• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرآن و سنّت کی تعلیمات کے مطابق دنیاوی مال و متاع اور ضروریاتِ زندگی کے لیے بھاگ دوڑ اور کسبِ حلال کے لیے محنت ایک باعثِ اجر وثواب عمل اور دینی و معاشرتی فریضہ ہے،چناں چہ قرآن کریم کی وہ آیت مبارکہ انسان کے اعمال اور حالات کی درستگی کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ چوںکہ دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے دنیوی چیزوں کی ضرورت ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان چیزوں کو پیدا فرمایا، بلکہ انہیں خوش نما بنا کر انسان کے دل میں ان کی محبت ڈال دی، لہٰذا انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت کا ہونا ایک قدرتی بات اور فطری امر ہے، جو کوئی بری بات نہیں۔ ان چیزوں میں سے سات اہم چیزوں کاقرآن کریم میں ذکر ہے جو صرف بطور مثال کے ہیں۔ورنہ ان سات چیزوں کے علاوہ اور چیزیں بھی انسان کو محبوب ہو سکتی ہیں۔

اس محبت کو بالکل ختم کر دینا نہ ہی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہے اور نہ ہی آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہورہی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھائی ہے کہ ان چیزوں کی اہمیت اس فانی دنیا تک ہی محدودہے اور یہ اسی دنیا کی برتنے (استعمال میں لانے )کی چیزیں ہیں،اللہ تعالیٰ کے پاس ان سے بہتر اور عمدہ چیزوں کے لامحدود خزانے موجود ہیں۔ اس سے یہ تعلیم مل رہی ہے کہ انسان جب تک اس دنیا میں ہے، ان چیزوں کو اپنے استعمال میں لائے اور اسی حد تک اپنی محبت کو ان چیزوں سے وابستہ رکھے اور ان سے حاصل ہونے والی ذہنی وجسمانی قوت وطاقت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری میں استعمال کرے ۔

سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے خزانے مسجد نبوی میں دیکھ کر ایک دعا فرمائی جو اس حقیقت کے سمجھنے میں نہایت مفید ہے:’’اے اللہ ! یہ تو ہم نہیں عرض کرتے کہ آپ ان چیزوں کی محبت ہمارے دل سے نکال دیجئے ، جب آپ نے خود ان چیزوں کی محبت کو ہمارے قلوب میں مزّین فرما دیا ہے تو اس کے زائل ہونے کی دعا کرنا تو سخت گستاخی کی بات ہے، لیکن یہ ضرور عرض کرتے ہیں کہ ان چیزوں کی محبت کو آپ اپنی ذات کی محبت کے بڑھنے میں مدد گار بنا دیجیے‘‘۔

ضروریات زندگی کی بے جا محبت شیطانی مداخلت کا اثر ہے،یہی دنیاوی چیزیں ہیں جو بعض اوقات ایسی خوش نما اور مزّین نظر آتی ہیں کہ انسان ان کے فریب میں مبتلا ہو کر ان میں اس قدر مشغول ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں آمد کا مقصد بھی بھول جاتا ہے اور غفلت درغفلت کا شکار ہو کر اپنے اخروی مؤاخذے اور حساب کتاب سے بھی روگردانی اختیار کر لیتا ہے۔یہ شیطانی مداخلت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ اس زینت کے پیدا کرنے والے تو اللہ تعالیٰ ہی ہیں،لیکن ان چیزوں کا غلط استعمال شیطانی تصرف کا نتیجہ ہوتا ہے، لہٰذا ان چیزوں کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق اس کی قیودو حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنا نیکی کا عمل ہے ، ایسے عمل کی تعریف کی گئی ہے اور ان چیزوں کا اسلامی تعلیمات کے خلاف حدود سے تجاوز کر کے استعمال شیطانی مداخلت کا نتیجہ اور براعمل ہے، ایسے عمل کی مذمت کی گئی ہے اور ان کی برائیوں کو واضح کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں اس بارے میں ترغیبی انداز بھی ملتا ہے اور مذمتی انداز بھی پایا جاتاہے۔ مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں قرآن کریم میں بیان ہونے والی چیزوں کی تشریح درج ذیل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانی ضرورتوں کی جتنی چیزیں پیدا فرمائی ہیں، ان میں ایک اہم ترین عورت(یعنی نیک بیوی) ہے۔ اس کی محبت ایک فطری بات ہے، اسی تناظر میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کواس رشتے کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ عورت سے فطری محبت کا جذبہ حدود شرعیہ میں رہتے ہوئے استعمال ہو تو یہ بہترین متاع ہے، جیساکہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے: نیک عورت دنیا کی سب سے بہتر متاع ہے۔ نیک بیوی کی خوبی ہی یہ ہے کہ شوہر کو راضی رکھے، اس کے حکم کو پورا کرے ،اس کی غیر موجودگی میں اپنی پاک دامنی پر دھبہ نہ لگنے دے ، شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔لیکن اگر عورت سے محبت کے فطری جذبے کو حدود شرعیہ سے بے پروا ہو کر استعمال کیا جائے تو یہی اس دنیا کا بہت بڑا فتنہ بن جاتا ہے۔

