• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانچ جنوری کو بھارت کی جواہر لال یونی ورسٹی میں طلبا و طالبات پر درجنوں مسلح افراد نے حملے کئے۔ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی نہ صرف بھارت کی سب سے بڑی جامعات میں شمارہوتی ہے بلکہ اس میں پورے بھارت کے طلبا و طالبات پڑھتے ہیں جو زیادہ ہندو انتہاپسند کے مخالف ہیں۔ جو بات بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کو پسند نہیں ہے۔

جب یہ حملے کئے گئے تو حملہ آوروں نے طلبا یونین کی صدر آئشی گھوش کو بھی نہیں بخشا ، انہیں بھی لاٹھیوں، ڈنڈوں اور لوہے کی سلاخوں سے نشانہ بنایا ،جس سے درجنوں طلبا و طالبات زخمی ہوئے۔ حملہ آور زیادہ تر نقاب پوش تھے، تا کہ ان کی شناخت نہ ہوسکے اور جس قسم کے نعرے وہ لگا رہے تھے ان سے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ وہ ہندو انتہاپسند تھے۔ ان نعروں میں سب سے نمایاں ’’بھارت ماتا کی جے‘‘، ’’وندے ماترم‘‘ اور ’’غداروں کو گولی مارو‘‘ جیسے نعرے شامل تھے۔ نہ صرف طلبا بلکہ کچھ اساتذہ بھی ان حملوں میں زخمی ہوئے ہیں۔چونکہ اس قسم کی دہشت گردی کی اب سرکاری طور پر سرپرستی کی جا رہی ہے، اس لیے پولیس جو کہ جامعہ نہرو کے دروازوں پر تعینات تھی، اس نے نہ تو حملہ آوروں کو روکا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔

حملوں کا شکار ہونے والے طلبا و طالبات کے مطابق یہ نقاب پوش حملہ آور، راشٹریہ سیوک سنگھ اور بجرنگ دل کے غنڈے تھے۔ اس کے علاوہ خود جامعہ نہرو میں موجود آر ایس ایس کی طلبا تنظیم اے بی وی پی نے بھی حملہ آوروں کی مدد کی اور پھر انہوں نے بائیں بازو کے طلبا پر الزام لگایا۔اچھی بات یہ ہے کہ ان حملوں کی ہر طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کی وزیر نرملا سیتارمن اور موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے۔ 

اس تصادم کا پس منظر یہ ہے کہ شہریت کے متنازع قانون کو منظور کرنے کے بعد بہت سے لبرل، سیکولر اور ترقّی پسند کارکن اور طلبا و طالبات مسلمانوں کی حمایت میں مظاہرے کر رہے ہیں جن پر بی جے پی نے اب اپنے غنڈے چھوڑنے کا طریقہ اپنایا ہے۔ پچھلے ہفتے ہی جنوبی بھارت کی ریاست تلنگانہ میں حیدرآباد شہر میں لاکھوں لوگوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اب تک اس طرح کے مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ اس ساری غنڈہ گردی کے پیچھے بھارتی وزیر داخلہ اور بی جے پی کے سربراہ ،امیت شاہ کا بڑا ہاتھ ہے۔

پچپن سالہ امیت شاہ پچھلے پانچ سال سے بی جے پی کے صدر ہیں۔ انہوں نے یہ عہدہ راج ناتھ سنگھ سے حاصل کیا تھا جو اس وقت بھارت کے وزیر دفاع ہیں۔ امیت شاہ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دونوں گجراتی ہیں اور قریبی ساتھی بھی، دونوں کا تعلق پہلے آر ایس ایس سے رہ چکا ہے جو بی جے پی کی ہی ایک بغل بچّہ تنظیم ہے، گو کہ آر ایس ایس، بی جے پی سے بہت پرانی ہے۔

آر ایس ایس کو پچانوے سال قبل اُنیس سو پچیس میں ہیڈگے وار نامی ایک رہنما نے بنایا تھا جو خود اس وقت صرف پینتیس سال کا تھا اور ڈاکٹر جی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے ناگ پور میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ ناگ پور اس وقت سی پی میں تھا اور آج کل مہاراشٹر میں ہے۔ آر ایس ایس نے ہی ہندوتوا کی بنیاد رکھی۔ اس ہی ذیلی طلبا تنظیم اکھیل بھارتیا ودیارتھی پریشد یا آل کی انڈیا اسٹوڈنٹس کائونسل ایک دائیں بازو کی ہندو قوم پرست طلبا تنظیم کے طور پر 1949ء میں وجود میں آئی اور اب دعویٰ کرتی ہے کہ یہ بھارت کی سب سے بڑی طلبا تنظیم ہے جس کے ارکان کی تعداد تیس لاکھ سے زیادہ ہے۔ 

