• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشیائے صرف کی جائنٹ کمپنیاں پلاسٹک کے استعمال کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام

لندن: لیلیٰ عبود

اشیائے صرف بنانے والے دنیا کے بڑے گروپس ابھی بھی پیکجنگ میں بہت کم ری سائیکل پلاسٹک استعمال کررہے ہیں، سمندروں کو آلودہ کرنے والے مٹیریل اور کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے کیلئے مخصوص جگہوں پر کوڑے کے ڈھیروں میں اضافے پر عوامی ردعمل کے دوران وہ اپنے سبزے کے اہداف کو پورا کرنے سے کتنا دور ہیں ،اس سے یہ اجاگر ہوتا ہے۔

غیرمنافع بخش ادارے ایلن میک آرتھر فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیسلے،پیپسی کولا اور یونی لیور جیسی کمپنیاں اگر 2025 تک اپنی پلاسٹک کی پیکیجنگ میں 25 فیصد ری سائیکل مواد کے استعمال کے ہدف تک پہنچنے کے لئے اپنے رضاکارانہ وعدوں کو پورا کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔

یہاں تک کہ ری سائیکل پلاسٹک کے استعمال میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والی کوکا کولا گزشتہ سال محض 9 فیصد ری سائیکل مواد کو اپنی پلاسٹک پیکجنگ میں استعمال کرنے میں کامیاب رہی۔امریکی مشروبات بنانے والی کمپنی نے اپنی بوتلوں کے مواد، رنگ اور ڈھکن کو اتنا معیاری بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ انہیں ری سائیکل کرنا آسان ہوجائے۔تاہم یہ اب بھی سالانہ تقریبا 33 ملین ٹن پلاسٹک پیکیجنگ کی پیداوار کررہی ہے، جو تقریبا تمام تر نئے پلاسٹک سے بنا ہوتا ہے۔

دوسری بہترین کارکردگی فرانس کی ڈینون کی تھی،جو پیکجنگ کے لئے سالانہ 8 لاکھ 20 ہزار ٹن مواد میں 4.6 فیصد ری سائیکل پلاسٹک استعمال کرتا ہے۔اس کا ایوان اور وولوک برانڈز کے ساتھ پانی کی بوتلوں کا ایک بڑا کاروبار ہے، لہٰذا اس حقیقت سے اس بات کی مدد کی جاسکتی ہے کہ پانی کی پیٹ بوتلوں کے لئے استعمال ہونے والا پلاسٹک نسبتاََ سادہ اور اسے ری سائیکل کرنا سستا ہے۔

آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے فوڈ اینڈ ڈرنک ساز نیسلے پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہے، جس نے گزشتہ سال 7.1 ملین ٹن کی پلاسٹک پیکیجنگ میں صرف 2 فیصد ری سائیکل پلاسٹک کا استعمال کیا۔دریں اثناء یونی لیور نے ایک فیصد سے بھی کم ری سائیکل پلاسٹک استعمال کیا،اور مارس ری سائیکل مواد کا بالکل استعمال نہیں کررہا ۔ فوڈ میکرز کیلئے مشکل ٹاسک ہے کیونکہ زیادہ تر پیکیجنگ جو وہ استعمال کرتے ہیں جیسا کہ کرسپ پیکٹس ،چاکلیٹ ریپرز اور پیٹ فوڈ پاؤچز ری سائیکل کے لئے لاگت کے مقابلے میں منافع بخش نہیں ہیں۔

ایلن میک آرتھر پروجیکٹ کی سربراہی کرنے والے سینڈر ڈرافائٹ نے کہا کہ جبکہ ری سائیکل مواد بہت کم استعمال ہوا،تاہم یہ مثبت ہے کہ اشیائے صرف بنانے والے گروپس نے ری سائیکل پلاسٹک کے استعمال میں اضافہ کرنے کا عہد کیا تھا ۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس وقت پلاسٹک کی بہت زیادہ ری سائیکلنگ کے نتیجے میں معیار متاثر ہورہا ہے،جس کا مطلب ہے کہ یہ مٹیریل تعمیرات یا صنعت میں استعمال کے لئے اچھا ہے نہ کہ کھانے پینے کی اشیا کی پیکیجنگ کے لئے۔اس میں تبدیلی کیلئے کمپنیوں اور ری سائیکلنگ انڈسٹری دونوں کے لئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں اضافے کی ضرورت ہوگی،جس میں اضافی صلاحیت پیدا کرنے اور ٹیکنالوجی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ایلن میک آرتھر فاؤنڈیشن کے نئے پلاسٹک اکانومی پروجیکٹ کے رکن کی حیثیت سے پہلے سال ہی کمپنیوں نے ان اعداد وشمار کا رضاکارانہ طور پر انکشاف کیا۔ایسا اقدام، جس میں تقریباََ 400 دستخط ہیں، کا مقصد پلاسٹک کے لئے ایک ایسی نام نہاد سرکلر معیشت بنانا ہے جس میں مواد یا مٹیریل کبھی بھی زمین بھرنے میں ضائع نہ ہویا ماحول کو آلودہ نہیں کرے گا۔

تاہم تصویر نامکمل ہے کیونکہ کمپنیوں نے وہ تمام اعدادوشمار شائع نہیں کئے جو انہوں نے فاؤنڈیشن کو بتائے ہیں اور نہ ہی اعدادوشمار کا آڈٹ ہوا ہے۔Anheuser-Busch InBev اور پراکٹر اینڈ گیمبل جیسی اشیائے صرف بنانے والی کچھ بڑی کمپنیاں اس میں شامل نہیں ہیں،وال مارٹ اور کیریفور جیسی رکن کمپنیوں نے اعدادوشمار کی اشاعت سے انکار کردیا۔

صارفین کی جانب سے دباؤ کے تحت گھریلو استعمال کا سامان بنانے والے برانڈز نے اپنے پلاسٹک پیکیجنگ کے بارے میں ایک بار پھر سوچنا شروع کردیا ہے،جس کی وہ کم قیمت، پائیداری اور سامان محفوظ رکھنے اور شیلف لائف بڑھانے کیلئے طویل عرصے سے حمایت کرتے آرہے تھے۔ 127 ممالک میں پلاسٹک پر پابندی کے نفاذ اور یورپ میں کچرے کے اضافے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگا کر پہلے ہی ریگولیشن کافی سخت ہے۔

پیکیجنگ پلاسٹک کا واحد سب سے بڑا استعمال ہے،جو عالمی طلب کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ہے۔

پیکیجنگ کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور ری سائیکل مواد کے استعمال میں اضافے کے عہد سے آگے ، یونی لیور واحد کنزیومر گڈز کمپنی ہے جس نےحقیقت میں کم چیزیں استعمال کرنے کا عہد کیا ہے۔اس کا مقصد 2025 تک پلاسٹک کی پیکیجنگ کے مجموعی استعمال کو 14 فیصد یا ایک لاکھ ٹن تک کم کرنا ہے۔کچھ خوردہ فروشوں نے اگرچہ کمی کے اہداف متعین کیے ہیں، جیسے برطانیہ کے گھریلو اشیائے ضرورت فروخت کرنے والے جے سینسبری اور جرمنی کا شوارز گروپ جو ڈسکاؤنڈر لیڈل کا مالک ہے۔

مسٹر ڈیفریٹ نے کہا کہ ہم مزید ایسی کمپنیاں چاہتے ہیں جو پلاسٹک کی مطلق کمی کے لئے اہداف متعین کریں، ہم اس مسئلے سے نکلنے کے اپنے طریقے میں ری سائیکل نہیں کریں گے۔

تازہ ترین