• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ال اریان

امریکی ڈالر کے حالیہ استحکام نے ماہرین اقتصادیات اور مارکیٹ کے شرکاء کے درمیان دو بالکل مختلف ردعمل کو جنم دیا ہے۔

کچھ لوگ اس کو مستقبل میں بہتر معاشی کارکردگی کے حصہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔دوسروں کو خوف ہے کہ اس سے خلل پیدا ہوگا۔دونوں ہی درست نہیں ہوسکتے۔

ممکن ہے کہ اس کا جواب معاشیات کی بجائے سیاست سے ہی طے کیا جائے۔ خاص طور پر آئندہ سال کے امریکی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تدبیر ہو۔

سرمایہ کار اور کمپنیاں خلل سے جزوی طور پر اپنےتحفظ کیلئے ابھی کوئی اقدامات کرسکتی ہیں۔اس طرح کی مبہم حکمت عملی بہت سے شعبوں میں انتہائی نتائج کیلئے زیادہ سے زیادہ احتمالات کی ضمانت دیتی ہے۔

غیرملکی سرمائے کو امریکا کی جانب متوجہ کرنے والے تین بڑے عوامل کی وجہ سے ڈالر کا مستقل استحکام حیرت کی بات نہیں ہے،ایک ملکی معیشت جس نے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو مستقل طور پر مات دے دی ہے، دوسرا، ایسی اسٹاک مارکیٹ جس نے دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا اور تیسرا مقررہ آمدنی والے سرمایہ کاروں کیلئے غیر محفوظ پیداواری فائدہ۔

سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ آج کے عالمی اقتصادی ماحول کے کمزور ہونے کے عمل میں،صرف امریکا ہی اپنی کرنسی میں طویل عرصہ تک قدر برقرار رکھنے کے قابل ہے۔یورپی اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو خدشہ ہے کہ ان کی کرنسیوں میں مستقل استحکام آنے سے ان کی نمو مزید کم ہوجائے گی۔اس سے متضاد نظریات کہ آئندہ کیا ہوتا ہے، کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

کچھ لوگوں کیلئے مستحکم ڈالر عالمی معیشت کے توازن کی دوبارہ منظم بحالی کا حصہ ہے۔یہ تجارت کیلئے زیادہ آزاد کمزور معیشتوں کو فروغ دے کر اور عالمی تجارتی جنگ سے زیادہ متاثر معیشتوں کی مدد کرتا ہےتا کہ وہ امریکا کی اعلیٰ کارکردگی کے برابر پہنچ جائیں۔

تاہم مستحکم ڈالر خطرات پیش کرتا ہے۔اول،امریکا کے خلاف غیرمنصفانہ تجارتی طرزعمل کو ختم کرنے کی کوششوں کے طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شروع کی گئی طویل تجارتی جنگ میں سب سے اوپر کرنسی کی جنگ کا خطرہ ہے ۔

دوئم، اس نے فیڈرل ریزرو کو مزیدسیاسی حملوں کیلئے خطرے میں ڈال دیا، جس نے فیڈرل ریزرو کی ساکھ اور اس کے ساتھ منسلک مارکیٹ کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔

سوئم، یہ بڑی بے جوڑ کرنسیوں کے ساتھ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو غیر مستحکم کرسکتا ہے،جس میں ماہر معاشیات جسے ’’حقیقی گناہ‘‘ کہتے ہیں،شامل ہے۔ایسا ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے ڈالرز میں بڑے قرض لیےہیں لیکن سود کیلئے آمدنی کا بڑا حصہ پیدا کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر ادائیگی کیلئے ڈالر کی نسبت کم قدر والی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا تینوں عوامل نمو کو کمزور، مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور مالیاتی صورتحال کو سخت کرتے ہیں۔وہ عالمی معیشت کے لئے مشکل وقت پر آئیں گے۔عالمی اقتصادی سرگرمی اور تجارت کی رفتار کم ہے ، آئندہ سال یورپ معاشی بحران کا شکار ہوسکتا ہے،سینٹرل بینکس پالیسی بارود پر سست روی سے چل رہی ہیں،ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں اصلاحات کی کہانیاں اگر ہیں تو بہت کم ہیں۔

