• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’کراچی کے جراح‘ اپنے آباؤ اجداد سے ملنے والے ہنر کو اپنائے ہوئے ہیں

احمد رضا

’بیسویں صدی کے اوائل کا کراچی ہے۔ انگریز سرکار کا راج ہے۔ شہر میں علاج و معالجے کی جدید سہولیات صرف حکمران طبقے یا اشرافیہ کو میسر ہیں۔

ایسے میں انگریز سول سرجن کرنل جانسن کا بیٹا چھت سے گر جاتا ہے اور اس کی ٹانگ تین جگہ سے ٹوٹ جاتی ہے۔

حیرت انگیز طور پر کرنل جانسن آپریشن کرنے کی بجائے اسے رام دلارے بھیا کے پاس لے جاتے ہیں جو پارسی تھے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ میں بیس روپے ماہوار پر چوکیدار تھے۔ لیکن ان کی اصل شہرت ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کے حوالے سے تھی اور ہو بھی کیوں نہ،اسپتال سے لوٹائے ہوئے لاعلاج مریض بھی ان کے پاس آکر بھلے چنگے ہوجایا کرتے تھے۔بھیا کے علاج سے کرنل جانسن کا بیٹا کچھ عرصے میں ہی چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا، انہوں نے بھیا کو سرکاری اسپتال میں ڈیڑھ سو روپے کی نوکری کی پیشکش کی لیکن وہ پھر بھی پورٹ ٹرسٹ میں چوکیداری ہی کرتے رہے۔

آج رام دلارے بھیا تو نہیں رہے لیکن تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہندوستان ہجرت کرجانے والے ادیب لوک رام ڈوڈیجا کی کتاب ’مھنجا وطن مھنجا ماٹھو‘ یعنی میرا وطن میرے لوگ میں ان کی کہانی اب بھی محفوظ ہے۔رام دلارے بھیا کے دور میں میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی کراچی میں علاج و معالجے کی اتنی سہولتیں تھیں۔ لیکن آج جب یہ سب کچھ ہے، کراچی میں ایسے کئی جراح اور کمہار ہیں جو اپنے آباؤ اجداد سے ملنے والے ہنر کو اپنائے ہوئے ہیں۔

جدید طبی سہولیات آنے کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد دیسی طریقہ علاج کی جانب رجوع کررہی ہے ۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ہڈی جوڑ کے ماہرین اور جراحوں کو مریضوں کا اعتماد حاصل ہونے لگا۔ مریض اسپتال کی بھاری فیسوں اور ادویات کے غیر ضروری استعمال سے بچنے کے لئے دیسی طریقہ علاج کو بہتر سمجھتے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میںجراح اور ہڈی وجوڑ کے 300 سے زائد سینٹرز قائم ہیں، جہاں روزانہ تقریباً 15 ہزار سے زائد مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ سب سے زیادہ 15 سینٹرز صدر کے علاقے پاکستان چوک اور آرام باغ میں قائم ہیں ،جہاں تقریباً روانہ 2 ہزار مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ 

تین ہٹی اور لیاقت آباد میں بھی محتاط اندازے کے مطابق 20 جراح اور ہڈی جوڑ والے افراد دیسی طریقہ علاج سے وابستہ ہیں جہاں 1300 کے قریب مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ جامع کلاتھ، لیاری، عیدگاہ، کریم آباد، بلدیہ ٹاؤن، ملیر اور شہر کے دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 3 سو سے زائد سینٹرز میں علاج کے لئے آنے والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پوش علاقوں کے مریضوں کا بھی دیسی طریقہ علاج کی جانب رجحان بڑھ رہا ہے۔ البتہ کچی بستیوں میں مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

لیاری کا علاقہ کمہار واڑہ ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے والے دیسی طبیبوں سے منسوب ہے۔ یہ علاقہ شہر کے انتہائی غیرمحفوظ علاقوں میں آتا ہے لیکن یہاں اب بھی درجن بھر کمہاروں کے مطب ہیں۔ ان ہی میں سے ایک عرفان عبداللہ ہے جو تقسیم ہند سے بھی کئی سال پہلے بھارتی ریاست گجرات کے شہر بھوج سے کراچی ہجرت کرنے والے صالح محمد کے پوتے ہیں۔

اس کےمطابق،’ میرے دادا نے یہ کام کراچی میں اسٹارٹ کیا تھا ، پھر میرے والد صاحب کو یہ کام ملا اور اب مجھے ملا کرتین (پشتیںہوگئی ہیں اس کام میں۔ یہ علاج سستا ہے بہ نسبت ڈاکٹر کے علاج سے۔ جو پرانے لوگ ہیں وہ آج بھی ڈاکٹروں کے بجائے کمہاروں سے علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن نئی نسل ڈاکٹروں کو فوقیت دیتی ہے۔یہ سلسلہ آج سے نہیں چل رہا۔ یہ صدیوں سے چلتا ہوا آرہا ہے اور یہ ختم نہیں ہوگا۔

اب تو مختلف لوگ یہ کام لے کر بیٹھ گئے ہیں ،جنہیں اس کی الف بے بھی نہیں آتی۔جعلی جراح اور ہڈی جوڑ والوں کے علاج سے پیچیدہ امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ آلات جراحی سے کئی مریضوں کے آپریشن سے ہیپا ٹائٹس، ٹیٹنس اور دیگر متعددی (منتقل ہونے والے) امراض لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

بندر روڈ کے نزدیک جامع کلاتھ کے علاقے میں جراحوں کے مطب ہیں، جہاں آج بھی لوگ زخموں اور جلدی امراض کا علاج کرانے آتے ہیں۔ ان میں بعض مطب بہت پرانے ہیں۔ ان میں سے ایک صدیق جراح کا مطب جو 1927ء میں قائم ہوا تھا اور اب ان کی تیسری نسل اسے جاری رکھے ہوئے ہے۔

تازہ ترین