• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جیکب کلاک‘‘ دنیا کا واحد گھڑیال جو کشش ثقل سے چلتا ہے

مہوش لطیف

جوکم صاحب بہادر کے بسائے ہوئے شہر جیکب آباد کا شمار سندھ کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے ۔ بریگیڈیئر جنر ل جان جیکب جنہیں ان کے عقیدت مند ’’جوکم صاحب بہادر‘‘کے نام سے یاد کرتے ہیں جیکب آباد شہر کے بانی اور یہاںکے باشندوں کے لیے روحانی بزر گ کا درجہ رکھتے ہیں۔ عالمی تاریخ میں وہ واحد فوجی ہیں جنہوں نے میدان جنگ کے علاوہ فن تعمیراور سول انجینئرنگ میں بھی کمالات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی نادر شاہ کار تخلیق کیے جو سیاحوں کے لیے آج بھی حیرانی کا باعث ہیں۔


ویسے تو انہوں نے سول انجینیرنگ اور اُس دور کی ٹیکنالوجی کے لحاظ سے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے لیکن ان کے دو شاہ کار ’’جیکب کلاک ‘‘ اور کبوتر گھر‘‘ آج بھی دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کا مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ کشش ثقل کی مدد سے چلنے والا دینا بھر میں واحد کلاک ہے جو جیکب آباد کے ڈپٹی کمشر ہاؤس پر ایس تادہ ہے۔

جان جیکب جنوری 1812میں انگلینڈ کی سمرسٹ کاؤنٹی کے علاقے ’’وولاونگٹن‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والداسٹیفن لونگ جیکب وہاں کے گرجا گھر میں پادری کے منصب پر فائز تھے۔ان کا شمار علاقے کی محترم شخصیات میں ہوتا تھا۔جان جیکب نے اسکول کی سطح تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدانتہائی کم عمری میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور کیڈٹ بنگئے۔ 

جنوری 1828میں اپنی سولہویں سالگرہ والے دن انہیں بمبئی آرٹلری میں کمیشنمل گیا اورانہیں فوجی خدمات کی انجام دہی کے لیے ہندوستان بھیج دیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دن کے بعد سے انہوں نےدوبارہ انگلستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھا حتی کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین بھی ان کے بسائے ہوئے شہر میں کی گئی۔ 

سات سال تک مذکورہ رجمنٹ میں خدمات انجام دینے کے بعدانہیں گجرات میں معاون کلکٹر تعینات کیاگیا۔1838ء میں پہلی ’’اینگلو افغان وار‘‘ کے دوران انہوں نے سرجان کین (John Keane) کی کمان میں میانی کی جنگ لڑی۔ اس جنگ میں وہ سندھ ہارس رجمنٹ کے کمانڈر تھے۔ وہ بہادرسپاہی ہونے کے علاوہ عسکر ی منصوبہ بند ی کے ماہر بھی تھے،جس کی وجہ سے ان کی رجمنٹ نے سندھ پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا چنانچہ کمپنی نے ان کی زیر کمان رجمنٹ کو 36 جیکب ہارس کا نام دے کرانہیں اس کی مستقل قیادت سونپ دی۔ .میانی کی جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے ’’آرڈر آف باتھ ‘‘ کا اعلیٰ ترین اعزاز دیا گیا۔1942میں جان جیکب کو ’’کچھ‘‘ کے تمام سرحدی علاقوں کا پولیٹیکل چارج دے دیا گیا۔

برطانوی تسلط سے قبل جیکب آباد کا ضلع خان آف قلات کی حکومت میں شامل تھا اور ا نہی کی مناسبت سے یہ خان گڑھ کہلاتا تھا۔ وہ یہاں موسم سرما گزارنے آتے تھے ۔ یہ علاقہ اس وقت ریگزار تھا اور یہاں پانی اور سبزے کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ خان گڑھ سندھ بلوچستان کی سرحد کے سنگم پر واقع تھا۔ ہندوستان سے سامان لے کرتجارتی قافلے یہاں سے گزرکر کر بلوچستان سے ہوتے ہوئے افغانستان ،ایران، ازبکستان اور روس کی جانب عازم سفر ہوتے تھے۔اس زمانے میں یہاں کی مقامی آبادی کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ ڈکیتی اور راہ زنی تھا۔ان قافلوں پر حملہ کرکے ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیتے تھے۔ سندھ پر برطانوی تسلط قائم ہونے کے بعد 1847ءتک جنرل جان جیکب بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔ 

انہیں پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے تقرر کرکے خان گڑھ بھیجا گیا جو یہاں پہنچ کرمقامی آبادی میں گھل مل گئے۔انہوں نے علاقے میں امن و امان کی بہتری کے لیے جنگی حکمت عملی اپناتے ہوئےاپنے فہم و تدبر سے تمام سماج دشمن عناصر کا خاتمہکرکے نقل و حمل کے راستوں کو محفوظ بنایا۔ اس کے بعد انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کی جانب توجہ مرکوز کی اور اسے اپنا مقصد حیات بنالیا۔

جان جیکب، فوجی ہونے کے ساتھ مکینیکل انجینئر اور تعمیراتی فن میں بھی دسترس رکھتے تھے۔اس وقت خان گڑھ کا علاقہ وسیع و عریض صحرا پر مشتمل تھا۔ انہوں نے اس بے آب و گیا صحرا کو ایک خوب صورت شہر اور سر سبز و شاداب علاقہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے جان جیکب نے خان گڑھ میں ایک وسیع و عریض تالاب بنوایا جسے پانی سے بھرنے کے لیے گدو بیراج سےشہر کے درمیان سے دو نہریں، راج واہ اور بدھو واہ نکالی گئیں۔ ان کا پانی لوگوں کی آبی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ اراضی کو بھی سیراب کرتا تھا، جس سے علاقے میں ہریالی آگئی۔ 

بے آب و گیاریگستانی علاقہ، نخلستان میںبدل گیا۔جان جیکب نےسفری سہولتوں کے لیے، خان گڑھ کو 600 میل یا 965 کلو میٹر طویل شاہ راہ کے ساتھ ملادیا، جس سے یہ علاقہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ مربوط ہوگیا۔ وائسرائے ہند کو جب جان جیکب کے کارناموں کا علم ہوا تو اس نےاپنے نوجوان افسر کی خدمات کے صلے میں خان گڑھ کا نام تبدیل کر کے جیکب آباد رکھ دیا اور اسے کرنل سےترقی دے کر بریگیڈیئر جنرل بنا دیا گیا۔

جنرل جان جیکب کی مکنیکل مہارت کا نمونہ جیکب کلاک ہے‘جو آج بھی جیکب آباد میں عجوبے کی صورت مں موجود ہے،جوپوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد کلاک ہے۔جان جیکب نے زندگی میں اپنے ہاتھوں سے دو گھڑیال بنائےتھے۔ ان میں سے ایک گھڑیال 27 دسمبر 2007 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعے کے بعد مشتعل افراد کے پرتشدد احتجاج کی بھینٹ چڑھ گیا،جب کہ جیکب کلاک آج بھی موجودہے۔ یہ کلاک جان جیکب کی ایک سو ستر سال پرانی رہائش گاہ میں نصب ہے، جو اب ڈپٹی کمشنر ہاؤس بن چکا ہے۔

اس گھڑیال کی تیاری کے لیے جنرل جان جیکب نے اپنی رہائش گاہ میں کنواں کھدوایا‘ اس کے اوپر چھ بائی چھ کا آبنوسی لکڑی کا باکس بنوایا اور اس میں اپنے ہاتھوں سے پیتل کا کلاک بنا کر لگوا دیا۔یہ کشش ثقل کے ساتھ چلنے والا دنیا کا اپنی نوعیت کا واحد کلاک ہے‘ یہ دن‘ ہفتہ‘ مہینہ اور سال بھی بتاتا ہے‘ اس پرہر روزچاند کی تاریخ‘ پوزیشن اور سائز بھی آتا ہے۔ اس کے ایک جانب پاکستان اور دوسری طرف برطانیہ کا وقت آتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 168 برس گزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی خرابی‘ کوئی خامی سامنے نہیں آئی۔

کلاک کے نیچے پیتل کا چالیس کلو گرام وزنی سیلنڈر بندھا ہے، یہ سیلنڈر چابی کے ذریعے اوپر آتا ہے اور سولہ سے سترہ دنوں میں آہستہ آہستہ کنوئیں میں اترتا چلا جاتا ہے۔کلاک کوسولہ دن بعد دوبارہ چابی دی جاتی ہےجوخاصی وزنی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ زور لگانا پڑتا ہے۔ جان جیکب نے مقامی آبادی میں سے ایک خاندان کے افراد کو کلاک کی صفائی، مرمت اور چابی بھرنے کی ٹریننگ دینے کے لیے منتخب کیا۔ 

مذکورہ خاندان کے افراد چار نسلوں سےاس گھڑیال کی دیکھ بھال کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔موجودہ دور میں یہ ذمہ داری اس خاندان کے نوجوان جہانگیر خان کےکاندھوں پر عائد ہے، جو ڈپٹی کمشنر کے بنگلے پریومیہ اجرت پر ملازم ہے۔جہانگیر کے مطابق یہ گھڑیال اسپرنگ ٹیکنالوجی اور زمین کی کشش ثقل کے تحت کام کرتا ہے اس میں ایک ہزار کلو وزنی پنڈولم لگایا گیا ہے۔

پینڈولم کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے گھڑیال کے کانٹوں میں حرکت ہوتی ہے۔ یہ پینڈولم 32 میٹر زیر زمین جاتا ہے اور پھر چابی گھما کر اسے اوپر لایا جاتا ہے اور یہ مشق ہر 15 روز بعد کی جاتی ہے۔ جب اس کا کوئی پرزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی مرمت جہانگیر کو اپنی جیب سے کروانا پڑتی ہے۔

جنرل جان جیکب کادوسرا کارنامہ کبوتروں کا پیغام رسانی کے لیے استعمال تھا۔ انہوں نےاس مقصد کے لیے 1850 میں اپنے گھر کے احاطے میں ایک کبوتر گھر بنایا۔ اس مں سدھائے ہوئے کبوتر سرکاری نامہ بری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ جنرل جیکب ان کے پاؤں کے ساتھ رقعہ باندھ کر اڑا دیتا تھا اور یہ جیکب آباد سے پیغا م لے جاکر، سکھر میں ایک مخصوص مقام پر پہنچا دیتے تھے اور وہاں سے جواب لے کر واپس آتے تھے۔

جان جیکب کا بنایا ہوا یہ کبوتر گھر آج بھی ان کی سابقہ رہائش گاہ اور موجود ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں موجود ہے، جہاں کبوتروں کے تقریباً 320 کابک بنے ہوئے ہیں، جن میں 300 سے زائد کبوتر مخصوص ’’غٹرغوں‘‘ کی آوازیں نکال کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔

انہوںنےاپنی وفات سے پہلے برطانوی فوج کے لیے ایسی رائفلیں اورگولیاں ایجاد کی تھیں جو 9 اعشاریہ 7 کلو میٹر کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتی تھیں۔اس کے علاوہ ایسی ہلکی توپیں بھی بنائیں جو 14 میل کے فاصلے تک گولہ داغ سکتی تھیں ااس نے برق رفتار رجمنٹ (36 جیکب ہارس) بھی تیار کی جو چند گھنٹوں میں سارے بالائی سندھ کی پٹرولنگ کر لیتی تھی۔جان جیکب کے انتقال سے تقریبا ایک سال قبل یعنی سنہ 1857 میں جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو مقامی فوجیوں نے بھی برطانوی سرکار کے خلاف بغاوت کردی۔ لیکن جان جیکب کے گھڑ سوار جتھے میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی ۔ 

اس کی وجہ ان کی فوج میں مقامی افراد کی اکثریت کو قرار دیا جاتا ہے۔خان گڑھ کے بے آب و گیا علاقے کو ہرے بھرے شہر میں تبدیل کرنے والا جنرل جان جیکب1858میں اپنے ہی بسائے ہوئے شہر میں آخری سفر پر روانہ ہوا۔ مقامی لوگوں اور اس کی رجمنٹ کے جوانوں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اسے جیکب آباد کی ریت میں ہی سپرد خاک کیا۔رفاہ عامہ کے کاموں اورعوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے کے لیے اس نے ہر ممکن کوششیں کیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اسے ’’ولی‘‘ کا درجہ دے دیا۔

جنرل جان جیکب آج بھی جیکب آباد کے لوگوں میں’’ جوکم صاحب بہادر‘‘ کے نام سے زندہ ہے۔ لوگ 162برس بعد بھی اس کی قبر پر دیے جلاتے ہیں۔‘ جان جیکب کی قبر کے سرہانے سیاہ پتھر ہے اور اس سیاہ پتھر پر دیے رکھے ہیں۔ 

مقامی لوگ جان جیکب کی قبر پر آ کر اپنے بیمار بچوں کی شفاء کے لیے منت مانگتے ہیں اور یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان کے بیمار بچےصحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ لوگ منت پوری ہونے کے بعد جان جیکب کی قبرکے سرہانے دیے جلاتے ہیں۔ جان جیکب جس قبرستان میں مدفون ہے، وہ ’’گورا قبرستان‘‘ کہلاتا ہے جہاں عیسائیوں کی دو درجن سے زائد قبریں ہیں۔

تازہ ترین