انسان کی پسندیدہ چیزوں میں ایک نہایت اہم چیز بیٹوں کی محبت بھی ہے۔ بیٹوں کی محبت ایک فطری بات ہے، اس لئے کہ انسان کی نسل بیٹوں ہی سے چلتی ہے، معیشت اور محنت ومشقت کے تمام کاموں میں بیٹے ہی باپ کے مدد گار بنتے ہیں۔ اس محبت کا نتیجہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہو اور اولاد کے ساتھ ساتھ خود بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر رہا ہو تو ایسی محبت قابل تعریف ہے ،ورنہ یہ محبت دنیا میں پریشانیوں اور آخرت میں مؤاخذے کا سبب بن جانے کی وجہ سے قابل مذمت ہو جائے گی۔

انسان کی پسندیدہ چیزوں میں سے تیسری بڑی چیز مال ودولت اور سونے چاندی کے خزانے ہیں۔ سونے چاندی کا ذکر قیمتی دھات ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ مراد مال ودولت کی کثرت ہے۔ مال ودولت کی محبت بھی ایک فطری امر ہے اور یہ دنیوی ضرورت بھی ہے، دنیوی زندگی کے نظام کے اچھی طرح چلتے رہنے میں مال ودولت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مال ودولت کی وجہ سے انسان اپنے جیسے انسانوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے محفوظ رہتا ہے۔ مال ودولت کی محبت کے فطری تقاضے کا نتیجہ اگر اس صورت میں ظاہر ہو کہ انسان اسلامی معیشت واقتصادیات کی قیود کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے حاصل کرے اور اپنی ذاتی ضرورتوں اور زیر کفالت لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرتے ہوئے بقیہ مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی نیت سے دوسرے ضرورت مندوں پر بھی خرچ کرے تو یہ جذبہ قابل تعریف ہے۔

مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ انسان کے دل میں دنیاوی سازوسامان کی محبت پیدا کرنے میں متعدد حکمتیں ہیں، جن میں سے چندمندرجہ ذیل ہیں:٭…زندگی کا نظام مستحکم ہو اوروہ مضبوط وپائیدار اصولوں پر چل سکے۔ ٭… بندوں کا امتحان لیا جائے کہ کون ان نعمتوں میں کھو کر آخرت کی فکر کو بھلا دیتا ہے اور کون ان نعمتوں کو آخرت میں سعادت اور کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس کی طرف ایک مقام پر ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:’’بے شک ہم نے زمین کی چیزوں کو اس کی زینت بنایا، تاکہ ہم ان کو آزمائیں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے‘‘ ۔٭… دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کی تمثیل ہیں، اگر ان کی طرف رغبت نہ ہوتی تو آخرت کی نعمتوں کی طرف بھی رغبت نہیں ہو سکتی تھی، نہ ذہن میں ان کا کوئی تصور آتا اور نہ ہی ان کے حصول کے لیے کوشش کی جا سکتی تھی۔

مختصر یہ کہ اسلام ایک متوازن دین ہے،یہ دین ودنیا میں اعتدال اور توازن کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام رہبانیت کی تعلیم نہیں دیتا،بلکہ یہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے مال ومتاع سے فائدہ حاصل کرنے اور ضروریاتِ زندگی کے حصول کی تعلیم دیتا ہے۔ کسب حلال کا نظریہ اور عظمتِ محنت کی اسلامی تعلیمات اسی حقیقت کی ترجمان ہیں کہ اسلام دین ودنیا میں توازن کی تعلیم دیتا ہے اور اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ دنیا اور اس کا مال ومتاع عارضی زندگی کی علامت ہے،جب کہ آخرت کی زندگی ہی بندۂ مومن کا حقیقی سرمایہ ،فلاح وکامیابی کا سرچشمہ اور نجات کا ذریعہ ہے۔

تازہ ترین