• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر محمد عامر طاسین

 معاشرے کے استحکام میںریاست کا کردار بحیثیت امین کے ہوتا ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے رفاہ عامہ کے میدان میں اپنا کردار ادا کرے، تاکہ ایک بہتر اور فلاحی ریاست کا تصور قائم رہے ۔ تاریخ انسانی میں اگر اب تک واضح اور مثالی طور پر کوئی ایسی ریاست قائم ہوئی ہے، جسے مکمل فلاحی ریاست کا خطاب دیا جاسکتا ہے، تووہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی ریاست مدینہ ہی ہے۔جس پر ہر پہلو سے فلاحی ریاست کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کے فلاحی منصوبے ہمہ گیر ہونے میں اپنی مثال آپ رہے۔

ریاست مدینہ کو اسلامی فلاحی ریاست سے تعبیر کیا جاتا ہے۔فلاحی مملکت سے مراد ایک ایسی ماڈل ریاست ہے جوکہ مدینہ منورہ میں قائم ہوئی ، وہ صحیح معنوں میں ایک اسلامی نظریاتی ریاست تھی، قرآن مجید نے ریاست مدینہ کو ایک ایسی فلاحی ریاست بنانے کا حکم دیا ،جس میں ایک ایسا روادار معاشرہ تشکیل پائے کہ جہاں بسنے والے تمام مسلمان بشمول دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے، سماجی اعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزا ریں ۔

قرآن حکیم چونکہ فلاحی ریاست کی بنیاد میں اجتماعی عدل اور وحدت کو اسلام کی روح قرار دیتا ہے اور یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب تم کسی معاشرے میں غالب آئو اور مستحکم فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ لو تو اس معاشرے میں عدل اجتماعی کے قیام میں ذرا بھر بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرواور بغیر کسی مذہبی، لسانی اور قومی تعصب کے اور بغیر کسی انتہاء پسندی اور عداوت کے، ہر قوم اور مذہب کے ساتھ عدل و انصاف ، صبر اور برداشت اور معاملات میں مساوات اور وحدت کامظاہرہ کرو ۔ گویا قرآن حکیم جس طرح فلاحی ریاست کے قیام کے لیے انسانوں میں عملی مساوات ، وحدت اور ہم آہنگی قائم کرنا چاہتا ہے، وہیں سماجی زندگی میں ہر طرح کے طبقاتی نظام اور امتیازی صورتحال کو ناپسند فرماتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے جو مثالی فلاحی ریاست کا تصور دیا وہ نہ صرف قابل تعریف ہے ،بلکہ دنیا کے تمام ممالک کے لیے قابل تقلید بھی ہے۔ 

 فلاحی ریاست مدینہ کے اصل اور حقیقی بانی ، خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ پر لاکھوں سلام کہ انہوں نے اپنی بے پناہ سیاسی بصیرت، حکمت و دانائی، فہم و فراست سے جو وحی الٰہی سے بھی مستنیر و مستفیض تھی، ایک ایسی کامیاب و بے مثال ریاست استوار کی ،جس کے حدودد اربعہ میں بسنے والے بنی نوع انسان کی جان و مال ، عزت و آبرو کو مکمل تحفظ حاصل تھا۔ آپﷺ نے مدینے میں فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور بحیثیت رہبرو رہنما ،حاکم کا ایک نیا تصور دیا اور واشگاف الفاظ میں فرمایا’’ سید القوم خادمھم‘‘ یعنی قوم کا سربراہ اس کا خادم ہوتا ہے۔ آپ نے مذہبی تعصبات کا خاتمہ کیا۔ 

آپ ﷺ نے فلاحی ریاست کی ابتدا مسجد نبوی سے کی ،اور مستقل ایک پارلیمانی ادارے کے بطور کام کرنا شروع کیا اور اپنی لیڈر شپ کے سائے میں اپنے مخلص اصحاب ؓکے ساتھ مل کر باقاعدہ نظام شورائیت، دیوان سیاست ، مسجد، بیت المال، خارجہ پالیسی کے امور، دعوت دین، تربیت و رجال سازی کے شعبے قائم کیے، منصب سازی کا معیار قائم کیا ،نظام انصاف کا ادارہ بنایا، مذہبی آزادی کا فلسفہ دیا۔گویا ایک ہی وقت میں کئی شعبہ ہائے حیات کی سرگرمیاں رو بعمل ہوئیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا مقصد ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جس میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عصری تناظر میں نافذ کیا جاسکے۔یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے خیالات، ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔ آپ نے کہا کہ’’ میرا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے زندۂ جاوید قانون پر ریاست پاکستان ، دنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہوگی۔ مجھے اقبال ؒ سے پورا اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام سے بہتر نہیں ملتا۔ انشاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الہٰ الا اللہ ہوگی اور یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی‘‘خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی بنیاد میں اسلامی فلاحی مملکت کا تصور رکھتا ہے۔ 

یہ قائد اعظم ؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ قائد نے کئی مواقع پر واضح کیا تھا کہ وہ اس مملکت پاکستان کو قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے فرامین و دساتیر کی روشنی میں ایک ایسی اسلامی و فلاحی جمہوریہ کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جو پوری دنیا کے لیے ایک مثال بن سکے۔ الحمد للہ اب یہ ریاست ایک جوہری طاقت بن چکی ہے۔ تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں پاکستان کو ریاست مدینہ کے تناظر میں مثالی ، فلاحی مملکت کے خدو خال پر تشکیل دینے اور ایک فلاحی مملکت کے قیام کے لیے اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین