• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوین خالد

’’ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اونچے نیچے رستے ، جگہ جگہ منہ چِڑاتاکچرااور سیوریج لائن سےبہتا گندا پانی…‘‘ یہ احوال ہے پاکستان کا حب کہلائے جانے والے شہر، کراچی کا۔جی ہاں یہ وہی نگری ہے، جو کبھی ’’روشنیوں کا شہر‘‘، ’’ عروس البلاد‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ 

پر وقت گزرنے کے ساتھ اس ’’عروسہ ‘‘ کابھی وہی حشرہو چکا ہے، جو شادی اور بچّوں کے بعد ہمارے یہاں کی بیش تر خواتین کا ہوتا ہے، یعنی حال سے بے حال، مُرجھائی صُورتیں، بکھرے بال، بے ترتیب لباس۔ ہاںالبتہ کسی دعوت، تیج تہوار یا شادی بیاہ کے موقعے پر ضرور سج سنور جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح کراچی کو بھی خاص موقعوں جیسے کسی وی وی آئی پی کے دورے وغیرہ کے دوران کچھ دنوں کے لیے عارضی طور پر بنا ،سنواردیا جاتا ہے۔

ویسے اہلِ کراچی کی ہمّت کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے روشنیوں کے شہر سے اندھیرے ، کچرے تک کا سفر جس جواں مردی اور جاں فشانی سے طےکیا اور اب بھی آواز اُٹھانے کی بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھےہیں، اس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

یہ شہر، روشنیوں کے شہر سے اب کچرے کے شہر میں بدل چکا ہے،معاشی حب ہونے کے ساتھ بڑی کچرا منڈی بھی بن چکا ہے۔سڑکوں پہ جا بجا کوڑا کرکٹ پھیلا ہے، جس سے جہاں کئی طرح کے امراض اور وبائیں پھیل رہی ہیں، وہیں یہ انسانی حسِ جمالیات کو بھی متاثر کر رہا ہے، جب کہ گندگی، کوڑے سے انسانی نفسیات پر مرتّب ہونے والے منفی اثرات الگ ہیں۔ 

شہرکی صفائی کی ناگفتہ بہ حالت نے باسیوں کا جیناتو کیا، سانس لینا محال کر دیا ہے۔ آپ چاہے کتنا ہی منہگا، برانڈڈ پرفیوم کیوں نہ لگالیں ،جگہ جگہ پھیلے کچرے کے تعفّن کادماغ پر وہ اثر ہوتا ہے کے 14 طبق روشن ہوجائیں۔ 

لوگ دن، رات کی محنت، بچت کرکرکےگھر بناتے ہیں ، مگر محلّےکے کسی خالی پلاٹ میںیا گلی کے نکّڑ پر قائم غیر قانونی کچرا کُنڈیاں علاقے، گھروں کی رونق کو گہنا کے رکھ دیتی ہیں۔ پھر، بیرونِ مُلک یاشہر سےکوئی مہمان گھر آجائے ، تو شرمندگی الگ اُٹھانی پڑتی ہے۔

بڑے، بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کے زمانے میں کراچی کی سڑکیں پانی سے دُھلتیں اور سڑک پرکچرا پھینکنے والے پر فائن لگتا تھا۔ ویسے سڑکیں تو آج بھی گیلی رہتی ہیں، پر دھلائی کے پانی سے نہیں،گٹر کے پانی سے۔دنیا بھر میں لوگ، شہروں میں سیاست کرتے ہیں اور ہمارے ہاں شہروں پر سیاست کی جاتی ہے ، جس کا نقصان عوام کو اُٹھانا پڑرہا ہے۔ 

کراچی کے پارکوں میں جہاں ہریالی نے لہلہانا تھا، وہاں کچرے کے ڈھیر ہیں، بڑی شاہراہوں پر پلاسٹک کے شاپرز بحیرہ عرب کی ہواؤں میں دیوانہ وار رقص کرتے نظر آتے ہیں، ہر دو قدم پر بدبودار استعمال شدہ ڈائیپرز پیروں میں آجاتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جن علاقوں میں بنگلے تھے۔

اب بنگلے والوں نے پیسالگا کر پلازے بنا لیا ہے، جس دروازے سے پہلے ایک گھر کا کچرا نکلتا تھا اب وہاں تیس ،تیس گھرانے کرائے پر مقیم ہیں۔شہرِ قائد میگا سٹی تو بن گیا، پر اس کے میگا کچرے پر اہلِ اقتدار کی نظریں نہیں جاتیں ۔ 

البتہ، جب کرسی جانے، ووٹ لینے بلکہ بٹورنے کی بات آتی ہے، تو ’’ہفتۂ صفائی، صفائی مہم‘‘ جیسے ڈرامے شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر برطانوی شاہی جوڑے کو یہاں کا دورہ کرنا ہوتا، تو ہم بھی دیکھتے کہ کیسے اختیارات اور فنڈز سے محروم میئر یا ’’یہ ہماری ذمّے داری نہیں‘‘ کا راگ الاپتے وزیرِ اعلیٰ دو دنوں میں شہر صاف نہ کرواتے۔

خیر، سُنا ہے پھر سے صفائی مہم کا آغا ز ہوچکا ہے اور کچھ جگہوں سے کچرا اُٹھ رہا ہے۔ ہماری تو اہلِ اقتدار سےبس یہی درخواست ہے کہ خدارا! اس کچرا گھر’’ کچراچی‘‘کی طرف کچھ دھیان دیں، سیاست ضرور کریں، مگر شہر پر نہیں۔

تازہ ترین