• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جمہوری استحکام: قانون سازی کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل کر چلنا ہوگا

مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے چار ماہ گزر گئے ہیں مگر کشمیریوں کو بھارتی جبر و استبداد سے نجات دلانے میں ہم صرف بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں اقوام عالم خاموش ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے قانون میں ترمیم کے لئے معاملہ پارلیمنٹ میں بھیج دیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن دسمبر2019 موجودہ حکومت کا آخری مہینہ قرار دے رہے ہیں۔ اس میں تو شک نہیں کہ ادارے حکومت کے ساتھ ہیں مگر آرمی چیف کی توسیع کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے تین دن میں بار بار موقف تبدیل کئے۔ 

عدالت عظمیٰ نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کی طرف ریفر کر کے جگ ہنسائی کا باب بند کر دیا۔ نواز شریف کی علاج کے لئے لندن روانگی کے بعد چہل پہل ’’موومنٹ‘‘ حکمرانوں کے لئے پریشانی کا موجب بنی ہوئی ہے اور شبہ ہو رہا ہے کہ نواز شریف کے ذاتی معالج ان کی زندگی خطرے میں قرار دے کر پی ٹی آئی کی حکومت سے ہاتھ کر گئے ہیں حالانکہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین نواز شریف کی بیماری سے متعلق رپورٹ پر آج بھی ڈٹی ہوئی ہیں۔ 

نواز شریف برطانیہ ہی میں علاج کراتے ہیں یا انہیں امریکہ بھی لے جایا جاتا ہے فوری کچھ کہنا ممکن نہیں، شہباز شریف کی وطن واپسی پر بات کھلے گی۔ سرکاری حلقوں میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے، مریم نواز کو بھی علاج کے لئے بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ 

دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی صحت کو خطرے میں قرار دیئے جانے کے باوجود کراچی منتقل کرنے میں تاخیر کی جا رہی ہے جسے ریاستی تعصب قرار دیا جا رہا ہے اور بعض لوگ اسے صوبائی تعصب کی شکل میں ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ سابق صدر زرداری جیل میں قیام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں مگر انہیں اپنے گھر اور ماحول سے دور رکھ کر جو اذیت پہنچائی جا رہی ہے وہ قومی یکجہتی میں دراڑیں ڈالنے کا موجب بن سکتی ہے۔ 

مولانا فضل الرحمٰن تو بر ملا یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت بیٹھ رہی ہے کیا ہم سوویت یونین کی طرح ٹوٹنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو نواز شریف کے خلاف پانامہ کو بھی سکینڈل قرار دے دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی حکومت اپنے اقتدار کے15ماہ گزار چکی ہے مگر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر آج بھی بضد ہیں کہ سابق حکومت کی وجہ سے ڈالر کی قدر مستحکم نہیں رہی۔ 

مولانا فضل الرحمٰن تو چونکہ پارلیمانی سیاست سے آئوٹ ہیں وہ تو عمران خان حکومت کے خلاف سخت بات کرنے کے حق دار قرار دیئے جا سکتے ہیں مگر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ اداروں میں ڈائیلاگ کے ذریعے نئی ڈیل ہونی چاہیئے، ایک طرف وزیراعظم اپوزیشن کو چور ڈاکو قرار دے کر جیلوں میں بھیجنے کے خواہاں نظر آتے ہیں تو دوسری طرف فواد چوہدری تسلیم کرتے ہیں کہ جمہوریت کو اپوزیشن کے بغیر نہیں چلایا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کو بحیثیت ادارہ تسلیم کیا جانا چاہیئے۔ 

پندرہ ماہ کی حکومت ابھی تک عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر غریبوں کو رگڑے دے رہا ہے تنخواہ دار اور دیہاڑی دار طبقے کا بجٹ بری طرح متاثر ہوا ہے ضلعی حکومتیں اشیائے خورو نوش کوگراں فروشی کی لعنت سے چھٹکارہ دلانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ 

بیروزگاروں کی تعداد میں اصافہ کی وجہ سے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ چوکوں اور چوراہوں میں بھکاریوں کے جتھوں کی موجودگی اربوں روپے کے ’’بیت المال‘‘ کی کارکردگی کا منہ چڑا رہی ہے سیاسی حلقوں میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت میں تعطل بھی موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ 

سینئر ایڈووکیٹ اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اکرم شیخ کہتے ہیں کہ نواز شریف کا اقتدار سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ شروع کرنے کی وجہ سے ختم ہوا ہے کیس کے آغاز میں ہی انہیں دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی تھیں کہ نواز شریف کو سمجھائیں کہ وہ پرویز مشرف کے حوالے سے خاموشی اختیار کریں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین میں موجود آرٹیکل چھ استعمال کرنے کے لئے شامل کیا گیا تھا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے ہم اپنا فرض اداکریں گے۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے حکومت سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا آغاز کرچکی ہے تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) حکومتی رویے پر نالاں ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کا کہنا ہےکہ حکومت مشاورت کی بجائے دھمکیاں دے رہی ہے اچھا سا ڈرافٹ بنا کر لائیں اور اپوزیشن سے مل بیٹھ کر بات کریں مگر حکومت نے دھمکیوں سے آغاز کیا ہے حکومت چاہتی ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر تضاد پیدا کیا جائے معاملے پر قانونی کمی کو پارلیمنٹ ایکٹ سے پورا کیا جائے حکومت چاہے تو قانون سازی مارچ/ اپریل سے پہلے بھی ہو سکتی ہے اور اگر نئے انتخابات ہوتے ہیں تو یہ کام اگلی حکومت کرے گی۔ 

اپنی گفتگو میں رانا تنویر حسین نے کہاکہ آرمی چیف کی توسیع کے معاملے کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا حکومت کی جانب سے ٹھیک نہیں ہوا جو کمی سامنے آئی ہے اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے پورا کیا جانا چاہیئے نیا ایکٹ بھی بنایا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں کوئی ابہام، کنفیوژن یا سوال پیدا نہ ہو۔سیاسی حلقے وزیراعظم عمران خان کے دورہ لاہور کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے دورہ لاہور کے دوران جس طرح کھل کھلا کر باتیں کی ہیںاس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ پنجاب میں حکومت اور انتظامیہ ان کے مکمل کنٹرول میں ہے اور وہ ایسی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے جو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ناکام کرنے میں مصروف ہیں۔وزیراعظم نے اپنی حکومت کے ناراض اتحادیوں کو بھی بات کرنے کا یقین دلایا اور ان کے شکوے شکایات سننے کیلئے آمادگی ظاہر کی۔ 

سیاسی ہنگامہ آرائی کی کیفیت کو وزیراعظم نے رابطوں کا فقدان قرار دیا پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا گیا مگر وزیراعظم نے شرکت نہ ک تاہم اگلے روز وزیراعظم نے اپنے ترجمانوں کے ساتھ دن گزارا اور انہیں فرنٹ فت پر کھیلنے کے گر بتائے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بصیرت کے دن گزر رہے ہیں الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کی تقرری میں اتفاق رائے پر پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے اتفاق پر پہنچنے سے مستقبل میں سیاسی روا داری کو تقویت ملے گی۔ 

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا کام پارلیمنٹ کے سپرد کرکے انتہائی اہم فریضہ بھی نبھا دیا ہے حکومت کو چھ ماہ دیئے گئے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تقرری سے متعلق قانون سازی کرے جس کی روشنی میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت اور دیگر شرائط طے ہوں گی۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین