• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے دارالحکومت اور تاریخی شہر لاہور کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یہ نہ صرف مغلوں کا دارالحکومت رہا بلکہ انگریزوں نے بھی اسی کو اپنا انتظامی دارالخلافہ بنایا۔چنانچہ مغلوں اور انگریزوں کی جیتی جاگتی تاریخ آپ کو شاہی قلعہ، شالامار باغ، مزارِ جہانگیر، مینار پاکستان، گورنر ہاؤس اور انگریزی تعلیمی درسگاہوں کی صورت نظر آئے گی۔ 

اس لیے یہ بات عام ہے، ’’جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔ گزرتے وقت کے دھارے میں جدیدلاہور کے امتیازی نشانات و مقامات میں داتا دربار، اسلامی سمٹ مینار، ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک، جلوپارک، گریٹر اقبال پارک اور سفاری پارک کا اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

مینارِ پاکستان

قیامِ پاکستان کے بعد عین اسی جگہ جہاں قرارداد پاکستان پیش کی گئی، مینارِ پاکستان تعمیر کیا گیا۔ اس کاڈیزائن ترک ماہرِ تعمیرات نصر الدین مرات خان نےبنایا۔ تعمیراتی کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23مارچ 1960ء میں شروع کیا۔21اکتوبر 1968ء کو اس کی تعمیر مکمل ہوئی، جس پر کل لاگت75لاکھ روپے آئی۔ 18ایکڑ رقبے پر محیط اس مینار کی بلندی 196فٹ ہے۔اوپر جانے کے لیے 324سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔

مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہ ہے۔ سنگ مرمر کی دیواروں پر قرآن مجید کی آیات، محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔

شاہی قلعہ

لاہور کی تاریخی شان ’شاہی قلعہ‘ 20ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ شاہی قلعہ 17ویں صدی میں اس وقت تعمیر کیا گیا، جب مغل سلطنت اپنی شان و شوکت کے عروج پر تھی۔ شاہی قلعہ کی بنیاد 1566ء میں شہنشاہ اکبر کے دور میں رکھی گئی۔ قلعے کےتعمیراتی انداز میں اسلامی اور ہندو، دونوں نقوش نمایاں نظر آئیں گے۔ 

شاہ جہاں کے دور میں پرتعیش سنگ مرمرکا استعمال کیا گیا جبکہ قلعہ کا عظیم الشان اور مشہور عالمگیری دروازہ عظیم مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا، جو مشہور بادشاہی مسجد کے سامنے کھلتا ہے۔ 1981ء میں اس قلعے کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ سے منسوب کیا گیا۔

بادشاہی مسجد

لاہور کی نمائندگی کرنے والی تاریخی اور ثقافتی عمارات میں سے ایک بادشاہی مسجد بھی ہے۔ اس خوبصورت اور تاریخی مسجدکی تعمیر، مغلیہ سلطنت کے چھٹے حکمران اورنگزیب عالمگیر کے حکم پر 1671ء میں شروع ہوئی اور دو سال میں اسے مکمل کرلیا گیا۔ اس کی تعمیر پر 6لاکھ روپے کے مساوی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ 1673ء سے1986ء تک اسے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل رہا، یعنی 313سال تک یہ دنیا کی سب سے بڑی مسجد کہلائی۔ مسجد کی چھت سے اس کے چار میناروں کی اُونچائی 13.9فٹ ہے، یہ مینار تاج محل سے بھی بڑے ہیں۔یہ مسجد ایک بہت بڑے چبوترے پر بنائی گئی ہے، جو سرخ پتھر کا بنا ہوا ہے۔

لاہور میوزیم

لاہور میوزیم ، جسے سینٹرل میوزیم بھی کہا جاتا ہے ،1894ء میں آرکیالوجیکل میوزیم کے طور پرکھولا گیا۔ یہ لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ پر واقع ہے۔ رُڈیارڈ کپلنگ کے والد جان لاک ووڈ کپلنگ اس میوزیم کے بڑے مداح تھے۔ ان کا ناول ’کِم‘ لاہور میوزیم کے گرد گھومتا ہے ۔ میوزیم، یونیورسٹی ہال کی قدیم عمارت کے بالمقابل واقع مغلیہ طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ 

اس میوزیم میں مغل اور سکھ دور کے نوادرات موجود ہیں، جن میں مجسمے، سکّے، پینٹنگز اور کپڑے شامل ہیں۔ آثار قدیمہ کی گیلری کے مرکزی حصے میں سکری کا ایک ڈھول ہے، جس پر بدھا کی زندگی کے مناظر نقش ہیں۔ میوزیم میں زیورات کا مجموعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور شاندار عمارت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلمی ورثے اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔1864ء میں اس کی بنیاد جی ڈبلیو لیٹنر (Dr. GW Lietner) نے رکھی جو کہ کنگز کالج لندن میں پروفیسر تھے۔ کالج کی موجودہ عمارت کا ڈیزائن سپرنٹنڈنٹ انجینئر ڈبلیو پرڈن نے تیار کیا۔ 

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کا کل رقبہ 56ایکڑ ہے اور رائے بہادر کنہیا لال نے 3لاکھ20ہزار روپے کی لاگت سے اس کو تعمیر کیا۔ 1872ء میں شروع ہونے والی تعمیر پانچ سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔2002ء میں حکومت پاکستان نے اسے جامعہ کا درجہ دیا۔ گورنمنٹ کالج شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کا بھی مادر علمی رہا۔

شاہی حمام

لاہورکا تاریخی ’شاہی حمام‘ برصغیر میں شاہ جہانی فن تعمیر،جو فارسی اور ترکی ڈیزائن کا مرکب ہے، کی ایک شاندار مثال ہے۔ دہلی دروازہ سے داخل ہوتے ہی چند قدم کے فاصلے پرشاہی حمام واقع ہے۔ اسے 1635ء میں عام لوگوں اور مسافروں کیلئے تعمیر کروایا گیا تھا۔ پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں مغل دور کے شاہی حماموں میں باقی رہنے والا یہ آخری حمام ہے۔ 

ایک ہزارسے زائد مربع میٹر احاطہ میں قائم یہ ایک منزلہ عمارت 21کمروںاور غسل کیلئے گرم اور ٹھنڈےآٹھ آٹھ تالابوں پر مشتمل تھی جبکہ چھتوں اور دیواروں پر پھولوں کی شاندار پینٹنگز کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔ 1955ء میں شاہی حمام کو ثقافتی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

تازہ ترین