• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدراتی ریفرنس کیخلاف جسٹس عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سماعت

صدراتی ریفرنس کیخلاف جسٹس عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سماعت


صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفرید ی نے کہا کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صدر وزیر اعظم اور وفاقی وزیر قانون نے اختیارات سے تجاوزکیا تو کیا ان کے خلاف کارروائی ہو نا چاہیے یا نہیں ؟ عدلیہ کی آزاد ی بہر طور ایک یقینی امر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست پر جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے نویں سماعت کی۔

درخواست گزار جج کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کابینہ کی منظوری کے بغیر وزیر اعظم کی صدر کو بھجوائی جانے والی ایڈوائس آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں لہٰذا ریفرنس کو کالعدم کیا جائے ۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آئین ایک جگہ کہتا ہے کہ صدر اپنے صوابدیدی اختیار کا استعمال کرے گادوسری جگہ صدر مملکت کو وزیر اعظم کی ایڈوائس کا پابند کرتا ہے ۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ماضی میں پارلیمنٹ کو یرغمال بنانے کے لیے ترامیم کی گئیں ۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ صدر مملکت ایڈوائس پر عمل کرتے ہیں جب صدر ایڈوائس پر چلیں گے تو وہ اپنی رائے کیسے بنائیں گے آئین میں ایسا کون سا آرٹیکل ہے جس سے طے ہو کہ اس معاملے پر صدر نے اپنی رائے قائم کرنی ہے۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ آرٹیکل209کے سواکسی جگہ آئین میں صدر کو رائے بنانے کا اختیار نہیں ۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا آپ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی بات کر رہے ہیں یہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس نہیں اس میں مستقبل کے لیے اصول بھی طے ہوں گے کیا ججز کا احتساب نہیں ہونا چاہیے ؟

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ عدلیہ کا وقار اس کے اپنے اندر احتساب میں مضمر ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا آپ نے وزیر اعظم کی ایڈوائس کے بارے میں اہم دلائل دئیے، آئندہ سماعت میں ہم اعلیٰ عدلیہ کے جج کی نگرانی اور جج کے خلاف تفتیش کا اختیار کس کو ہو؟ اس حوالے سے دلائل سننا چاہیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئندہ سماعت کب ہوگی جمعہ کو بتائیں گے ،پیر کو بینچ دستیاب نہیں۔ اس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

تازہ ترین