• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سمیت دنیا بھر میں فضائی آلودگی ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے۔ امریکن لَنگ ایسوسی ایشن کی رپورٹ برائے سال 2019ء کے مطابق امریکا میں مقیم باشندوں کے ہر سانس کے ساتھ ان کے اندر نقصان دہ فضائی مادے بھی جسم میں منتقل ہو رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن کی ’’اسٹیٹ آف دی ایئر‘‘ رپورٹ کے مطابق، امریکا کے 14کروڑ 10لاکھ افراد غیر صحت مند فضا میں سانس لے رہے ہیں، جوکہ 2018ء کے مقابلے میں 70لاکھ کا اضافہ ہے۔

امریکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکا میں گزشتہ 2برسوں کے دوران، ماضی کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں آلودہ دنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد خبر رساں ادارے نے بتایا کہ 2013ء سے 2016ء کے عرصے کے مقابلے میں 2018ء میں امریکی عوام کو 15فیصد زیادہ آلودہ دنوں کا سامنا رہا۔

سائنس ہمیں پہلے ہی بتا چکی ہے کہ غیرصحت مند ہوا انسانی صحت کے لیے خطرہ ہے۔ فضائی آلودگی، خصوصاً فضا میں شامل وہ آلودہ مادے جو آنکھ سے نظر نہیں آتے، انسانی صحت کے لیے خطرات کو مزید بڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہ سچ ہے کہ فضائی آلودگی انسانی جان بھی لے سکتی ہے۔ یہاں تک کہ فضائی آلودگی کی کم سطح بھی دل اور پھیپھڑوں کے مسائل پیدا کرسکتی ہے، جس کے نتیجےمیں موت واقع ہوسکتی ہے۔

فضائی آلودگی اور صحت کی خرابی کے درمیان تعلق اتنا گہراہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO)نے فضائی آلودگی کو ’نیا تمباکو‘ قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے کے حالیہ تخمینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں 80لاکھ سے زائد افراد کی اموات کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سگریٹ پینے سے اتنی زیادہ اموات نہیں ہوتیں، جتنی کہ آلودہ فضا میں سانس لینے سے ہوتی ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ماہرِ طبعیات اور کلائمیٹ ریسرچر، رچرڈ میولر 2018ء میں کی جانے والی اپنی ماحولیاتی تحقیق میں فضائی آلودگی سے متعلق ایک قدم اور آگے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2018ء میں ایک اوسط امریکی شہری کی زندگی کو پورے دن کے دوران، ایک تہائی سگریٹ پینے جتنا نقصان ہوتا ہے۔ 

ہرچندکہ ایک تہائی سگریٹ کے مساوی سگریٹ کا دھواں روزانہ لینا بظاہر کوئی تشویشناک بات معلوم نہیں ہوتی، تاہم اگر اسے جمع کیا جائے تو ایک سال میں 100اور 10سال میں 1000 سگریٹ بنتے ہیں۔ رچرڈ میولر کہتے ہیں، ’’آلودہ فضا میں سانس لینا انسانی صحت کو لاحق خطرات کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے، جس سے ہر فرد بشمول بچے اور خواتین بھی متاثر ہورہے ہیں۔ میرے خیال میں فضائی آلودگی آج کی دنیا کی سب سے بڑی ماحولیاتی تباہی کی شکل ہے۔ یہ انتہائی شرمناک بات ہے کہ ہم اس کی طرف مطلوبہ توجہ نہیں دے رہے‘‘۔

ہم کس فضا میں سانس لے رہے ہیں؟

سگریٹ نوشی کے ذریعے 7ہزار کیمیائی مادے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم 69کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ ہر جگہ فضائی آلودگی کی صورتحال مختلف ہے۔ اگر امریکا کی بات کی جائے تو وہاں ایندھن، فضائی آلودگی کے باعث اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے اور یہ تقریباً 2لاکھ اموات کی وجہ بنتا ہے۔

فضائی آلودگی ، صرف شہری مسئلہ؟

آسٹِن کی دی یونیورسٹی آف ٹیکساس کا ایک تحقیقی گروپ شہروں میں فضائی آلودگی پھیلانے والے مادوں کے اخراج، لوگوں کے اس سے متاثر ہونے کے عمل اور انسانی صحت کے درمیان تعلقات کی افہام و تفہیم کے لیے کام کرتا ہے ۔

تنظیمی مشاورت کے میدان میں ایک کہاوت مقبول ہے، ’’آپ جس چیز کی معیاربندی نہیں کرسکتے، اس کا نظم و نسق سنبھالنا بھی آپ کے بس کی بات نہیں‘‘۔

ہمارے شہروں کی فضا بہت زیادہ آلودہ ہے مگر صرف اتنا معلوم ہونا ہی کافی نہیں ہے۔فضائی آلودگی سے مؤثر طور پر نمٹنے اور صحت عامہ میں بہتری لانے کے لیے شہر کے منصوبہ سازوں، ہوائی معیار کو منضبط (regulate)کرنے والوں، صحت عامہ کے لیے کام کرنے والوں اور اس سے متعلق دوسرے شعبے کے لوگوں کو آلودگی پھیلانے والے مختلف مادوں اور ان کے تعامل کے طریقوں کے بارے میں صحیح معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔

آسٹِن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں ڈپارٹمنٹ آف سول، آرکیٹیکچرل اینڈ انوائرنمینٹل انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر جوشوا آپٹے کہتے ہیں، ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی کی درستی کے ساتھ معیار بندی کے بغیر، آلودگی کے ذرائع اور ان سے نبردآزمائی کے طریقۂ کار کے بارے میںہم لوگ محض تاریکی میں تیر چلا رہے ہوتے ہیں ‘‘۔

ماہرین کے مطابق، آج فضائی آلودگی عمومی طور پر ایک شہری مسئلہ ہے، جس سے دنیا کے بڑے شہر متاثر ہیں، تاہم اگر اس پر سنجیدگی سے کام نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ شہروں سے باہر نکل کر گاؤں اور دیہات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ 

تاہم، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دیہی علاقے فضائی آلودگی سے مکمل طور پر محفوظ ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ فضائی آلودگی کے اثرات دور دراز کے علاقوں میں ابھی سے ہی محسوس کیے جارہے ہیں۔

تازہ ترین