• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب : محمد ہمایوں ظفر

یوں تو زندگی میں لاتعداد چھوٹے بڑے واقعات پیش آئے، لیکن یہ تین واقعات تو ناقابلِ فراموش ہوگئے۔ پہلا واقعہ اُس وقت پیش آیا، جب میں پانچ برس کی تھی۔ ہمارے گھرکے قریب ایک جنرل اسٹور تھا۔ جہاں بچوں کے لیے کینڈیز اور بسکٹس وغیرہ ملتے تھے۔ ہم بہن بھائی اور محلّے کے بچّے اکثر وہاں سے بسکٹ، ٹافیاں وغیرہ خرید کر کھایا کرتے۔

ایک دن میں اکیلی ہی دکان چلی گئی اور ٹافی خرید کر جیسے ہی نکلی، عقب سے ایک گدھا گاڑی والے کی سخت گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ ’’ارے، ہٹو بچو! گدھا پاگل ہوگیا ہے۔‘‘ ساتھ ہی گدھا گاڑی کے تیز دوڑنے کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ مَیں ناسمجھ تھی، اچانک شور شرابے سے گھبرا کر سڑک کے درمیان دوڑنے لگی اور گرپڑی۔ اُسی لمحے گدھا گاڑی میرے اوپر سے گزرگئی۔ اس اچانک افتاد سے میں خاصی گھبراگئی، تاہم، پوری گاڑی میرے اوپر سے گزرنے کے باوجود حیرت انگیز طور پر مجھےخراش تک نہیں آئی۔ میں کپڑے جھاڑتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی اور گھبرا کر دوڑتی ہوئی اپنے گھر میں گھس گئی۔ 

میرے پیچھے محلّے کے لوگ بھی شور مچاتے ہوئے ہمارے دروازے پر آگئے اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگے۔ امّی نے دروازہ کھولا تو سب تشویش ناک انداز میں کہنے لگے کہ آپ کی بچّی کو گدھے گاڑی والے نے کچل دیا ہے، اسے خاصی چوٹ آئی ہوگی، فوراً اسپتال لے کر جائیں۔‘‘ مگر میں ڈرکے مارے اندر ہی دبکی بیٹھی رہی۔ امّی نے مجھے ہرطرح سے چیک کیا،مگر مَیں بفضلِ تعالیٰ بالکل محفوظ تھی۔ انہوں نے محلّے والوں کو مطمئن کردیا کہ بچّی بالکل محفوظ ہے۔ جب سب لوگ چلے گئے، تو امّی نے احتیاطاً گرم دودھ کے ساتھ پھٹکری پیس کر مجھے پلادی تاکہ اگر کوئی اندرونی چوٹ لگی بھی ہو، تو ٹھیک ہوجائے۔ مگر اللہ کےفضل و کرم سے میں بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔

دوسرا واقعہ اُس وقت کا ہے، جب میں ایم۔ اے فائنل ایئر میں تھی۔ کراچی یونی ورسٹی سے گھر جانے کے لیے بسوں کے پوائنٹس مختلف علاقوں میں چلا کرتے تھے۔ پوائنٹس کی بسیں اکثر بھری ہوتی تھیں۔ اُس روز بھی میں حسبِ معمول اسٹاپ پر پہنچی، تو بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ کسی نہ کسی طرح بس میں سوار ہوئی، توبہ مشکل پائیدان پر جگہ مل سکی، بس ابھی تھوڑی ہی دور چلی تھی کہ ڈرائیور نے غالباً اچانک ہی بریک لگادی، جس کے باعث ایک زور دار جھٹکا لگا اور بس کا ڈنڈا میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں چاروں شانے چِت زمین پر گر پڑی۔ 

اس اچانک افتاد پر ابھی میں خوف و دہشت اور سراسیمگی کی کیفیت ہی میں تھی کہ بس کا پہیّہ میرے بالکل قریب حرکت میں آگیا۔ مَیں نے ڈر کے مارے، موت کے خوف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اُسی لمحے دو لڑکیاں چشمِ زدن میں میری طرف بڑھیں اور مجھے بازؤئوں سے پکڑکر بس سے دُور گھسیٹ لیا۔ میں کپڑے جھاڑتی ہوئی یک دم اُٹھ کھڑی ہوئی۔ گھبراہٹ اور موت کے خوف سے اپنی محسنوں کا شکریہ تک ادا نہ کرسکی اور نہ ہی انہیں دیکھ سکی۔

تیسرا واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور رہبانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ میرے شوہر اکثر تبلیغِ دین کے سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں جاتے رہتے تھے۔ میری رہایش فلیٹ کے فرسٹ فلور پر، اور چھوٹی بہن سیکنڈ فلور پر مقیم تھی۔ اُن دنوں بھی میرے شوہر تبلیغِ دین کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اُن کے جانے کے دوسرے روز صبح دس بجے اچانک زور زور سے رونے پیٹنے اور چیخنے چلّانے کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں، میں بہت گھبرا گئی۔ 

ہمارے آمنے سامنے چار چار فلیٹوں پر مشتمل خاصی بڑی بلڈنگ تھی۔ مَیں نے احتیاطاً دروازہ نہیں کھولا، مگر فوراً اپنی بہن کو انٹرکام کرکے پوچھا کہ معلوم کرو کہ ہماری بلڈنگ میں یہ شور ہنگامہ کیسا ہے، تو بہن نے آکر بتایا کہ جب میں بیٹے کے ساتھ یہاں آرہی تھی، تو لوگوں سے پتا چلا کہ عین آپ کےاپارٹمنٹ کے سامنے والے اپارٹمنٹ میں ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے۔ ایک عورت اور دو مردوں پر مشتمل ڈاکوئوں نے آپ کے پڑوسیوں کوپانی پینے کے بہانے یرغمال بنایا اور تشدّد کر کے تمام زیورات، نقدی اور قیمتی پارچہ جات لوٹ لیے۔ 

بعدازاں، وہ تینوں ڈاکو ان کے سامنے والے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور وہاں سے بھی ساس، بہو اور بچّوں پر تشدد کرکے تمام زیورات اور نقدی وغیرہ لُوٹ کر فرار ہوگئے۔ مگر کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ ہمارا اور ہمارے بچّوں کا بال بیکا ہوا، نہ ڈاکوئوں نے ہمارے اپارٹمنٹ کا دروازہ تک کھٹکھٹایا۔ بعد میں پولیس نے ڈاکوئوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے قبضے سے لُوٹا ہوا کچھ مال بھی برآمد ہوگیا۔ بہرحال، ڈاکوئوں سے محفوظ رہنے کی اصل وجہ جو میری سمجھ میں آئی، وہ یہی تھی کہ میرے شوہر ہمیں اپنے رب کی حفاظت میں چھوڑ کر دین کی تبلیغ کے لیے گئے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے مال و اسباب اور بیوی بچّوں کی حفاظت فرمائی۔

ان تمام واقعات پر مَیں اپنے ربّ کا جتنا بھی شُکر ادا کروں کم ہے۔ بہرحال، اس واقعے کے بعد ہم نے گھر میں کوئی بھی قیمتی شئے رکھنا چھوڑ دی۔ (شاہدہ کمال، کراچی)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کےقلم کار

٭عورتوں کی تعلیم (صدف آفاق) ٭(زندگی پر مثبت اثر ڈالنے والا واقعہ (محمد نوید شیخ، لاہور) مولوی صاحب اور جن کا بچّہ +انسان اور جنّات ایک ہی گھر میں (عظمیٰ ناز، کراچی) ٭ پاکستان کے لیے قربانیاں (عذرا محمود (شہید آفیسرز کالونی، راول پنڈی کینٹ) ٭یاد آتا ہے مقدر جب بھی (ممتاز سلطانہ، الرحیم شاپنگ سینٹر، پولیس لائن، حیدر آباد)٭ قسمت کی لکیریں (شاہدہ ناصر، کراچی) ٭اپنی کچھ اسٹوری (فیضان مہدی،کرن ٹاور، شادمان ٹائون ، کراچی

تازہ ترین