• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے امتیازی نشانات، منفرد طرز ہائے تعمیرات

کراچی اپنی ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، بلند و بالا اور جدید عمارتوں کے درمیان کئی قدیم عمارتیں وقت کے نشیب و فرازکو سہتی ہوئی آج بھی فخر سے اپنی شان دکھا رہی ہیں۔ 

شہر کے امتیازی نشانات(Landmarks) کی بات کی جائے تومزارِ قائد، تین تلوار، حبیب بینک پلازہ، مسجد طوبیٰ، سفاری پارک، ابنِ قاسم پارک،موہاٹا پیلس، ایمپریس مارکیٹ، فیرئیر ہال ، ڈینسو ہال اور قومی عجائب گھر پاکستان کے نام ذہن میں آتے ہیں، جو خوبصورت طرز تعمیر کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتے ہیں۔ آئیے ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔

مزارِ قائد

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری آرام گاہ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اس کا آرکیٹیکچر ڈیزائن یحییٰ مرچنٹ نے ایرانی طرزِ تعمیر پر بنایا جو محترمہ فاطمہ جناح کی مشاورت سے1960ء میں منظور ہوا اور 1970ء میںاس کی تعمیرمکمل ہوئی۔ 54مربع میٹر احاطے پر محیط مزارِ قائد مؤرش طرز کی سفید سنگ مرمری کمانوں اور محرابوں سے بنایا گیا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے میں نصب فانوس عوامی جمہوریہ چین کا تحفہ ہے۔ اطراف میں وسیع و عریض پارک مزارِ قائد کےحسن کو دوبالا کرتا ہے۔

حبیب بینک پلازہ

پاکستان کی وال اسٹریٹ کہلائی جانے والی سڑک آئی آئی چندریگر روڈ(میکلوڈ روڈ) پر چار دہائیوں تک ملک کی بلند ترین عمارت کا اعزاز اپنے پاس رکھنے والا حبیب بینک پلازہ منفرد طرزِ تعمیر کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کراچی کی سیاحتی کتابوں میں نمایاں جگہ پاتا ہے۔ 1963ء میں تعمیر کے وقت یہ ایشیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ اس منفرد آرکیٹیکچر کا ڈیزائن لیو اے ڈيلی نے بنایا جبکہ تعمیراتی کام ایس محبوب اینڈ کمپنی نے انجام دیا۔ اس پلازہ کی 22منزلیں ہیں جبکہ انٹینا سمیت کُل بلندی101میٹر اور چھت تک 95.5میٹر ہے۔

تین تلوار

کلفٹن جانے والے چوراہے پر ماربل سے تعمیر کردہ تین تلواروں پر لکھے گئے قائد اعظم کے تین زریں اصول ایمان (Faith)، اتحاد(Unity) اور تنظیم (Discipline) ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی تشکیل میں یہ بنیادی اجزا ہیں، جن کے بغیر پاکستان ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتا۔ تین تلوار کی تعمیر 1973ء میں عمل میں آئی، جس کا ڈیزائن پارسی ماہر تعمیر منو مستری نے بنایا۔ آج یہ کراچی کی ایک اہم امتیازی شناخت ہے۔

ڈینسو ہال

ایم اے جناح روڈ پر واقع ڈینسو ہال انگریز حکومت کی لائبریری تھی، جسے 1886ء میں تعمیر کیا گیا۔یہ لائبریری کراچی بندرگاہ میں تعینات افسران کے لیے بنائی گئی تھی۔ افغان جنگ میں مالی معاونت فراہم کرنے پر برطانوی حکومت نے سماجی رہنما ایڈلوجی ڈینسوکو اعزاز سے نوازنے کے لیے یہ عمارت ان کے نام سے منسوب کی۔ اس عمارت کو جیمزا سڑاچن(James Strachan) نے ڈیزائن کیا تھا، جو ریتیلے پتھر سے بنائی گئی ہے۔

ایمپریس مارکیٹ

صدر کے علاقے میں واقع ایمپریس مارکیٹ 1884ء سے 1889ء کے درمیان بنائی گئی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ کا نام ملکہ وکٹوریہ (Empress of India)سے منسوب کیا گیا۔ اس عمارت کو بھی جیمزا سڑاچن نے ڈیزائن کیا تھا۔ مارکیٹ کی تعمیر میں جودھ پوری لال پتھر استعمال کیا گیا ہے، جو اسے مخصوص کردار بخشتا ہے۔ تعمیر کے وقت ایمپریس مارکیٹ کے چاروں طرف چار گیلریاں تھیں، جن میں سے ہر ایک 46فٹ چوڑی تھی۔ اس کے بیچوں بیچ ایک صحن بھی رکھا گیا ہے۔

موہاٹہ پیلس

سیورتن چندرا موہاٹہ نے 1927ء میں یہ محل کراچی میں گرمیاں گزارنے کے لیے بنوایا تھا۔ اس عمارت کو اس وقت کے مشہورآرکیٹیکٹ آغااحمد حسن نے ڈیزائن کیا تھا۔ 

اس کے اندر ایک میل لمبی سرنگ ہے جو مندر سے جاکر ملتی ہے، یہ عمارت اپنی پراسرار کہانیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1960ء میں محترمہ فاطمہ جناح کو یہ عمارت رہائش اختیار کرنے کے لیے دی گئی، پھر اس کے بعد ان کی ہمشیرہ شیریں جناح یہاں رہیں، ان کے انتقال کے بعد اس عمارت کو میوزیم بنادیا گیا۔

فریئر ہال

سندھ میں انگریزوں کے ابتدائی دورِ حکومت میں بنائی گئی عمارت ’فریئرہال‘ 1865ء میں مکمل ہوئی۔ مختلف ممالک کے قونصل خانوں کے درمیان گھری اس عمارت کو ضلعی مرکز کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اس عمارت کو ہینری سینٹ کلیئر ولکنس نے ڈیزائن کیا تھا۔ہال کی تعمیرپر ایک لاکھ 80ہزار روپے لاگت آئی، جس میں سے 10ہزار حکومت نے دیے جبکہ باقی بلدیہ کراچی نے اداکیے۔ 1884ء میں برطانوی ایڈمنسٹریٹر سرہینری بارٹل ایڈورڈ فریئر کے انتقال کے بعدیہ ہال ان کے نام سے منسوب کیا گیا۔

سندھ مدرستہ الاسلام

1890ء میں یہ درسگاہ سندھ کی عظیم شخصیت حسن علی آفندی نے بنائی،جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمان بچوں کو مذہبی اصولوں کے ساتھ جدید تعلیم دینا تھا۔ اس ادارے سے قائداعظم محمد علی جناح جیسے رہنما نے تعلیم حاصل کی۔ اس خوبصورت عمارت کوخاں بہادر ولی محمد کی مدد سے سر جیمز اسٹراچن نے ڈیزائن کیا۔ 

بولٹن مارکیٹ میں واقع اس عمارت کو1885ء میں حسن علی آفندی نے کرائے پر حاصل کر کے مدرسے کی بنیاد رکھی، مدرسے کی تکمیل کے بعد یہاں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔

تازہ ترین