• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • بہت نورانی چہرہ تھا، مَیں اب تک شخصیت کے سحر سے نہیں نکل پایا
  • اُس نے لمحہ بھَر کو دونوں شرارتی لڑکیوں کی طرف دیکھا اور جیسے پتّھر کا ہوگیا
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

کمال صاحب کی زبان سے سلطان بابا کا نام سُن کر میرے ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس گر کر ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔ ’’کیا… سلطان بابا… یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ کمال صاحب میری حالت دیکھ کر گھبرا گئے۔ ’’ہاں، یہی نام بتایا تھا انہوں نے۔ بہت نورانی سا چہرہ تھا اُن کا۔ میں تو ابھی تک اُن کی شخصیت کے سحر ہی سے نہیں نکل پایا۔ تم انہیں جانتے ہو…؟‘‘ مَیں چُپ رہا۔ مَیں اب کمال صاحب کو کیا بتاتا کہ سلطان بابا کو مجھ سے بچھڑے، اس دارِفانی سے کوچ کیے کئی سال ہو چکے تھے۔ البتہ میری یادوں میں وہ آج بھی روزِ اوّل کی طرح جیتے جاگتے، ہنستے مُسکراتے موجود تھے۔ مگر وہ مجسّم یہاں کمال صاحب کے دروازے پر کیوں کر آسکتے ہیں؟ اور پھر اُنہیں میری تلاش میں کہیں جانے کی ضرورت ہی کب تھی بھلا۔ 

وہ تو ہر لمحہ، ہر پَل میرے ساتھ تھے۔ کمال صاحب نے جو حلیہ بتایا، وہ سو فی صد سلطان بابا ہی کا تھا۔ میرے دِل و دماغ کی حالت بیان سے باہر تھی۔ ’’کوئی پیغام دیا میرے لیے… سلطان بابا نے…؟‘‘ میرے لفظ ٹوٹ رہے تھے۔ ’’ہاں، کچھ زیادہ نہیں۔ کہنے لگے، تم لوٹو تو تم سے کہوں کہ تم اپنا سفر جاری رکھو۔ جلد ملاقات ہوگی، سلطان پور میں۔‘‘ مَیں نے جلدی سے پوچھا۔ ’’مگر یہ سلطان پور کہاں ہے، مجھے تو آس پاس اس نام کا کوئی قصبہ یا ضلع دکھائی نہیں دیا۔ 

نہ ہی میں نے کبھی اس علاقے کا نام سُنا ہے۔‘‘ ’’ٹھیک کہہ رہے ہو تم عبداللہ میاں، مَیں خود بھی یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا رہا کہ یہ علاقہ کہاں ہوسکتا ہے، پھر خیال آیا، ہوسکتا ہے سرحد پار کسی علاقے میں ہو…؟‘‘ مَیں خاموش رہا۔ کمال صاحب نے میری اَبتر حالت دیکھی، تو مجھے آرام کا مشورہ دینے لگے۔ 

مگر میرے ذہن میں ابھی اور بہت سے سوالات تھے۔ کمال صاحب نے مجھے بتایا کہ اُنہیں میری گرفتاری کی اطلاع اگلے روز ہی مل گئی تھی اور اِس سے پہلے کہ وہ بخت خان سے کچھ پوچھتے، اُس نے خود ہی اُس رات کمال صاحب کو اپنی ساری حقیقت بیان کردی۔ کمال صاحب نے اُسے یقین دلایا کہ جب تک وہ اُن کی پناہ میں ہے، اُسے کوئی خطرہ نہیں، مگر بخت کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ اُس کا محسن اُس کی وجہ سے کسی پریشانی کا شکار ہو۔ اِس لیے وہ اگلی رات ہی بِنا کچھ بتائے کمال صاحب کا گھر چھوڑ گیا۔ البتہ پہلی رات اُس آتش دان کے سامنے آگ تاپتے اُس نے کمال صاحب کو اپنی زندگی کی پوری کہانی سُنا ڈالی تھی۔

آج بھی ویسی ہی سرد رات تھی، ہم دونوں اُسی آتش دان کے سامنے بیٹھے تھے اور باہر وقفے وقفے سے بادلوں کی گرج، بجلی کی چمک، موسلا دھار برستی بارش کی خبر دے رہی تھی۔ جانے کیوں، مگر مجھے ہمیشہ سے ایسا لگتا تھا، جیسے یہ بارش کی بوندیں بھی ہم سے بات کرتی ہیں، جیسے کوئی چھوٹا بچّہ اپنی میٹھی بولی میں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اَن جانی کہانیاں سُناتی یہ ٹپ ٹپ کی بولیاں… کمال صاحب نے جب بخت خان کی کہانی سُنانا شروع کی، تو باہر برستی بوندوں کا جلترنگ بھی دھیان سے یہ داستان سُننے لگا۔ 

بخت خان علاقہ غیر کے قریب ایک دُور دراز گائوں میں پیدا ہوا، جہاں برف گرتی تھی۔ بخت خان علاقے کے خان کا بیٹا تھا، اِس لیے علاقے میں اَثر و رُسوخ بھی حاصل تھا۔ وہ بچپن سے لے کر لڑکپن تک ناز و نعم میں پلا بڑھا تھا، مگر مدرسے سے لے کر ہائی اسکول تک اُس کا بس ایک ہی دوست بن پایا، جس کا نام تھا رقیب خان۔ جو خود بھی علاقے کے سب سے بڑے زمین دار کا اکلوتا، لاڈلا بیٹا تھا۔ اُن دونوں کی دوستی کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ سات گائوں دُور تک اُن دونوں کی ٹکّر کا کوئی تھا ہی نہیں۔ مدرسے سے لے کر ہائی اسکول تک دونوں کے ہم جماعت لڑکے اُن کے رُعب میں رہتے اور اُن سے دبتے تھے۔ 

دباؤ اور امارت و رُتبے کے اَثر تلے غلامی تو ہو سکتی ہے، مگر دوستی نہیں۔ البتہ بول چال بظاہر سبھی ہم جماعتوں سے رہتی تھی اور وہ سب مل کر کھیل تماشوں میں حصّہ بھی لیا کرتے۔ لڑکپن بِیتا اور جوانی آئی، تو مشاغل بھی بدلنے لگے۔ بخت خان کو قدرت کی صنّاعی بھانے لگی اور وہ گھنٹوں گائوں سے باہر شور مچاتے جھرنوں کے قریب بادلوں تلے بیٹھا، پہاڑوں کی سرگوشیاں سُنتا رہتا۔ رات ہوتی، تو اپنے ڈیرے کی چھت پر اپنا پسندیدہ ریڈیو ٹرانزسٹر لیے بان کی وسیع چارپائی پر گول تکیے سے ٹیک لگائے گانے سنتا رہتا۔ 

ریڈیو سیلون سے فرمائشی گیت نشر ہوتے اور بخت خان رات گئے تک ان سُریلی آوازوں کے جلترنگ میں کھویا رہتا۔ اُسے یوں لگتا، جیسے تصویر سے بھی بڑا تخیّل اُس چھوٹے سے ایک بینڈ کے ریڈیو کے ڈبّے میں بند ہے۔ بخت خان کے ریڈیو سے اُبھرتے گیتوں کا سنگیت ہوا کے دوش پر پھیلتا، تو رات کا سنّاٹا بھی کسی مُدھر سُر میں ڈُوبا محسوس ہونے لگتا۔ البتہ اُس کے جگری یار رقیب خان کے معمولات کچھ جُدا تھے۔ اُسے شکار کا شوق تھا، وہ ہفتوں علاقے کے سنگلاخ پہاڑوں، جنگلوں میں بھٹکتا رہتا اور گھر واپسی پر اُس کی پرانی وِیلیز جیپ بھیڑیئے کی کھالوں اور شکار کیے جانوروں کے سَروں سے بَھری ملتی۔ دونوں کی دوستی البتہ مثالی تھی۔ 

