• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنگلادیش کے سابق فوجی آمر، جنرل حسین محمّد ارشاد رواں برس 14 جولائی کو انتقال کر گئے، اُن کی عُمر نواسی برس تھی۔ اُن کی وفات نے ستّر کے عشرے کی یادیں تازہ کردیں۔ اگست 1975 ء میں شیخ مجیب الرحمان اور اُن کے خاندان کے تقریباً تمام افراد کو بنگلادیشی فوج کے باغی اہل کاروں نے قتل کردیا تھا۔پھر1981 ء میں بنگلادیشی صدر، جنرل ضیاء الرحمان کو بھی فوج کے کچھ اہل کاروں نے قتل کردیا۔ یوں یہ عشرہ اس خطّے میں شدید خوں ریزی لے کر آیا اور اس دوران بہت سے نام ور افراد قتل ہوئے، خانہ جنگی ہوئی، آئینی تبدیلیاں ہوئیں، آمریتیں قائم ہوئیں، جو سِول اور فوجی دونوں طرح کی تھیں۔ سِول حکم ران، آمر بننے کی کوشش کرتے رہے اور فوجی آمر مخالفین کو ٹھکانے لگاتے رہے۔ ستّر کے عشرے کا آغاز مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور پھر جنگ سے ہوا۔ 

افغانستان میں سردار دائود، نور محمد ترکئی، حفیظ اللہ امین وغیرہ قتل ہوئے اور ایک طویل خانہ جنگی شروع ہوئی، جو آج بھی جاری ہے۔ ایران میں کئی صدور اور وزرائے اعظم تبدیل ہوئے یا مارے گئے۔ پھر انقلاب کے بعد 8 برس ایران، عراق جنگ چلتی رہی، جس میں لاکھوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹّو نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی، حزبِ اختلاف کو کُچلا۔ اس کوشش میں پہلے اپنے اقتدار اور پھر اپنی جان سے بھی گئے۔ بھارت میں بھی تقریباً ایسا ہی کچھ اندرا گاندھی نے کیا۔ چوں کہ ہم نے اپنی گفت گو کا آغاز بنگلادیش سے کیا تھا، اس لیے بات وہیں سے شروع کرتے ہیں۔

جنوری 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹّو نے مجیب الرحمان کو پاکستانی جیل سے رہا کیا، تو بنگلادیش کی جلاوطن حکومت کے قائم مقام صدر اور وزیرِ اعظم، بالترتیب نذر الاسلام اور تاج الدّین تھے۔ بنگلادیش کی آزادی کے بعد مجیب الرحمان نے اقتدار سنبھالا، تو اُنھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسے مہاجرین کی بحالی اور مُلک کی تعمیرِ نو۔ اگر آپ اُس دَور کے بارے میں صرف ایک کتاب پڑھنا چاہیں، تو ’’Bangla Desh: A Legacy of Blood ‘‘ پڑھیے۔ یہ کتاب 1971ء سے 1986ء تک کے حالات کا تجزیہ کرتی ہے۔ اس کے مصنّف ایک صحافی، این تھن ماسکاریناس ہیں۔ مجیب صرف ساڑھے تین سال برسرِ اقتدار رہے، جس میں شروع کے تین سال یعنی جنوری 1972 ء سے جنوری 1975 ء تک وہ بنگلادیش کے وزیر اعظم رہے اور پھر اُنہوں نے صدر بننے کا فیصلہ کیا، یوں وہ صدر کے عُہدے پر بہ مشکل آٹھ ماہ رہ پائے۔ بحیثیت وزیرِ اعظم اُن کے تین سال پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹّو کی وزارتِ عظمیٰ سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ 

