکنگ اور تجارتی دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی میں پاکستان میں کام کرنے والے تمام کثیر القومی اداروں کے بھی دفاتر قائم ہیں۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا بازار حصص کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی موجود ہے جو 2005ء میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 7 فیصد اضافے میں اہم ترین کردار قرار دیاجاتا ہے۔

یہاں پاکستان کا سافٹ ویئر مرکز بھی ہے۔ کئی نجی ٹیلی وژن اور ریڈیو چینلوں کے صدر دفاتر بھی یہاں ہیں، جن میں سے جیو، اے آر وائی، ہم، اور آج مشہور ہیں۔

کراچی میں کئی صنعتی زون واقع ہیں جن میں کپڑے، ادویات، دھاتوں اور آٹو موبائل کی صنعتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مزيد برآں ایک نمائشی مرکز ایکسپو سینٹر بھی ہے، جس میں کئی علاقائی و بین الاقوامی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں۔ ٹویوٹا اور سوزوکی موٹرز کے کارخانے بھی یہیں قائم ہیں۔ اس صنعت سے متعلق دیگر اداروں میں ملت ٹریکٹرز، آدم موٹر کمپنی اور ہینو پاک کے کارخانے بھی یہیں موجود ہیں۔

کراچی بندرگاہ اور محمد بن قاسم بندرگاہ پاکستان کی دو اہم ترین بندرگاہیں ہیں ،جبکہ جناح ٹرمینل ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے۔اسے اڈہ 1993ء میں ایک فرانسیسی ادارے نے تیار کیا۔

کراچی شہر میں ہے کئی جامعات اور کالجز قائم ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل اسٹیڈيم بھی یہاں ہے۔ شہر میں ہاکی کے ليے ہاکی کلب آف پاکستان اور یو بی ایل ہاکی گراؤنڈ، باکسنگ کے ليے کے پی ٹی اسپورٹس کمپلیکس، اسکواش کے ليے جہانگیر خان اسکواش کمپلکیس اورفٹبال کے ليے پیپلز فٹ بال اسٹیڈیم اور پولو گراؤنڈ، جیسے شاندار مراکز قائم ہیں۔

منوڑہ کا ساحل، کلفٹن اور جہانگیر کوٹھاڑی پیریڈ ،سی ویو، کلفٹن، ڈی ایچ اے مرینا کلب، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ، سینڈز پٹ پوائنٹ،فرنچ بیچ، رشین بیچ، پورٹ فاؤنٹین۔ 600 فٹ بلند فوارہ بھی کراچی میں ہیں۔

مشہور مقامات: عجائب گھر ، پاکستان ایئر فورس میوزیم، قومی عجائب گھر، میری ٹائم میوزیم، موہٹہ پیلس، کراچی و خطے کی تاریخ کا عجائب گھر، ، میری ویدر ٹاور، فریئر ہال، خالقدینا ہال، ، گورنر ہاؤس، سینٹ پیٹرکس کیتھیڈرل، سابق وکٹوریا میوزیم (بعد ازاں عدالت عظمی کے زیر استعمال)، ہندو جیم خانہ (اب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے زیر استعمال ہے)، ایمپریس مارکیٹ، سندھ کلب، جب کہ جزائر میں کلفٹن آئسٹر روکس، منوڑہ، بنڈل، بھٹ شاہ، وغیرہ۔

مزارات: کراچی میں بہت سے بزرگانِ دین کے مزارات واقع ہیں۔ کچھ تبع تابعین اور قطب کہلانے والے اولیاء اللہ بھی کراچی میں آرام فرما ہیں۔ چند مشہور مزارات میں عبداللہ شاہ غازی بابا (کلفٹن)، نوری بابا (تین ہٹی)، منگھوپیر بابا (منگھوپیر)، غائب شاہ (کیماڑی)، قطب عالم شاہ بخاری (جامع کلاتھ، ایم اے جناح) وغیرہ ہیں۔ کراچی کے عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں زلزلے، سیلاب اور قدرتی آفات سے بچے رہنے کا سبب اولیاء اللہ کے مزارات خصوصاً عبداللہ شاہ غازی بابا کا مزار ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد روزانہ اور خصوصاً جمعرات کو یہاں حاضری دیتی ہے ۔

