• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رواں ہفتے ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ملک بھر میں ہنگامے ہوتے رہے، ویسے تو ایران کی معیشت عرصے سے شدید دبائو کا شکار ہے مگر تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ خاصا بڑا اور غیر متوقع تھا ،جس سے پورا ملک متاثر ہوا ہے۔

قیمتوں میں اضافہ عام طور پر پانچ، دس یا زیادہ سے زیادہ بیس فیصد تک کیا جاتا ہے مگر حالیہ اضافے میں ایک دم پچاس فی صد قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ ایرانی حکومت جو اپنے تیل کی قیمتوں پر زرتلافی یا سبسڈی ادا کرتی تھی اسے ختم کردیا گیا ہے۔قیمتوں میں رعایت کو کم کرنے کی اصل وجہ امریکا کی طرف سے لگائی جانے والی تجارتی اور معاشی پابندیاں ہیں جس سے ایرانی معیشت پر بہت برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ایران اور امریکا نے دیگر طاقتوں کے ساتھ مل کر جو، جوہری معاہدہ کیا تھا امریکا نے صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد 2018میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، جس کے بعد سے ایران کو تیل کی برآمدات پر سخت پابندیوں کا سامنا رہا ہے۔

اب خود ایرانی خبررساں اداروں کے مطابق ایران کے شہر سرجان میں پچھلے ہفتے بڑے مظاہرے ہوئے تھے ۔ ایران کے کئی شہروں میں مظاہرین سرکاری عمارات ، تیل کی تنصیبات اور ذخیروں پر بھی حملے کررہے ہیں۔ ہنگاموں سے متاثر دیگر شہروں میں آبادان، برجاند، اہواز، شیراز اور مشہد وغیرہ شامل ہیں، خاص طور پر مشہد جو ایران کا تہران کے بعد دوسرا بڑا شہر ہے وہاں جگہ جگہ لوگوں نے سڑکیں بند کرنا شروع کردی ہیں پھر تہران کے قریب کرج موٹر وے کو بھی بند کیا گیا تھا۔ 

ہنگاموں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ایرانی حکومت نے ہر گاڑی چلانے والے پر لازم کردیا ہے کہ وہ ایک ماہ میں صرف سولہ لیٹر پیٹرول لے سکتا ہے جس کے لئے پندرہ ہزار ریال ادا کرنے ہوں گے۔ اس طرح پیٹرول کی راشن بندی کردی گئی ہے۔اس منظور شدہ مقدار سے زیادہ پیٹرول لینے والوں کو فی لیٹر تیس ہزار ریال ادا کرنے ہوں گے۔ کی راشن بندی سے ایرانی لوگ شدید پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں ،کیوں کہ اس سے قبل ہر ایرانی باشندہ ڈھائی سو لیٹر پیٹرول رعایتی قیمتوں پر خرید سکتا تھا لیکن اب صرف سولہ لیٹر کی اجازت ہے جو ایک مہینے کے لئے ملے گا۔ 

اکثر لوگوں کے لئے سولہ لیٹر تیل انتہائی ناکافی ہے، کیوں کہ شہروں میں کام پر جانے والے لوگ صرف ایک دو دن میں اتنا پیٹرول خرچ کردیتے ہیں۔ اب ایرانی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ حکومت عوام کی نقد رقوم سے مدد کرے گی۔ اس منصوبے کا اعلان ایران کے ایک وزیر، باقر نوبخت نے کیا ہے کہ جو منصوبہ بندی اور تخمینہ سازی کے وزیر اور حکومت کے ترجمان بھی ہیں۔ ستر سالہ باقر نوبخت اسلامی مجلس شوریٰ کے چار مرتبہ رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں۔ ایران کی حالیہ مجلس شوریٰ یا اسمبلی 2016میں منتخب ہوئی تھی، اس کے بعد سے اس کو مسلسل معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اب صدر حسن روحانی نے اعلان کیا ہے کہ پچھتر فی صد ایرانی عوام ابھی دبائو میں رہیں گے لیکن جو زیادہ تیل استعمال کرے گا اسے زیادہ رقوم ادا کرنی ہوگی اور اس طرح حاصل ہونے والی رقوم کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے گا جو غریب ہیں اور کم تیل استعمال کرتے ہیں۔ روحانی کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا مقصد سرکاری خزانہ بھرنا، نہیں بل کہ غریبوں کی مدد کرنا ہے۔گو کہ ایران تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے اس سے ہمیشہ وہاں تیل کی قیمتیں خاصی کم رکھی جاتی تھیں اور رعایتی قیمتوں سے عوام کا فائدہ ہوتا تھا مگر اب ایرانی کرنسی کی قیمت میں زوال سے سب کچھ بدل گیا ہے۔ 

