• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ: لاکھوں کا خرچہ یا مفت کا ٹیکا، فیصلہ آپ کا؟

ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ: لاکھوں کا خرچہ یا مفت کا ٹیکا، فیصلہ آپ کا؟
سندھ بھر میں اب تک 13727 بچے اس بخار سے متاثر ہوچکے ہیں۔

بچوں کے امراض کے مقامی اور بین الاقوامی ماہرین کہتے ہیں کہ سندھ کے شہر حیدرآباد اور کراچی میں پھیلا ہوا ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ اتنا مہلک مرض ہے کہ اگر آپ کا بچہ اس مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس پر عام دوائیاں اثر نہیں کریں گی اور وہ ایک دوا جس سے اس کا علاج ممکن ہے اس کا خرچہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے ہے۔

نامور ماہر امراض اطفال اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے نائب صدر  ڈاکٹرخالد شفیع جنہوں نے ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کی ویکسینیشن سب سے پہلے اپنی بیٹی کو کروائی، کہتے ہیں کہ حکومت نے اس مرض کی ویکسین درآمد کرکے سندھ اور پنجاب کے والدین پر ایک بڑا احسان کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بچہ ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا علاج صرف ایک اینٹی بائیوٹک سے ممکن ہے جس کے لیے مریض کو اسپتال میں داخل کرانا اور 14 دن تک ڈرپ کے ذریعے وہ اینٹی بائیوٹک دینا لازمی ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اس اینٹی بائیوٹک کی قیمت اور اسپتال کا خرچہ ملا کر والدین کو یہ مرض ایک لاکھ سے اوپر کا پڑ جاتا ہے جبکہ کہ یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں پیچیدگی کی وجہ سے بچہ جاں بحق نہ ہوجائے۔

ڈاکٹرخالد شفیع کا کہنا ہے کہ اس ساری مصیبت سے بچنے کا بہت آسان طریقہ ہے کہ بچوں کو ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی ویکسینیشن کروائی جائے اور وہ ایک ٹیکا جو کہ حکومت مفت میں فراہم کر رہی ہے اسے اپنے بچوں کو لگوا کر انہیں اس مہلک مرض سے کم از کم پانچ سال کے لیے چھٹکارا دلوایا جائے۔

سندھ میں ایکس ڈی آر یا اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے ٹائیفائیڈ بخار کی وبا سے ساڑھے 13 ہزار سے زائد بچوں کے متاثر ہونے کے بعد پاکستانی حکام نے بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کے تعاون سے بھارتی ویکسین کی بڑی مقدار درآمد کی ہے اور پورے سندھ میں 18  سے 30 نومبر تک ایک کروڑ ایک لاکھ بچوں کو یہ ویکسین مفت لگائی جا رہی ہے۔

پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر پالیتھا ماہی پالا کے مطابق ٹائیفائیڈ کی ویکسین جو کہ پاکستان میں میں پہلی دفعہ لگائی جا رہی ہے مکمل طور پر محفوظ ہے اور اس سے پہلے بھی حیدرآباد اور کراچی میں لاکھوں بچوں کو یہ ویکسین لگائی جا چکی ہے۔

ان کے علاوہ پاکستان کے کئی نامور ماہرین اطفال جن میں میں پروفیسر اقبال میمن، پروفیسرجمال رضا اور دیگر ماہرین شامل ہیں، اس ویکسین کو بچوں کے لیے ایک نعمت قرار دے چکے ہیں۔

کچھ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طاقتور فارما سیوٹیکل انڈسٹری بھی اس مہم کی مخالفت میں شامل ہو سکتی ہے کیونکہ اگر ٹائیفائیڈ کے کیسز کی تعداد میں کمی ہوگی تو ان کی دوائیوں کی فروخت میں نمایاں کمی آنے کا بھی امکان ہے۔

صوبائی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سندھ میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے سب سے زیادہ کیس کراچی میں رپورٹ ہوئے ہیں جہاں اب تک 9726 بچے اس بخار سے متاثر ہوئے جن میں سے لگ بھگ چھ ہزار صرف 2019 میں اس وبا کا نشانہ بنے۔

ان کا کہنا تھا کے ماہرین سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ 9 ماہ  سے 15 سال تک کے بچوں کو یہ ویکسین لگائی جائے گی جس کے بعد وہ کئی سال تک ادویات سے مزاحمت رکھنے والے ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ بخار سے محفوظ رہ سکیں گے۔

بچوں کے علاج کے ماہرین کے مطابق ایکس ڈی آر یعنی ایکسٹینسولی ڈرگ ریزسٹنٹ ( Extensively Drug Resistant) ٹائیفائیڈ یا میعادی بخار کی ایک نئی قسم ہے جو کہ اس وقت مارکیٹ میں موجود زیادہ تر اینٹی بائیوٹک ادویات سے قابل علاج نہیں ہے۔

ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کا علاج اب صرف دو لیکن انتہائی مہنگی اور جان بچانے والی اینٹی بایوٹک ادویات سے کیا جا رہا ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر یہ دو ادویات بھی ناکام ہوگئیں تو اس کے بعد اس مرض سے علاج کے لئے کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوگی۔

انہی حالات کے پیش نظر پاکستانی حکام نے عالمی اداروں یونیسیف اور گاوی (GAVI) کے ذریعے بھارتی کمپنی بھارت بائیوٹیک کی ویکسین Typbar TCV درآمد کی ہے جو کہ عالمی اداروں کے مطابق دنیا میں ٹائیفائیڈ بخار کے خلاف بننے والی سب سے مؤثر ویکسین ہے۔

قومی ادارہ برائے امراض اطفال یا این آئی سی ایچ کے ڈائریکٹر پروفیسر جمال رضا کے مطابق صوبہ سندھ میں پھیلی ٹائیفائیڈ بخار کی وبا کا واحد حل بچوں کی ویکسینیشن کروانا ہے، اس کے لیے حکومت نے دنیا کی سب سے بہترین ویکسین منگوائی ہے۔

پروفیسر جمال رضا کا کہنا تھا چونکہ یہ ویکسین حکومت نے براہ راست درآمد کی ہے اس لیے یہ میڈیکل اسٹورز اور پرائیویٹ اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔

انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے نو ماہ سے پندرہ سال تک کے بچوں کو ٹائیفائیڈ کی ویکسین ضرور لگوائیں تاکہ وہ اس معیادی بخار سے محفوظ رہ سکیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ویکسین مفت لگائی جا رہی ہے جبکہ اگر کسی بچے کو ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ ہوجائے تو آجکل اس کے علاج پر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے کا خرچہ آ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال ان کے اسپتال میں ٹائیفائیڈ کے 887 کیس سامنے آئے جن میں سے 830 ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے تھے جبکہ عام ٹائیفائیڈ بخار کے صرف 57 کیس رپورٹ ہوئے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹائیفائیڈ گندے پانی اور ناقص بازاری اشیا کے کھانے پینے سے پھیلتا ہے

عوام کو چاہیے کہ وہ ابلا ہوا پانی پئیں اور سڑکوں پر بکنے والی ناقص خوراک کے استعمال سے حتٰی الامکان گریز کریں۔

تازہ ترین