• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعلیٰ جام کمال زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کریں گے

بلوچستان میں جہاں ایک جانب مسائل ہی مسائل ہیں تو دوسری جانب یہاں وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں جس کا اعتراف اور اقرار ہر حکومت بھی کرتی رہی ہے مگر ان وسائل سے بہتر انداز میں استعفادہ کرنے کی جانب کبھی کسی حکومت کی جانب سے کوئی خاص توجہ دی گئی اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کیے گئے جس کی وجہ سے بلوچستان کی نہ صرف پسماندگی میں کمی نہ آسکی بلکہ عوام کا معیار زندگی بھی بہتر نہ ہوسکا ، ملک میں برسراقتدار آنے والی ہر وفاقی حکومت کی توجہ بلوچستان کے صرف معدنی ذخائر کی جانب رہی ، اس حوالے سے بلوچستان کے عوام کی رائے اور شکایات کیا ہیں یہ الگ اور طویل موضوع ہے ، تاہم صوبے کے پیداواری شعبوں کی جانب کسی وفاقی اور نہ ہی کسی صوبائی حکومت نے عملی طور پر توجہ دی اس کی واضح مثال صوبے میں زراعت ، مالداری اور ماہی گیری سمیت دیگر اہم پیداواری شعبے ہیں۔

جن سے آج بھی صوبے کی قریب 70 فیصد عوام کا روزگار وابستہ ہے لیکن مذکورہ شعبوں سے ماضی میں صوبائی حکومتوں کی دلچسپی کا اندازہ ان شعبوں کے لئے ہر سال کے صوبائی بجٹ میں مختص کیے جانے والے فنڈز سے لگایا جاسکتا ہے ۔ پہلی بار سال 2015 کو اس وقت کی بلوچستان حکومت کی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کاشتکاروں ، مالداروں اور ماہی گیروں کا سال قرار دیا تھا ، جس کا مقصد بلوچستان میں زراعت ، مالداری اور ماہی گیری کے تینوں پیداواری شعبوں کو خصوصی توجہ دئے کر بلوچستان کی پسماندگی میں کمی لانا ، مذکورہ شعبوں سے وابستہ افراد کا معیار زندگی بہتر بنانا اور صوبے کی معیشت کو مستحکم کرنا تھا۔ 

سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دور میں مذکورہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں شعور و آگہی کے لیے زراعت ، ماہی گیری اور لائیو اسٹاک کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کوئٹہ میں کنونشن منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد بات آگئے نہیں بڑھ سکی تھی ۔ اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر محکمہ زراعت کو ترجیحی بنیادوں پر جدید خطوط پر استوار کرنے کا عندیہ دیا ہے ، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے محکمہ زراعت انجینئرنگ ونگ کے ترقیاتی منصوبوں پر عملدر آمد کے جائزہ اجلاس میں زراعت کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی کے حصول کیلئے جدید مشینر ی سے استفادہ کرنے پر زور دیا اور کہا کہ بلڈو؎زر کو استعمال میں لاتے ہوئے وسیع اراضی کو نہ صرف قابل کا شت بنایا جاسکتا ہے بلکہ خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو بھی باآسانی پورا کیا جا سکتا ہے ساتھ ہی سیلاب کے ہونے والے نقصانا ت کا ازالہ بھی کیا جاسکے گا جبکہ ضرورت مند کسان حکومت کے اس ترقیاتی پروگرام سے بخوبی مستفید ہوپائیں گے اور صوبے کے ریونیو میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔ 

وزیراعلیٰ نے عندیہ دیا ہے کہ ڈرپ اریگیشن ، ٹنل فارمنگ سمیت جدید فارمنگ کے تمام دیگر طریقوں کو استعمال میں لایا جائے گا تاکہ زراعت کا شعبہ جدت کی جانب گامزن ہوسکے ساتھ ہی زرعی شعبے میں اسکل ڈیولیپمنٹ کو بہتر بنا نے کیلئے مقامی سطح پر ٹریننگ اور انٹرن شپ پروگرامز بھی شروع کیے جائیں گے جس سے مقامی کسان جدید مشنری کے استعمال سے آشنا ہوسکیں گے جبکہ وزیر اعلیٰ نے صوبے میں گرین ٹریکٹر ، ٹنل فارمنگ سمیت تمام ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کا یقین دلایا ہے ، یاد رہے کہ موجودہ صوبائی حکومت صوبے میں ہر سال کاشکاروں کو 1000 ٹریکٹر سبسڈی پر دینے بھی جارہی ہےوزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبائی حکومت کے اعلانات خوش آئند ہیں۔

تاہم ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت صرف اعلانات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی اقدامات کو یقینی بنائے ، حکومت بلوچستان جو صوبے کی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان لائیو اسٹاک ایکسپو کا اہتمام کرنے جارہی ہے جو 18 سے 20 نومبر تک یونیورسٹی آف بلوچستان کے ایکسپو سنٹر میں منعقد ہوگی جس کے لئے صوبائی حکومت اور محکمہ لائیواسٹاک کی جانب سے تیاریاں عروج ہیں جبکہ صوبائی حکومت اور محکمہ لائیواسٹاک کی جانب سے ایکسپو کی کامیابی کی بھرپور توقع کی جارہی ہے ۔ 

بلوچستان میں جہاں ایک جانب گوادر پورٹ ، ریکودک ، دودر اور سیندک جیسے منصوبوں سمیت دیگر قدرتی اور معدنیات کے ذخائر موجود ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان معدنی وسائل کے ساتھ دیگر وسائل سے بھی مالا مال ہے جن میں زراعت ، ماہی گیری اور گلہ بانی کے شعبے بھی شامل ہیں بلوچستان میں صنعتی شعبہ آج تک پنپ نہ سکا ، دوسری جانب صوبے میں سرکاری ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے آج بھی صوبے میں 70 فیصد سے زائد لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ ہے جبکہ ماہی گیری کے شعبے سے بھی صوبے کے عوام کی بڑی تعداد وابستہ ہے ، خاص طور پر مکران ڈویژن جسے اللہ تعالیٰ نے بڑے ساحلی علاقے سے نوازا ہے وہاں عوام کا سب سے بڑا زریعہ معاش ماہی گیری سے وابستہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں بھی روزگار کے یہ تین اہم شعبے اگر مکمل نہیں تو بہت بڑی حد تک تباہی سے ضرور دوچار ہیں ، بلوچستان میں زمینداروں کو ایک جانب زیر زمین پانی کی مسلسل کمی کا سامنا ہے طویل عرصے سےزیر زمین پانی سطح تیزی سے نیچے گر رہی ہے تو دوسری جانب رہی سہی کسر بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے نکال دی ہے جس کے خلاف زمیندار ہمیشہ سراپا احتجاج رہتے ہیں ۔ 

بلوچستان وسیع و عریض صوبہ ہے پانی کی قلت کی وجہ سے لاکھوں نہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ کروڑوں ایکڑ قابل کاشت اراضی سیراب نہیں کی جارہی تو یہ غلط نہ ہوگا بنجر اراضی کو سیراب کرکے نہ صرف صوبہ بلکہ ملک کو زرعی حوالے سے خود کفیل بنایا جاسکتا ہے صوبے کے صرف نصیر آباد ڈویژن کے سوا پورئے صوبے میں کہیں بھی نہری نظام نہیں ، صوبے میں ڈیمز کی کمی کے باعث ہر سال بارشوں کا پانی بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے ، سابق ادوار میں صوبے میں ڈیمز بنانے کے اعلانات اور دعوئے کیے گئے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین