• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے وقت میں جبکہ کراچی میں ڈینگی بخار کی وجہ سے  اسپتالوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے اور صرف کراچی میں اس سال کم ازکم 34 افراد اس مہلک بخار کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔

لوگوں نے ڈینگی میں مبتلا افراد کو پپیتے کے پتوں کا جوس یا جوشاندہ پلانا شروع کر دیا ہے اور صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ کراچی کے ایک مشہور ریسٹورنٹ نے ڈینگی کے پتوں کا جوس نکال کر لوگوں کو بانٹنا شروع کر دیا ہے اور ڈینگی میں مبتلا افراد کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب پپیتے کا پتوں کا جوس لے جاکر اپنے مریضوں کو پلا رہے ہیں ۔

اکثریت کا ماننا ہے کہ پپیتے کے پتوں کا جوس یا رس ڈینگی بخار میں مبتلا افراد کے خون میں پلیٹلیٹس بڑھانے کا سبب بنتا ہے ۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں ڈینگی مچھر کے وار


دوسری جانب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پپیتے کے پتوں کے جوس پلانے سے ڈینگی بخار میں کمی یا پلیٹلیٹس بننے کی کوئی سائنسی توجیح ابھی تک سامنے نہیں آئی۔

لیکن حیران کن طور پر دی ایشین پیسفک جرنل آف ٹراپیکل بائیو میڈیسن میں 2011 میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق پپیتے کے پتوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے جسم میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روک دیتے ہیں۔

یہ تحقیق جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر ترناب، پی سی ایس آئی آر، پشاور یونیورسٹی اور اور لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے ماہرین نے کی اور نا صرف ایشین پیسفک جرنل آف ٹراپیکل بائیو میڈیسن بلکہ کئی امریکی جرائد میں بھی شائع ہوئی ہے۔

پاکستانی بائیو ٹیکنالوجی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ پپیتے کے پتوں میں ایسے کئی اجزا موجود ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ فرد کے جسم اور خون میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں خون میں میں پلیٹلیٹس کی تعداد بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ پپیتے کے پتوں کے رس میں موجود کوئی جزو پلیٹلیٹس کو بڑھاتا ہے بلکہ ان کے مطابق پپیتے کے پتوں کے جوس میں موجود اجزاء ڈنگی وائرس کی تعداد کو بڑھنے سے روک دیتے ہیں اور انہیں اس حد تک کم کردیتے ہیں کہ پلیٹلیٹس دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

اسی طریقے سے انٹرنیشنل جرنل آف ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ کے ایک آرٹیکل کے مطابق پپیتے کے پتوں میں ایسے کئی اجزاء شامل ہیں جن میں کارپین نامی کیمیکل بھی شامل ہے جو کہ ڈینگی بخار کے خلاف مریضوں میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔

تاہم ان تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ پپیتے کے پتوں میں پائے جانے والے اجزاء کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ان سے اس مرض کی دوا بنانے کی کامیاب کوششیں کی جائیں۔

دوسری جانب ماہرین صحت کا کہنا ہےکہ ابھی تک انہیں کوئی ایسا سائنسی ثبوت نہیں ملا جس کے نتیجے میں وہ یہ کہہ سکیں کہ پپیتے کے پتوں کا جوس ڈینگی بخار میں مبتلا افراد کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

نامور ماہر امراض خون اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر ثاقب انصاری کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار بہت کم لوگوں کےلیے خطرناک ثابت ہوتا ہے لیکن وہ چند افراد جو کہ ڈینگی بخار کی پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اگر ان کا بروقت اور صحیح علاج نہ کیا جائے تو وہ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی بخار کی مریض میں تصدیق ہونے پر کسی بھی بھی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے اور اگر طبیعت زیادہ خراب ہو جائے جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوجائیں یا منہ اور جسم کے دیگر حصوں سے خون رسنا شروع ہو جائے تو ایسے مریض کو فوری طور پر کسی بڑے اور بہتر اسپتال لے جایا جانا چاہیے۔

تازہ ترین