بھارتی سپریم کورٹ نے تعصب پر مبنی بابری مسجد کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم دیا ہے جس کے بعد بھارت بھر میں شدید ہندو مسلم فسادات کا خدشہ پیدا ہو گیا۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں غیر آئینی اقدامات، مسلسل کرفیو اور لاک ڈاؤن نے پہلے ہی بھارت کے مسلمانوں کو متنفر کر رکھا ہے۔
آج بھارتی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے سنائے گئے متنازع فیصلے پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے جشن منایا جا رہا ہے جس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کے شدید خدشات ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ کے جس 5 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ سنایا ہے اس میں ایک ہی مسلم جج جسٹس نذیر شامل ہے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ تعصب پر مبنی اور متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔
اس متنازع فیصلے کے موقع پر ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ کر کے متنازع مقامات سمیت اہم عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، کئی مقامات پر انسدادِ دہشت گردی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے تین ماہ میں ٹرسٹ قائم کیا جائے جبکہ مسلمانوں (سنی وقف بورڈ) کو ایودھیا میں متبادل 5 ایکڑ زمین دی جائے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے شیعہ وقف بورڈز اور نرموہی اکھاڑے کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے خارج کر دیں۔
بھارتی عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد گرانا، اس میں بت رکھنا غیر قانونی ہے، مسلمانوں کے بابری مسجد اندرونی حصوں میں نماز پڑھنے کے شواہد ملے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذہب یا عقیدے پر بات کرے، عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ تمام مذاہب کے عقیدوں کی بات کرتا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ بابری مسجد کو خالی پلاٹ پر تعمیر نہیں کیا گیا، بابری مسجد کے نیچے تعمیرات موجود تھیں جو اسلامی نہیں تھیں، تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے۔
بھارتی چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے مندر مسجد کے اس طویل تنازع کا فیصلہ سنایا، رنجن گوگئی 17 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پانچوں ججز نے ایک ایک کر کے اپنا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جسٹس نذیر اس بینچ میں واحد مسلمان جج ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اس موقع پر عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی۔
یہ بھی پڑھیئے: بابری مسجد فیصلے سے قبل ایودھیا میں دفعہ 144 نافذ
ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کی تھی، ان کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی تعمیر سے پہلے یہاں ایک مندر تھا، مسجد کی شہادت کے بعد الہٰ آباد ہائی کورٹ میں کیس چلا۔
ہائی کورٹ نے 30 ستمبر 2010ء کو اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ایودھیا کی 2 اعشاریہ 7 ایکڑ زمین کو 3 حصوں میں تقسیم کیا جائے، ایک تہائی زمین رام لِلا مندر کے پاس جائے گی، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کو اور باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 14 اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019ء کو مکمل کی تھی اور فیصلہ محفوظ کیا تھا، یہ محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنایا گیا۔