باغات: بن قاسم پارک (سابق کلفٹن پارک)، سفاری پارک (یونیورسٹی روڈ)، الہ دین پارک (راشد منہاس روڈ)، سند باد، کراچی چڑیا گھر (گارڈن)، سی ویو پارک، عزیز بھٹی پارک، پرانی سبزی منڈی پارک (یونیورسٹی روڈ)، ہل پارک۔

ایوان عکس (سینیما): کیپری سینما،نشاط سینما، پرنس سینما، یونیورس سنی پلیکس وغیرہ۔

کراچی پاکستان میں خریداری کا مرکز تصور کیا جاتا ہے ،جہاں روزانہ لاکھوں صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہیں۔ صدر، کلفٹن، گلف شاپنگ مال، بہادر آباد،طارق روڈ، زمزمہ، زیب النساء اسٹریٹ، لیوش اور حیدری اس حوالے سے ملک بھر میں معروف ہیں۔ ان مراکز میں کپڑوں کے علاوہ دنیا بھر سے ضروریات زندگی کی تمام اشیاءخریدی جاسکتی ہیں۔ برطانوی راج کے زمانے سے ایمپریس مارکیٹ مسالہ جات اور دیگر اشیاء کا مرکز ہے۔ ہر اتوار کو لیاقت آباد میں پرندوں اور پالتو جانوروں کے علاوہ پودوں کا بازار بھی لگتا ہے۔

کراچی کی بڑی فوڈ اسٹریٹ میں بوٹ بیسن، حسین آباد، برنس روڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

کراچی میں جدید تعمیرات کے حامل خریداری مراکز کی بھی کمی نہیں جن میں پارک ٹاورز، دی فورم، ملینیم مال اور ڈولمین مال ،ایٹریم مال، آئی ٹی ٹاوراور ڈولمین سٹی مال خصوصا قابل ذکر ہیں۔

کراچی پاکستان ریلویز کے جال کے ذریعے بذریعہ ریل ملک بھر سے منسلک ہے۔ شہر کے دو بڑے ریلوے اسٹیشن سٹی اور کینٹ ریلوے اسٹیشن ہیں۔ اس وقت شہر میں بسوں اور منی بسوں نے عوامی نقل و حمل کا بیڑہ اٹھارکھا ہے لیکن مستقبل میں شہر میں تیز اور آرام دہ سفر کے ليے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ماس ٹرانزٹ نظام کی تعمیر کا منصوبہ بھی موجود ہے۔

کراچی دنیا میں تیزی سے پھیلتے ہوئے شہروں میں سے ایک ہے اس ليے اسے بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، آلودگی، غربت، دہشت گردی اور جرائم جیسے مسائل کا سامناہے۔ یہ تمام مسائل صرف اسی صورت حل ہوسکتے ہیں کہ جب ایسے افراد کے ہاتھ میں کراچی کا نظام دیا جائے جو کراچی شہر کی قدر کرتے ہوں اور اسے پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہوں، جو کراچی کو اپنا گھر سمجھیں اور جو اس کی ترقی کو پاکستان کی ترقی سمجھیں۔

پاکستان کو اچھا دیکھنے کے لیے اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام پیدا کرنے کے لیے کراچی کو درست رکھنا ہوگا۔ کراچی کے امن کو بحال کرنے، کاروباری حضرات کو ریلیف دینے اور صنعتوں کو بحال کرنے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ کراچی کا ہر شہری جب تک کراچی کو اپنا نہیں سمجھے گا حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ جب اس شہر نے ہمیں بہت سی ضروریات سے نوازا ہے تو ہمیں بھی اس کو دل سےاس کی قدر کرنی چاہیے۔

(نوٹ: اس تعارف کے لیے کچھ مدد وکی پیڈیا سے لی گئی ہے)

تازہ ترین