دونوں نے اپنے مُمالک کو نئے آئین دئیے اور پھر اس آئین کو توڑا مروڑا بھی تاکہ اپنا اقتدار مضبوط کیا جاسکے۔دونوں نے فوج پر قابو پانے کی کوشش کی، حزبِ مخالف کو کُچلا، عدلیہ پر کنٹرول کے اقدامات کیے اور ایک طرح کا سوشلزم نافذ کیا۔ دونوں کو شروع میں تو کام یابی ہوئی، مگر پھر فوج بے چین ہوگئی، حزبِ مخالف نے سَر اُٹھایا اور عدلیہ، اقتدار کے بدلتے مراکز کے ساتھ وفاداریاں بدلتی رہی۔ بھٹّو اور مجیب میں ایک مماثلت یہ بھی تھی کہ دونوں نے نئی سیکوریٹی فورسز بنائیں، جو براہِ راست وزیرِ اعظم کے ماتحت تھیں۔ بھٹّو نے فیڈرل سیکوریٹی فورس (ایف ایس ایف) اور مجیب نے نیشنل سیکوریٹی فورس(جاتیہ راکھی باہنی) بنائی۔ دونوں کو حزبِ مخالف کے خلاف استعمال کیا گیا اور دونوں نے ظلم و ستم کے بازار گرم کیے۔ 

یہ فورسز جمہوریت کے نام پر دھبّا بن گئیں اور اُن کے زوال میں اہم کردارادا کیا۔ دونوں نے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کیں۔ بنگلادیش اور پاکستان میں ایک نمایاں فرق دونوں مُمالک کی افواج میں تھا۔ بنگلادیش کی کوئی منظّم فوج نہیں تھی۔ اُس میں بھانت بھانت کی مکتی باہنیاں، پُرانے فوجی افسران اور سپاہی شامل تھے، جو پاکستان میں پھنس گئے تھے اور جنہیں دو سال بعد بنگلادیش بھیجا گیا تھا۔ جب کہ پاکستان میں بھارت سے شکست کے باوجود کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم تھا، جسے بہت جلد ٹھیک کرلیا گیا۔ دونوں ممالک کی افواج کے اس فرق نے آئندہ برسوں میں ان مُمالک کی سیاست میں فیصلہ کُن کردار ادا کیا۔

بنگلادیش کا نیا آئین دسمبر 1972ء میں نافذ کیا گیا، جس کے تحت ایک مؤثر وزیرِ اعظم اور رسمی صدر کا عُہدہ رکھا گیا۔ دونوں ممالک میں چوہدریوں کو صدر بنایا گیا۔ بنگلادیش میں پچاس سالہ ابو سعید چوہدری اور پاکستان میں ستّر سالہ فضل الٰہی چوہدری صدر بنے۔ فرق یہ تھا کہ بنگلادیش میں یک ایوانی پارلیمان بنی، جب کہ پاکستان کی پارلیمان دو ایوانوں پر مشتمل تھی۔ 

بھٹّو نے’’اسلامی سوشلزم‘‘ متعارف کروایا، جب کہ مجیب نے چار اصول وضع کیے، جو قوم پرستی، سیکولر ازم، سوشلزم اور جمہوریت تھے۔ گو کہ بھٹّو بھی جمہوریت اور سوشلزم کے اصول رکھتے تھے، مگر اُنہوں نے قوم پرستی اور سیکولر ازم کو نعروں کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ بھٹّو اور مجیب میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ بھٹّو نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج ہی پر اسمبلی بنائی، جب کہ مجیب نے نئے انتخابات کا ڈول ڈالا، جو 1972ء کے آئین کے تحت ہوئے۔ بنگلادیش میں مارچ 1973 ء میں انتخابات کروائے گئے، جب کہ پاکستانی آئین منظوری کے مراحل سے گزر رہا تھا۔ بنگلادیش میں عوامی لیگ نے نئے انتخابات میں بھی بھاری اکثریت حاصل کرلی، کیوں کہ اُس کے مقابلے میں کوئی بڑی اور مضبوط سیاسی جماعت موجود نہیں تھی، جب کہ پاکستان میں بھٹّو کو شروع ہی سے ایک متحرّک حزبِ اختلاف کا سامنا کرنا پڑا۔ 

پھر بھٹّو کو ریاستی اُمور کا تجربہ، مجیب سے عُمر میں چھوٹے ہونے کے باوجود کہیں زیادہ تھا، کیوں کہ وہ ماضی میں حکومتوں کا حصّہ رہ چُکے تھے۔ بنگلادیش میں مجیب اور اُس کی کابینہ کے اکثر ارکان تجربہ کار نہیں تھے۔ اُن کا انحصار زیادہ تر افسر شاہی اور عوامی لیگ کے مختلف دھڑوں پر تھا۔ بھٹّو اور مجیب دونوں نے اقتدار سنبھالتے ہی آئین بنایا، مگر پھر اُس میں ترامیم شروع کردیں۔ مجیب نے یہ کام پہلے شروع کیا اور1973 ء میں ہی پہلی اور دوسری ترامیم منظور کروا لیں۔ پہلی ترمیم کے ذریعے کسی بھی ایسے شخص پر مقدمہ چلا کر سزا دی جاسکتی تھی، جو قتلِ عام یا انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہو۔ اس ترمیم کے ذریعے بعض بنیادی حقوق معطّل کیے جاسکتے تھے۔ 