جب جے پرکاش نرائن نے اندرا مخالف تحریک چلائی تھی تو اس وقت یہ طلبا تنظیم کانگریس مخالفت میں آگے بڑھ کر سامنے آئی۔اس کے علاوہ آر ایس ایس کی یہ طلبا تنظیم یعنی اے بی وی پی ہندو مسلم فسادات میں بھی سرگرم اور بھارت میں مذہبی تنگ نظری کو فروغ دینے میں مصروف رہی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت میں سنگھ پری وار (یعنی جن سنگھ کا خاندان) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ،جس میں جن سنگھ کے علاوہ آر ایس ایس، بی جے پی، وشوا ہندو پریشد یا ورلڈ ہندو کاؤنسل اور اے بی وی پی شامل ہیں، جو سب ہندو انتہاپسندی کی علم بردار ہیں۔

اے بی وی پی کو ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا جب 2017ء میں وہ کئی بڑی جامعات میں طلبا یونین کے انتخاب ہاری گئی تھی ،جن میں جامعہ نہرو اور جامعہ دہلی بھی شامل تھیں، ان کے علاوہ الٰہ آباد یونی ورسٹی اور مہاتما گاندھی کاشی ودیا پیٹھ جو کہ بنارس کی سرکاری یونی ورسٹی ہے وہاں بھی ہار گئی تھی ساتھ ہی گجرات یونی ورسٹی اور گوہاٹی یونی ورسٹی میں بھی اسے شکست ہوئی تھی۔لیکن اب یہ طلبا تنظیم دوبارہ خود کو اُٹھانے کے لیے ایک بار پھر فرقہ وارانہ سیاست کو استعمال کر رہی ہے ۔ جامعہ نہرو میں حالیہ حملے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں تا کہ مخالفوں کو کچلا جا سکے۔

پاکستان میں موجود کچھ فرقہ وارانہ اور مذہبی تنگ نظر طلبا تنظیموں کی طرح اے بی وی پی کا طریقہ واردات بھی یہی ہے ،کہ مذہب اور ملک کے نام پر خود حب الوطنی کا ٹھیکا اُٹھا لیں اور دُوسروں کو خاص طور پر ان کو جو مذہبی رواداری اور ترقّی پسندی کی بات کریں انہیں غدار اور ملک دُشمن قرار دیا جائے اور پھر غنڈہ گردی کرتے ہوئے اظہار رائے پر پابندیاں لگائی جائیں۔ اس طرح اے بی وی پی نے ستمبر 2019ء میں مغربی بنگال کی جادو پور یونی ورسٹی میں ہنگامہ آرائی کی۔ اس سے قبل فروری 2018ء میں بھی جب مہاتما گاندھی یونی ورسٹی میں جب انسانی حقوق کی علم بردار خاتون کارکن تیستا سیتل واڑ کو بلایا گیا تو اے بی وی پی نے مقامی پولیس کی مدد سے اس سیمینار میں رخنا ڈالا اور اسے بند کرا دیا۔

اس طرح کے رویئے ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسانی حقوق، جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور سویلین بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو مختلف گروہوں کو استعمال کرکے طالب علم رہنمائوں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے بلکہ حملے بھی کئے جاتے ہیں۔اس طرح ان فرقہ وارانہ تنظیموں کے رہنما بڑے سیاسی رہنما بھی بن جاتے ہیں جیسا کہ امیت شاہ نے کیا۔ وہ پہلے اے بی وی پی کے رکن تھے پھر آر ایس ایس میں شامل ہوئے اور پھر بی جے پی میں آ کر اس کے صدر بن گئے اور اب پورے بھارت میں ہندو انتہاپسندی پھیلانے کے دَرپے ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

اب امیت شاہ نے دہلی کے وزیراعلیٰ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجری وال پر الزام لگایا ہے کہ وہ مختلف گروہوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ جو طلبا بھارت مخالف نعرے لگا رہے ہیں انہیں پکڑ کر بند کرنا چاہئے۔اسی طرح کی ایک بی جے پی رہنما سمرتی ایرانی ہیں جو وفاقی وزیر ہیں۔ سمرتی ایرانی ایک ماڈل اور ٹی وی اداکارہ رہ چکی ہیں اور اب خواتین اور بچوں کی ترقّی کی وفاقی وزیر ہیں۔ ان کو یہ زعم ہے کہ انہوں نے 2019ء کے انتخابات میں کانگریس کے گڑھ امیٹھی سے راہول گاندھی کو شکست دی تھی۔ وہ نشست کانگریس کے پاس چالیس سال سے تھی۔ ایرانی بھی بچپن سے آر ایس ایس کی رکن رہی ہیں جب کہ ان کے ماں باپ بھی جن سنگھ میں تھے۔ اب سمرتی ایرانی بھی ہندو انتہاپسند طلبا اور غنڈوں کی حمایت میں نکل آئی ہیں۔

ان تمام حالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں سیاست کے لیے مذہب کو استعمال کرنا بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہے کہ مذہبی انتہاپسند تنظیمیں بنیادی طور پر فاشسٹ ذہن کی مالک ہوتی ہیں اور اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کے لیے زبان بندی کا سہارا لیتی ہیں۔ مخالفین کو غدار اور ملک دُشمن کہا جاتا ہےاور جو بھی ان کے نظریئے سے اختلاف کرے اس پر تشدد سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ رویئے جمہوریت کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ بھارت جو اب تک ایک جمہوری ملک کے طورپر فخر کرتا رہا ہے اب بی جے پی کی قیادت میں تنگ نظری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

تازہ ترین