منتقلی کا انحصار، سب سے پہلے اور سب سے اہم امریکی سیاست پر ہے،مزید ابتر نتیجہ اخذ کرنے کے حق میں جھکاؤ کےامکانات ہیں۔تجارت پر بین الاقوامی کھیل کے میدان کو ہموار کرنا،بالخصوص چین کے ساتھ بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی، چند مسائل میں سے ایک ہے جو امریکا میں کافی وسیع سیاسی حمایت کا حکم دیتا ہے۔

طریقہ کار پر سب متفق نہیں ہیں،لیکن زیادہ تر امریکا کے لئے بہتر تجارتی شرائط پر عمل پیرا ہونے میں متحد ہیں۔اس سے کرنسی پالیسی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

امریکا کو زیادہ بروقت مراعات دے کر اگرچہ صرف جزوی طور پریورپ اور چین خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں،،بالخصوص جب طویل عرصے سے دانشورانہ جائیداد کی چوری اور چین کو ٹیکنالوجی کی جبری منتقلی جیسی شکایات ہوں۔

ساختی اصطلاحات اور مالیاتی محرک کے حق میں پالیسیوں کو دوبارہ متوازن کرنے کے ایک حصے کے طور پر،یورپی مرکزی بینک اثاثوں کی منڈیوں پر اثرنداز ہونے کےلئے بتدریج غیر روایتی مالیاتی پالیسی کے آزادانہ استعمال سے آہستہ آہستہ دور ہوکر بھی مدد کرسکتا ہے۔یہ مجموعی طور پر بہتر معاشی نتائج کا مایوس کن تعاقب رہا ہے،اور تیزی سے خلاف منشا ہوتا جارہا ہے۔

ڈالر کے استحکام سے وابستہ دہرا نتیجہ قابل ذکر نئے حالات کی مثال ہے جو نہ صرف معاشیات اور مالیاتی معاملات میں بلکہ ادارہ جاتی ، سیاسی اور معاشرتی طور پر بھی کام کررہاہے۔یہ صورت حال کے تسلسل کیلئے امکانات کو کم ، اور صورتحال کے دونوں رخ پر انتہائی نتائج کیلئے زیادہ امکانات پیدا کرتا ہے۔

اس رجحان کو زیادہ پذیرائی حاصل ہورہی ہے،لیکن اتنی نہیں جتنا اس کا حق ہے۔شاید یہ حیرت کی بات نہیں ہے،یہ بتاتے ہوئے کہ بہت ساری رویے کی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنے آرام دہ علاقوں سے باہر جانے کی مخالفت کرتے ہیں۔

انتہا پسندی کے اس دور میں، کمپنیاں اور سرمایہ کار کیا کرسکتے ہیں؟

وہ کرنسیوں میں تفاوت کو کم کرسکتے ہیں، اپنا کیش بفرز بڑھاسکتے ہیں، اور لچک بڑھانے کیلئے درجہ بندی میں مؤثر لاگت لچک کی تلاش کرسکتے ہیں۔

ان کی مقررہ آمدنی کی سرگرمیوں میں،قیمتوں اور تمسکات میں بڑھوتری کے رجحان میں نمائش کو محدود کرنے کیلئے سرمایہ کار معیارمیں بھی اضافہ کرسکتے ہیں اور میچورٹیز کو مختصر بھی کرسکتے ہیں۔

اور بیرون ملک کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو ملکی مارکیٹ کیلئے حجم میں بھی ذریعے بننے کی بجائے انہیں وہاں کی طلب پوری کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے،یعنی چین میں صرف چین کیلئے حکمت عملی اپنائیں۔

مستحکم ڈالر کے نتائج کے بارے میں متضاد دعوے موجودہ کمزور عالمی معیشت کو درپیش غیرمعمولی غیر یقینی صورتحال کی ایک لمبی فہرست ہے۔

انتہائی نتائج کے بلند امکانات کو نظرانداز کرنے کی بجائے کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو اپنی اسٹرٹیجک منصوبہ بندی میں اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے بارے میں سوچنا مستقبل کی ندامت کو کم سے کم کرنے جیسا ہے۔

تازہ ترین