• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماڈل : عائشہ ملک

ملبوسات: فِٹ ویئر برائیڈل کلیکشن

زیورات : زیور کلیکشن

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

تحریر: نرجس ملک

یوں تو اللہ تعالیٰ کے بنائے اِک اِک رشتے کا اپنا ہی حُسن و جمال، خُوبیاں، خُوب صُورتیاں ہیں۔ والدین، والدین کے والدین، اولاد اور اولاد کی اولاد سے لے کربہن بھائیوں، چچا، تایا، پھوپھی، ماموں، خالہ تک کون سا رشتہ ہے، جو انسان کے لیے ناگزیر نہیں، لیکن دنیا کےسب سے پہلے رشتے ’’میاں، بیوی‘‘ کو خاص طور پر ’’اللہ کی نشانی‘‘ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ یہ وہ خُوب صُورت، اَن مول، بےمثل بندھن ہے، جو محض نکاح کے تین بولوں (قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے) سے دو اجنبیوں کو عُمر بھر کے لیے ’’ایک‘‘، یک جان، دو قالب کردیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں اِسی رشتے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ’’وہ (یعنی بیویاں) تمہارا لباس ہیں اور تم (یعنی شوہر) اُن کا لباس ہو۔‘‘ اور پھر علماء نے اس آیت کی جو بہترین تشریح کی، وہ اس طرح ہے: چوں کہ لباس کو رنگ، جنس اور قیمت میں انسان کے مطابق، اُس سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، تو میاں بیوی کے لیے بھی ہم کفو ہونا، شخصیت و فرہنگ میں مطابقت بہت ضروری ہے۔ لباس، انسان کی زینت بڑھاتا، عیب چُھپاتا، آرام پہنچاتا ہے، تو اِسی طرح زوجین کو بھی اِک دوجے کے لیے باعثِ زیب و زینت، وجہہِ آرام و سُکون ہونا چاہیے اور دونوں کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کے عیبوں، رازوں کی مکمل پردہ داری، حفاظت کریں۔ 

انسان، لباس کا انتخاب ہمیشہ موسم کی مناسبت سے کرتا ہے۔ سرد موسم میں موٹے، گرم کپڑے پہنے جاتے ہیں، تو گرمی میں ہلکے پھلکے، ٹھنڈے پہناوے۔ اِسی لیے اگر کبھی شوہر کا مزاج برہم ہو، وہ کسی سبب غصّے میں ہو تو بیوی کو نرمی و مصالحت سے کام لینا چاہیے، جب کہ اگر کبھی بیوی تھکن، بیماری میں سختی، درشتی، چڑچڑے پن کا مظاہرہ کرے، تو شوہر کو بھی اُس کی دل جوئی کی خاطر بھرپور محبت و الفت کا اظہار کرنا چاہیے۔ اور پھر جس طرح ہم پوری کوشش کر کے اپنے لباس کو آلودگی، گندگی سے بچاتے ہیں۔ اسی طرح فریقین، جانبین کو بھی چاہیے کہ ایک دوسرے کو گناہوں کی آلودگی، آلایش سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کریں۔

’’میاں بیوی.....ایک دوجے کا احساس، ایک دوجے کا لباس‘‘، اسی موضوع پر جیو ٹی وی سے 2012ء میں سیّد محمد وصی شاہ کا تحریر کردہ ایک بہت خُوب صُورت ڈراما ’’لباس‘‘ کے نام سے نشر ہوا۔ اس ڈرامے کا تھیم سونگ، جو وصی شاہ ہی کا تحریر کردہ تھا، خاص طور پر زبانِ زدِ عام ہوا۔ جس کے انتہائی میٹھے، شیریں، لازوال بول آج آپ کی نذر ہیں۔ ؎ مَیں خُوش نصیبی ہوں تیری، مجھے بھی راس ہے تُو.....تیرا لباس ہوں مَیں، اور میرا لباس ہے تُو.....عجیب شے ہے محبت کہ ہم کہیں جائیں.....تیرے قریب ہوں مَیں، میرے آس پاس ہے تُو.....تیرا لباس ہوں مَیں، اور میرا لباس ہے تُو.....کب یہ ممکن ہے کوئی ہم کو جُدا کرجائے.....مَیں ہوں ناخن تو میری جان، میرا ماس ہے تُو .....تیرا لباس ہوں مَیں، اور میرا لباس ہے تُو.....بند ہونٹوں پہ میرے ریت جَمی جاتی ہے.....تُو میرے پاس ہے اور پھر بھی میری پیاس ہے تُو.....تیرا لباس ہوں مَیں، اور میرا لباس ہے تُو.....مَیں نے خود کو بھی فراموش کیا تیرے لیے.....عام ہے سارا جہاں، میرے لیے خاص ہے تُو.....تیرا لباس ہوں مَیں، اور میرا لباس ہے تُو.....