ایران اربوں ڈالر کا تیل برآمد کرتا ہے مگر اب امریکی پابندیوں کے باعث اسے شدید مسائل کا سامنا ہے اور غربت بڑھ رہی ہے۔ اس سارے معاشی بحران کے پس منظر میں دو باتیں ہیں، ایک تو ایران کا جوہری پروگرام جو ایک معاہدے کے تحت منجمد کردیاگیا تھا ، دوسرے امریکی ہٹ دھرمی اور یہ الزام کہ ایران اب بھی جوہری ہتھیاروں پر کام کررہا ہے ۔ جب امریکا نے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا تو ایران نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ اب اپنے جوہری پروگرام کو دوبارہ شروع کررہا ہے۔ ماہرین معیشت کے مطابق ایران کو اس وقت کم و بیش ویسے ہی حالات کا سامنا ہے جیسا کہ 1980کے عشرے میں ایران عراق جنگ کے دوران تھے۔یہ جنگ 1980سے 1988تک آٹھ سال چلی تھی اور فریقین کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

ایران میں سخت گیر حلقے جن کی رہ نمائی ولایت فقیہ یا قائد امام خامنہ ٓای کرتے رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے صدر روحانی کے اس اقدام کی مخالفت کرتے رہتے ہیں ،کہ امریکا سے کوئی معاہدہ کیا جائے۔ امام خامنہ ای کا یہ کہنا رہا ہے کہ، امریکا نے بھی اپنے کسی وعدے کی پاس داری نہیں کی، اس لئے اس پر اعتبار کرنا لاحاصل ہے۔ اس کے مقابلے میں صدر روحانی ایران کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لئے تیار تھے اسی لئے انہوں نے صدر اوباما کے دور میں یہ معاہدہ کیا تھا۔ اسی دوران امریکا نے ایران کے پاس داران انقلاب کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ 

پاس داران انقلاب ایرانی مسلح افواج کی ایک شاخ ہے،جسے امام خمینی نے 1979کے انقلاب کے بعد تشکیل دی تھی، گو کہ پاس داران انقلاب کا کام سرحدوں کی حفاظت نہیں ہے لیکن پھر بھی آئینی طور پر وہ ایران کے اسلامی تشخص اور نظام کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں اور بیرونی عناصر سے مقابلے کے لئے بھی اور کسی بھی فوجی بغاوت کو کچلنے کے لئے بھی۔ سوا لاکھ فوجیوں پر مشتمل اس پاس داران انقلاب دہشت گرد تنظیم قرار دینے سے ایران کے بین الاقوامی اور قومی مفادات کو شدید زک پہنچی ہے۔اب سول یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ 

اگر ٹرمپ اگلا انتخاب ہار جاتے ہیں اور امریکا میں ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو معاملات بہتر ہونے کے امکانات ہیں ورنہ صدر ٹرمپ سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کوئی بڑی فوجی کارروائی کرسکتے ہیں جس کا اس پورے خطے کو بڑا نقصان ہوگا۔ فی الوقت ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی شدید کشیدہ ہیں جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔ 

تازہ ترین