دوسری ترمیم ستمبر 1973ء میں کی گئی، جس کے تحت ہنگامی حالات میں شہریوں کے حقوق سلب کیے جاسکتے تھے۔ پاکستان میں پہلی آئینی ترمیم اپریل1974 ء میں ہوئی، جس کا بہ ظاہر مقصد آئین سے مشرقی پاکستان کا ذکر ختم کرنا تھا، مگر اس کے ساتھ ہی شق نمبر 17 میں تبدیلی کرکے اجتماع کی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔ پھر وفاقی حکومت کے نئے اختیار کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو مُلکی سالمیت کے خلاف قرار دیا جاسکتا تھا۔ بھٹّو اور مجیب دونوں نے مُلکی معیشت ،ریاستی ملکیت میں لی۔ بینکس، صنعتی شعبے اسی طرح قبضے میں لے لیے گئے، جیسے بھارت میں اندرا گاندھی کرچُکی تھیں۔ ان تینوں مُمالک میں معاشی حالات خراب ہوئے اور بدعنوانیاں بڑھ گئیں۔ یہ کرپشن عوامی لیگ کے رہ نمائوں اور ارکان میں زیادہ تھی، جس سے بنگلادیش میں 1974 ء کے قحط کے اثرات میں تباہ کُن اضافہ ہوا۔

مجیب1974 ء کے آخر تک اس نتیجے پر پہنچ چُکے تھے کہ معاشی بدحالی اور سِول نافرمانی سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ پھر جنوری1975 ء میں بنگلادیش میں چوتھی آئینی ترمیم لائی گئی، جس کے تحت پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام آیا۔ مجیب، بھٹّو سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے اور اُنہوں نے بنگلادیش پر یک جماعتی نظام مسلّط کردیا۔ مجیب نے’’ جاتیا سنگ سدھ‘‘ یعنی قومی اسمبلی اور عدلیہ کے اختیارات کم کردیے، جس سے سپریم کورٹ کی آزادی بھی سلب ہوگئی۔ مجیب نے پہلی قومی اسمبلی کی مدّت میں بھی اضافہ کردیا۔ اسی طرح کا اضافہ بھارت میں اندرا گاندھی نے بھی کیا تھا، مگر وہ صدارتی نظام کی طرف نہیں گئی تھیں۔ 

اندرا گاندھی نے بھارت میں جون 1975 ء میں ہنگامی حالات کا نفاذ کرکے شہری حقوق سلب کرلیے ۔ حزبِ اختلاف کے رہنما گرفتار کرلیے گئے، اخبارات پرسنسر اور ہر طرح کے احتجاج پر پابندی لگادی گئی۔ پاکستان میں بھٹّو نے فروری1975 ء میں قومی اسمبلی سے بِل منظور کروایا، جس کے تحت دہشت گردوں پر مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے تھے۔ پھر حزبِ مخالف کی جماعت، نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگادی گئی، جس کے قائد خان عبدالولی خان تھے۔ کچھ دن بعد تیسری آئینی ترمیم منظور کی گئی، جس کے تحت زیرِ حراست افراد کے حقوق سلب کیے گئے اور قید کرنے والوں کے اختیارات بڑھائے گئے۔ حفاظتی حراست کا دورانیہ ایک ماہ سے بڑھا کر تین ماہ کردیا گیا۔ جس کے دَوران کسی نظرِ ثانی بورڈ کے سامنے پیشی بھی ضروری نہیں تھی۔ 

اب پاکستان میں کسی بھی شخص کو غیر معیّنہ مدّت تک حبسِ بے جا میں رکھا جاسکتا تھا۔ گویا 1975ء میں بھارت، بنگلادیش اور پاکستان میں حکومتی سطح پر تقریباً ایک جیسے اقدامات کیے جا رہے تھے۔ بنگلادیش میں پانچویں آئینی ترمیم کے بعد مجیب نے عدلیہ اور مقنّنہ کو مفلوج کرکے ایک جماعتی نظام مسلّط کیا، تو اس جماعت کا نام’’ بنگلادیش کرشک سرامک عوامی لیگ‘‘ رکھا گیا، جسے مختصراً بکسال کہا جانے لگا۔ اس جماعت میں تمام ارکانِ اسمبلی کی شمولیت ضروری قرار دی گئی۔ مجیب اب ہیرو کی بجائے ولن بن چُکے تھے۔ 

اُنہوں نے ماضی میں جنرل ایّوب خان کے صدارتی نظام کے خلاف جدوجہد کی تھی، مگر اب اپنے آئین کو جنرل ایّوب کے صدارتی آئین سے بھی زیادہ آمرانہ بنا چُکے تھے۔ بھارت میں جون 1975 ء میں اندرا گاندھی نے آئین کی دفعہ 352 کو استعمال کرتے ہوئے خود کو غیر معمولی اختیارات دے دیے۔ اب وہ بھی بھٹّو اور مجیب کی طرح عوام کے حقوق سلب کر رہی تھیں۔ حزبِ مخالف کے ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے اور کسی مقدمے کے بغیر اُنھیں حراست میں رکھا گیا۔ اسی دوران بھٹّو حکومت نے کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرکے عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری کا اختیار چھین لیا۔ اس طرح کی ضمانت سیاسی کارکنوں کے لیے بے حد ضروری تھی۔

اس ساری صُورتِ حال کے تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ اس دَوران تینوں مُمالک کی افواج اور عدلیہ کیا کررہی تھیں؟ بنگلادیش میں ایک چالیس سالہ جنرل، کے ایم شفیع اللہ فوج کے سربراہ تھے، جو فوج کی بے چینی نظر انداز کررہے تھے اور خود کو سیاست سے الگ رکھے ہوئے تھے، لیکن پھر بھی بغاوت نہ روک سکے۔ بھارت میں فوج کے سربراہ، پچپن سالہ، ٹی این رائنا تھے، جنھیں اندرا گاندھی نے ہنگامی حالات میں سِول انتظامیہ کی مدد کا کہا، مگر اُنہوں نے فوج کو سیاست سے دُور رکھا۔ 

پاکسان میں ساٹھ سالہ، جنرل ٹکا خان فوج کے سربراہ تھے۔ وہ بلوچستان میں فوجی کارروائیوں میں بھٹّو کی بھرپور مدد کررہے تھے۔ بنگلادیش میں تو فوج بے چین ہوکر دھڑوں میں بٹ رہی تھی، مگر بھارت اور پاکستان میں فوجی ڈھانچا زیادہ مستحکم تھا گو کہ سیاست پر اُن کی سوچ بالکل الگ تھی۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ بنگلادیش میں ساٹھ سالہ، جسٹس ابو صائم چیف جسٹس تھے، جو سیاست سے تو دُور تھے، مگر مجیب کے قتل کے تین مہینے بعد فوج کا ساتھ دیتے ہوئے صدر کا عُہدہ قبول کرلیا۔ بھارت میں تریسٹھ سالہ، جسٹس اے این رے چیف جسٹس تھے، جن کا تقرّر اندرا گاندھی نے انتہائی متنازع طور پر کیا تھا۔ 

اُن کے تقرّر سے تین سینئر ججز کی حق تلفی ہوئی اور اس اقدام کو بھارتی سپریم کورٹ پر حملہ تصوّر کیا گیا۔ ظاہر ہے، جسٹس رے نے اندرا گاندھی سے وفاداری نبھائی۔ پاکستان میں جسٹس حمود الرّحمان چیف جسٹس تھے۔وہ 1969ء سے عدالتِ عظمیٰ کے سربراہ چلے آرہے تھے۔ جب نیپ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا، تو جسٹس حمود الرحمان نے ولی خان کے دو ججز پر اعتراضات مسترد کردیے۔ یہ جج بھٹّو صاحب کے قریب ترین سمجھے جاتے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جسٹس حمود الرّحمان بھی، جو خود مشرقی پاکستان کے تھے اور سیاسی رہنمائوں کو غدّار قرار دیے جانے کے نتائج کے عینی شاہد تھے، آئینی توڑ پھوڑ میں بھٹّو صاحب کے ساتھ رہے۔

