• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’پی آئی ڈی سی کے پان‘ وہ رونق جو اماں کے دم قدم سے تھی پھر لوٹ کر نہ آسکی

اقبال اے رحمٰن

کراچی والوں کی محبت، شہر کے حالات جیسے بھی ہوں ’زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے‘ کی عادت، اور چائے سے نہ ختم ہونے والی الفت شامل ہے لیکن ایک اور چیز بھی ہے جو کراچی والوں کے حواس پر اس قدر سوار ہے کہ شہر بھر میں اس کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں، وہ ہے کراچی والوں کی پان سے محبت، شہر میں جس جانب نظر گھمائیں، پان کا کھوکھا آپ کو ضرور نظر آئے گا۔

پی آئی ڈی سی یعنی پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کی عمارت یوں تو پاکستان میں صنعتی ارتقاء کے حوالے سے بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے، مگر اس کا محل وقوع بھی اتنا شاندار ہے کہ پورا علاقہ ہی پی آئی ڈی سی کہلانے لگا ہے ،جہاں کی سوغات وہاں کے مشہور زمانہ پان ہیں، پان پی آئی ڈی سی کا بہت بڑا حوالہ ہے۔

ساٹھ سال قبل یہاں پان کا محض ایک کھو کھا ہوا کرتا تھا، جہاں ایک خاتون پان لگا کر دیتیں جو بہت پسند کئے جاتے تھے، ساتھ ان کابیٹا بھی ہوتا تھا جو ان کی غیر موجودگی میں پان لگاتا تھا، وہ جب پان بناتا، پان لگاتے اور اس میں زردہ یا میٹھا مسالہ ڈالتے وقت اس کاجسم ایک خاص توازن اور تال سے ہلتا تھا، خاتون کے ہاتھ کے پان اور ان کےبیٹے شریف کا انداز لوگوں کو بھایا اور دکان چل نکلی، یہ خاتون جو آگے جاکر اماں کے نام سے مشہور ہوئیں ان کا اصل نام مریم بی بی تھا، 1961 میں انہوں نے پان کا کھوکھا لگا کر کام کا آغاز کیا ۔

آگے جاکر یعنی 1969 میں پان کا یہ کھوکھا نزدیک ہی ایک دکان میں منتقل ہوگیا ،جس کا نام ” شریف اینڈ اماں پان ہاؤس ‘‘رکھا گیا، اس دکان کی شہرت سے برابر ہی میں ایک ملباری یعنی موسٰی کی پان کی دکان کا اضافہ ہوگیا اور آنے والے برسوں میں کئی دکانیں کھل گئیں، مگر شریف اور اماں کی سی شان کسی اور دکان کو حاصل نہ ہو سکی ۔

اماں دراصل حسین گنج لکھنئو کے نواب صاحب کی اہلیہ یعنی بیگم خلق الزّماں کے ہاں پان بنانے پر معمور تھیں، بیگم صاحب اور نواب صاحب دونوں کا پاندان گویا ان کے سپرد تھا اور مہمانوں کو پان لگا کر پیش کرنا ان کی ذمہ داری میں شامل تھا۔ تقسیم کے بعد جب نواب صاحب کی بساط پلٹ گئی تو اماں کراچی آگئیں ان کے شوہر جو سرکاری نوکر تھے بوجوہ نہ آسکے، اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا، ان کی کل کائنات یعنی ان کے بیٹا تھا۔شریف بھائی کو ہمیشہ ان کے ساتھ ہی دیکھا۔

اماں لکھنئو میں چونکہ نواب صاحب کے اعلی مرتبت مہمانوں کو پان پیش کرنے پر معمور تھیں لہذہ ان کے پان بھی اسی معیار کے ہوتے تھے اور پیش کرنے کا انداز بھی مہذبانہ، کتھے میں دودھ ملاتیں جس کی وجہ سےچونے کی تیزی زائل ہوجاتی اور منہ کٹنے کا خدشہ باقی نہ رہتا تھا، ان کے ہاتھ کے لگے پان میں کتھے چونے کا ایسا توازن ہوتا تھا جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، اعلی معیار کے کرارے پان میں ان کے ہاتھوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا، نیک دل اور نیک فطرت خاتون تھیں، لکھنئو میں اعلی مرتبت لوگوں جو پان پیش کرتی تھیں تو کراچی میں بھی ان کے پان کے چاہنے والے اشرافیہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔

پان کی دکان جمانے کے لئے اس علاقے کا انتخاب ان کی ذہانت تھی یا محض اتفاق اس کا پتا نہیں، مگر گفتگو میں لہجہ جس قدر مشفقانہ تھا اسی قدر کاروباری سوجھ بوجھ بھی نمایاں ہوتی تھی، انہیں کبھی خواہ مخواہ کی بات کرتے یا پیار بھرے طعنے، کوسنے دیتے نہیں سنا ،مگر دوران گفتگو ٹھیٹھ اردو لہجے میں ” نوج ‘‘آہی جاتا تھا ۔ 19 اپریل 1982 کو اماں کا انتقال ہوگیا، پان کی دکان اور اس کی شہرت آج بھی برقرار ہے ،مگر وہ رونق جو اماں کے دم قدم سے تھی پھر لوٹ کر نہ آسکی۔

جب پتہ چلتا ہے خوشبو کی وفاداری کا

پھول جس وقت گلستاں سے جدا ہوتا ہے

تازہ ترین