دراصل اِن دنوں سال کا وہ پانچواں موسم، جسے ’’شادی بیاہ سیزن‘‘ کہا جاتا ہے، پورے جوبن پر ہے۔ بابل کے انگنے سُونے ہورہے ہیں۔ اُن کی چہکتی چڑیوں، مہکتی کلیوں، اُڑتی پھرتی تتلیوں سی ننّھی پریاں، چھوئی موئی سی بیٹیاں زندگی کے اِک نئے سفر پر گامزن ہیں، تو پیادیس بقعہ نور بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف رنگوں، روشنیوں، خوشبوئوں کی ریل پیل ہے۔ وہ ہے ناں ؎ جانے کب نکلے مُرادوں کی دلہن کی ڈولی.....دل میں بارات ہے ٹھہری ہوئی ارمانوں کی۔ تو دونوں ہی طرف سے خُوب ارمان نکالے جارہے ہیں۔ والدین کی بھرپور کوشش ہے کہ بٹیا رانی کی کوئی خواہش، فرمایش تشنہ نہ رہ جائے، تو دوسری جانب بھی ’’عروسِ نو‘‘ کے عین شایانِ شان ایک شان دار استقبال کی تیاریاں ہیں۔ یوں کہیے اِن دنوں ؎ زندگی خوابوں کی چلمن میں یوں اٹھلاتی ہے.....جیسے سکھیوں میں گِھری ہو کوئی شرمیلی دلہن۔ تو اس سیزن کی بےحد پیاری ’’مہمانِ خصوصی‘‘ کے لیے بہت ہی حسین و دل کش عروسی پہناووں سے مرصّع ایک اچھوتا، شان دار سا انتخاب ہماری طرف سے بھی پیشِ خدمت ہے۔ ذرا دیکھیے، سیاہی مائل بینگنی سے رنگ کی بھاری کام دار شرٹ کےساتھ جارجٹ کے تربوزی رنگ ہلکے سے لہنگے اور کریم کلر خُوب بَھرے بَھرے دوپٹے کی ہم آمیزی کیا غضب ڈھارہی ہے۔ بیج رنگ فراک اسٹائل چھوٹی کُرتی کےساتھ بہت ہی اسٹائلش لہنگے کی ندرت و انفرادیت کے تو کیا ہی کہنے، خاص طور پر لہنگے کے باٹم پر کچھ شاہ کار تصاویر کےساتھ ایپلک اسٹائل میں جو پَیچ ورک کیا گیا ہے، اُس کی تو بات ہی الگ ہے۔ پورے پہناوے پر موتی کے کام کے ساتھ کہیں کہیں سُرخ ریشم کے استعمال نے گویا لباس کا حُسن سہ آتشہ کردیا ہے۔ 

آرگنزا، میسوری اور جارجٹ فیبرک کے مِکس اینڈ میچ میں گہرے گندمی سے رنگ کے ساتھ نقرئی رنگ بھاری کام دار لہنگے اور لانگ شرٹ کا اسٹائل جداگانہ ہے، تو سلور اور فون کے حسین کامبی نیشن کے ساتھ ٹی پنک دوپٹے کی دل آویزی بھی کچھ کم قیامت نہیں۔ خصوصاً بھاری کام دار اوپن شرٹ کا اسٹائل اور لہنگے، دوپٹے کا ایپلک، پہناوے کے حُسن کو کچھ اور بھی بڑھارہا ہے۔ پھر ہر عروسی جوڑے سے ہم آہنگ بھاری زیورات اور میک اوور تو گویا اپنی مثال آپ ہی ہے۔

وہ جو اِک دوجے کا لباس بننے جارہے ہیں، اُن میں سے ایک تو ایسے قاتل رنگ و انداز دیکھ کر ضرور ہی گھائل ہوجائے گا۔ بے اختیار ہی گانے گنگنانے لگے گا ؎ جس نے پتھر کا کیا ہے مجھ کو.....الف لیلیٰ کی پَری ہو جیسے.....رات اِک شب کی بیاہی ہو دلہن.....مانگ تاروں سے بَھری ہو جیسے۔

تازہ ترین
تازہ ترین