بنگلادیش میں ایک اہم عنصر یہ تھا کہ وہاں کی فوج میں تین گروہوں سے مختلف سلوک کا الزام تھا۔ یعنی ایک دھڑا سابق مکتی باہنی کے جنگ جوئوں پر مشتمل تھا، جنہیں فوج میں شامل کرلیا گیا تھا۔ دوسرے وہ سابق باغی فوجی تھے، جنہوں نے ریاستِ پاکستان سے بغاوت کی تھی اور تیسرے وہ فوجی، جو پاکستان میں دو سال پھنسے رہنے کے بعد رہا ہوکر بنگلادیش پہنچے تھے۔ اس آخری دھڑے کو عزّت سے نہیں دیکھا جاتا تھا کیوں کہ انہیں طفیلی سمجھا جاتا تھا جو جنگ لڑے بغیر آزادی کے مزے لے رہے تھے۔ اگست 1975 ء میں درمیانے درجے کے چند فوج افسران نے اپنے طاقت وَر صدر، مجیب الرّحمان کے گھر پر حملہ کرکے اُنھیں تین بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد سمیت موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ 

مجیب کی صرف دو بیٹیاں بچ گئیں، جو مُلک سے باہر تھیں۔ اُن میں سے ایک حسینہ واجد تھیں، جو اِن دنوں بنگلادیش کی وزیرِ اعظم ہیں۔ بغاوت کے بعد مجیب کے ایک پُرانے ساتھی، مشتاق خوندکر نے قیادت سنبھالی اور فوری طور پر مجیب کی پالیسیز بدل دیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ضرور اس بغاوت کی منصوبہ بندی میں شامل رہے ہوں گے۔ چند افسران کی بغاوت اور فوج کے سربراہ، جنرل شفیع اللہ کی ناکامی سے بنگلادیش کی فوج میں اندرونی تضادات واضح ہوئے۔ 

بظاہر تو فوج کے نائب سربراہ، میجر جنرل ضیاء الرحمان بھی اس بغاوت سے لاعلم تھے، مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ اس سازش کا حصّہ رہے ہوں گے، کیوں کہ نئے صدر نے جنرل شفیع کو ہٹاکر جنرل ضیاء کو فوج کا سربراہ بنا دیا۔ صدر مشتاق کے دور میں چار بڑے قومی رہنما قتل کیے گئے، جن میں سابق قائم مقام صدر، نذر الاسلام، دو سابق وزرائے اعظم تاج الدّین اور منصور علی کے علاوہ عوامی لیگ کے سابق صدر، قمر الزمان شامل تھے۔ کیا پوری بنگلادیشی فوج مجیب کے خلاف، مشتاق اور ضیا کے ساتھ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ چیف آف جنرل اسٹاف، بریگیڈئیر خالد مشرف اس صُورتِ حال پر خوش نہیں تھے۔ جب صدر مشتاق نے بغاوت کے صرف ایک ماہ بعد مجیب کے تمام قاتلوں کو معافی دے دی، تو مشرف نے مجیب کے حامی فوجیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا اور نومبر 1975 ء میں فوج کے سربراہ، ضیا الرحمان کو گرفتار کرکے مشرف نے خود کو ترقّی دے کر میجر جنرل بنالیا اور فوج کے نئے سربراہ ہونے کا دعویٰ کیا۔ 

اُنہوں نے مشتاق خوندکر کو ہٹاکر چیف جسٹس ابو صائم کو صدر بنایا، مگر صرف تین دن بعد مجیب مخالف فوجی حاوی ہوگئے۔ مشرف قتل کردیے گئے اور ضیاء الرحمان ایک بار پھر فوجی سربراہ بن گئے۔ ضیاء الرحمان نے ابو صائم کو صدر برقرار رکھا اور اس طرح مجیب کے حامی، خالد مشرف اور مجیب مخالف، مشتاق خوندکر کی کہانی ختم ہوئی۔ اس خون خرابے کا سب سے بڑا فائدہ جنرل ضیا الرحمان کو ہوا۔ اسی طرح کچھ عرصے بعد جنرل ضیا الحق نے بھٹّو کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا اور ساتھ ہی بھارت میں بھی اندرا گاندھی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

تازہ ترین