• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 دنیا میں نت نئی ایجادات اور تخلیقات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ہر دور کے نوجوانوں کے ذہن میں کچھ نیا کرنے کا جذبہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے، اسی جذبے کے تحت قدیم ادوار سے لے کر دور جدید تک اقوام عالم کے نوجوانوں کے اندر ایک ایسی تحریک نے جنم لیا کہ کرہ ارض پر موجود ہوا، پانی، پہاڑ، سمندر اور آسمان (خلا) پر انسانی ذہن نے تحقیق شروع کر دی کیونکہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے انسان کے ہی سپرد کیا ہے وہی اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے اوروہ ایک حد تک جہاں تک بہ آسانی رسائی ممکن ہے تحقیق کا دائرہ بڑھا سکتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کے نوجوانوں کو اس بات کا قوی اندازہ ہوگیا تھا کہ محنت، جستجو اور لگن سے ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ 

زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی مزید کام کیا جا سکتا ہے لہٰذا ابتدائی طور پرعلم و آگہی کی ضرورت ہے تاکہ درجہ بہ درجہ اپنے شعوری احساس کے اندر موجود ان پوشیدہ تخیلات کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنا سکیں، بس اس کے لئے وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ مکمل دسترس کے ساتھ آگے بڑھ سکیں، اس وقت کے نوجوان بھی اس جدوجہد میں مصروف رہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے کچھ کام کر جائیں۔ 

کرہ ارض پر ہوا کا وجود تھا لیکن صدیوں تک کسی نے بھی یہ کوشش نہیں کی کہ ہوا میں کون سی اہم گیس ہے جو انسانی زندگی کی بقاء کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ سوئیڈن کے کارل ولیئم شیلے نامی شخص نے نوعمری میں ہی ایک آئیڈے پر کام کرنا شروع کیا اور آخرکار 1972 میں جاکر آکسیجن نامی گیس کو دنیا میں روشناس کرایا۔ اسی طرح جوزف بلیک نامی نوجوان نے انتھک محنت کے بعد 1750 ء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو دنیا میں متعارف کرایا تھا۔

سولہویں اور سترہویں صدی کے طالب علموں، نوجوانوں اور اساتذہ نے اپنے ابتدائی ایام میں اپنے خیالات کو ایک مکمل شکل کی صورت میں دنیا کے سامنے رکھا اسی طرح مختلف مشہور شخصیات ،جن میں مغربی افکار اور مسلم افکار کے افراد بھی شامل تھے انہوں نے مستقبل کے نوجوانوں کے لئے ایک تعلیمی سوچ اور نظام بنا کردیا۔ آج بھی نوجوان نسل ابن الہشم جیسے ماہر طبیعات، فلکیات اور ادویات کے مایہ ناز محقق کے اصولوں سے استفادہ کر رہے ہیں، اسی طرح فیثا غورث ماہر علم ریاضی (بانی ریاضی) تصور کیا جاتا ہے ان کے آئیڈیاز پر آج کل کے نوجوان کام کررہے ہیں اور ترقی کی نئی راہیں حاصل کر رہے ہیں۔

ماضی کے نوجوانوں نے ہمیشہ اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں نئے نئے آئیڈیاز پر کام کیا۔ حقیقی رنگ اور خوبصورت قوس و قزاح کے رنگوں کو دیکھتے ہوئے انسانی ذہن میں خیال آیا کہ مصنوعی رنگ بنائیں جائیں چنانچہ ولیم ہنری کوپن نے مصنوعی رنگ بنا کر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ کچھ عرصے بعد ہی مختلف اقسام کے کلر منظر عام پر آنے لگے۔ 

ابتدائی ایجادات کی بات کریں تو کوئی بھی ذہن یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ دنیا مستقبل میں ایک جدید ماڈرن ٹیکنالوجی ورلڈ کا روپ دھار لے گی اور اس سلسلے میں مشرقی اور مغربی دنیا کے طالب علموں اور نوجوانوں نے اپنے اپنے شعبہ جات سے منسلک درس گاہوں، تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کی اور اپنے اپنے آئیڈیاز پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کام بھی کیا،تاکہ وہ بھی ترقی کی راہوں میں مقام حاصل کریں اور اپنے ملک و قوم کا وقار بلند کرسکیں۔

اپنے خیالات (آئیڈیاز) کو یکجا کر کے ان کی تکمیل کے لئے آپ کے اندر قوت فیصلہ کا عنصر غالب رہنا چاہئے۔ نپولین نے اپنی زندگی کے نچوڑ پر نوجوانوں کے لئے ایک پیغام میں کہا تھا ’’کامیاب لوگوں کے فیصلے معیاری اور جامع ہوتے ہیں جبکہ ناکام لوگوں کے فیصلے کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں‘‘ چنانچہ خیالات کو یکجا کرنے کے لئے آپ کے اندر خوداعتمادی اور فیصلہ سازی کی قوت ہونا بہت ضروری ہے۔

دور جدید کے محقق نے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے دنیا کے تمام نوجوان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہوں یا ناخواندہ، سب کے ذہنوں میں نت نئے آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔ نوجوانوں کے اندر خیالات و تصورات کا سمندر ہر لمحہ موجود رہتا ہے۔ اصل بات اس فن، ان تصورات کی صحیح معنوں میں وضاحت اور عکاسی ہے جو آپ کے دماغ کے کسی گوشے میں پنہاں ہے۔ آپ جس پروجیکٹ پر بھی کام کریں گے نت نئی باتیں آپ کی تخلیق کا حصہ بنتی چلی جائیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ان اہداف کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

دور جدید میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب اس بات کو زیادہ محسوس کر رہی ہے کہ آج کل کے ترقی یافتہ ممالک کے جوان اپنی معاشی ترقی میں اپنے آئیڈیاز کو بروکار لاتے ہیں اور وہ شعبے اور مالکان ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ چند دہائیاں پہلے بہت سے ایسے شعبے اور سرگرمیاں تھیں جن پر توجہ نہیں دی جاتی تھی بلکہ انہیں نظرانداز کر دیا جاتا تھا لیکن نوجوان نسل کے نمائندوں نے اپنے آئیڈیاز کے ذریعہ بہت سے ایسے شعبہ جات کو ترقی کی طرف راغب کر دیا جن سے عوام الناس کو معاشی سہارا بھی ملا اور مالی سپورٹ بھی حاصل رہی اور ترقی کی نئی راہیں کھولتی چلی گئیں۔ 

سیر و سیاحت، فنون لطیفہ، کھیل و ثقافت، فوٹو گرافی اور مختلف نوعیت کی انڈسٹریاں اپنے اپنے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ نوجوان نسل، طلباء و طالبات ان سرگرمیوں میں حصہ بھی لے رہے ہیں اور اپنے تعلیمی تقاضے بھی پورے کررہے ہیں۔ اب یہ سمجھنے کی بات ہے کہ کسی بھی نوجوان کے ذہن میں کوئی نیا آئیڈیا آئے اور وہ اس کو اپنے حلقہ احباب تک لا کر اس پر داد حاصل کرنا چاہتا ہے یا اپنی خواہش کی تکمیل پر خوب پزیرائی چاہتا ہے تو کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ جب بھی کوئی نیا آئیڈیا آپ کے ذہن میں آئے تو اس پر کافی سوچنے ، سمجھنے کے بعد کاغذ پر تحریر کریں اور پھر مزید باریکیاں نکال کر اس کی ترتیب بنائیں۔ آئیڈیے کی ابتداء سے مرحلہ وار تخلیق تک کیا وسائل دستیاب ہونے چاہئیں ان پر توجہ مرکوز کریں اور اس کے لئے اپنی کاوشیں مزید تیزکر دیں۔ 

اس کے بعد آپ اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ نشست میں اس موضوع پر بات کریں اور اپنے آئیڈیے کے تمام مثبت اور منفی پہلوئوں کا جائزہ لیں، ساتھ ہی اپنے اساتذہ سے بھی اس سلسلے میں رہنمائی حاصل کریں اور جو نتیجہ سامنے آئے اس کی روشنی میں آئیڈیے کو منزل تک لے کر جائیں تاکہ آپ کے دل کو بھی اطمینان حاصل ہو اور اپنی قابلیت، اہلیت، بصارت اور محنت کا یہ امتحان کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچے۔

آج کا دور جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے ہر میدان میں تقریباً روز بہ روز نت نئی ترقی کا سفر جاری و ساری ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد اس میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہی ہے۔ 

اگر ہم اس تناظر میں نوجوان نسل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ بھی اپنے آئیڈیاز کے ذریعے ان سے بھرپور استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتےہیں۔ آئیڈیاز کے متعلق چند نوجوان طالب علموں اور طالبات سے پوچھیں کہ موجودہ حالات میں محدود وسائل کے ساتھ آپ کے ذہن میں کیا ایسے کچھ آئیڈیاز ہیں جن سے ملکی سطح پر کوئی جامع کام ہوسکتا ہے،تو ان کےجواب کچھ اس طرح ہوتے ہیں۔

1- باغبانی کے شعبے کو فروغ دیا جائے، نرسریاں قائم کی جائیں، ہر شہری دیہی علاقے کو سرسبز و شاداب کیا جائے جس سے آلودگی کا خاتمہ ہوگا اور اک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا اور آپ کا ذہن و دماغ روشن رہے گا۔

2- اخلاقی اور ذہنی پسماندگی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کتب خانے اور لائبریریاں زیادہ سے زیادہ بنائی جائیں تاکہ نوجوان طبقہ اور دیگر افراد اپنے شعبہ جات سے متعلق مزید کتابیں پڑھ سکیں اور اپنے علم میں مزید اضافہ کرسکیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز دی (آئیڈیا) کہ موبائل لائبریریاں قائم کی جائیں اور ہر بس اسٹینڈ پر اخبارات اور جرائد کا ایک اسٹال ضرور ہو، تاکہ نوجوان نسل اور دیگر شہری حالات حاضرہ سے باخبر رہیں ،اس طرح وہ مصروف بھی رہیں گے اور اپنے مطالعہ کا شوق بھی پورا کر لیں گے۔

3- نوجوانوں اور طالب علموں کے لئے حکام وہ تمام سہولیات فراہم کریں جس کی انہیں طلب ہے، صرف لیب ٹاپ فراہم کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ان کے پاس بہت سے ایسے آئیڈیاز ہیں جن سے ہم ترقی کے دروازے مزید کھول سکتے ہیں، انہیں اسکالر شپ دی جائیں اور سوفٹ ویئرز کی کمپنیوں کو چاہئے کہ ایسے نوجوانوں کو انٹرن شپ کے ذریعے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھائیں اور مزید آئیڈیاز کے مواقع انہیں فراہم کریں۔

پاکستان خوش قسمت ملک ہے جہاں نوجوانوں کی اک بڑی تعداد موجود ہے جو اس کی افرادی قوت کا حصہ بھی ہیں لہٰذا ہمیں زرعی اور صنعتی ترقی کے لئے بھی ذہین طالب علموں اور نوجوانوں کی نت نئی تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ ہم اپنے اوپر سے تیسری دنیا کا لیبل اتار پھینکیں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھیں۔

تازہ ترین