ملاقات چاہے ہفتوں بعد ہوتی، مگر جب بھی دونوں ملتے، آس پاس کی فضا گھنٹوں اُن کے قہقہوں سے گونجتی رہتی۔ رقیب خان دوست کو طعنے دے کر اُکساتا کہ یہ کیا، وہ چوبیس گھنٹے اپنا محبوب ریڈیو کانوں سے لگائے رکھتا ہے۔ اگر زندگی کا لُطف اُٹھانا ہے، تو بخت خان بھی شکار پرنکلے۔ مَردوں کے ہاتھ میں بندوق اچھی لگتی ہے، سازوں کا ڈبّا نہیں۔ مگر بخت خان ہر بار ہنس کر رقیب کی باتوں کو ٹال دیا کرتا۔ اب وہ اُسے کیسے سمجھتا کہ یہ چھوٹا سا ریڈیو جسے رقیب خان سازوں کا ڈبّا کہتا ہے، بخت خان کو کتنے جہانوں کی سیر کروا دیتا ہے۔ 

باتیں، تبصرے، خبریں، سیربین میں دُنیا جہان کے قصّے، نغموں کی گیت مالا، فرمائشی خط، گانے اور جانے کیا کیا… مگر بخت خان خود یہ نہیں جانتا تھا کہ رات گئے اس کے ڈیرے کی چھت سے فضا میں بکھرتے یہ گیت، اُسی کے گائوں میں دُور پہاڑوں کے دامن میں بَسے ایک چھوٹے سے گھر کی مکین کے دِل کو اَتھل پتھل کرجاتے ہیں اور پھر ایک دن جب بخت خان کا گزر گائوں کے باہر پنگھٹ نما جھرنے کے قریب سے ہوا، تو یہ بھید بھی کُھل گیا۔ جب پلوشہ کی سہیلی نے پانی بھرتی پلوشہ کو کہنی مار کر متوجّہ کیا۔ ’’وہ جا رہا ہے خان کا بیٹا، جو ساری رات ریڈیو پر سَندرے (نغمے) سُنتا ہے اور جُھونگے میں تم بھی سُن لیتی ہو۔‘‘ کچھ سرگوشیاں صرف سرگوشیاں نہیں رہتیں، دِلوں کی آواز بن جاتی ہیں۔ 

بخت خان نے بھی دِل کی اِس آواز پر چونک کر پلٹتے ہوئے لمحہ بھر کو اُن دو شرارتی لڑکیوں کی طرف دیکھا اور پھر پتھر کا ہوگیا۔ پلوشہ اپنی شوخ سہیلی کو ڈانٹ رہی تھی، مگر اُس کی جُھکی جُھکی نظریں بھی وجیہہ بخت خان کے سراپے کی طرف اُٹھ اُٹھ سی جاتی تھیں۔ پھر وہی صدیوں پرانی کہانی شروع ہوگئی۔ دُنیا کی ساری محبتیں ایک جیسی ہی تو ہوتی ہیں۔ اب بخت خان فرمائشی گائوں کا پروگرام سُنتا، تو رات کو ریڈیو جان بوجھ کر چھت کی اُس منڈیر پر رکھتا، جو پلوشہ کےگھر کی طرف بنی ہوئی تھی اور جس رات ہوا مخالف سمت کی ہوتی اور نغموں کی آواز پلوشہ کے گھر کی طرف نہیں جا پاتی، تو پلوشہ بے چینی سے ساری رات صحن میں ٹہلتے ہی گزار دیتی۔ اُن دونوں کا گائوں چھوٹا سا تھا، مگر محبت کی کہانیاں ہمیشہ ان سرحدوں سے بہت بڑی ہی ہوتی ہیں۔

دونوں میں پہلے پہل اِسی شوخ سہیلی کےتوسّط سےرُقعوں اورپھرلمبے لمبے خطوں کا تبادلہ شروع ہوا۔ دِن کے اُجالے میں پانی کے جھرنے پر آتے جاتے نظروں نظروں میں سلام، دُعا ہوجاتی اور مہینے کی ہر پہلی اور پندرہ تاریخ کو چاند کے سفر کے حساب سے ملاقات کا وقت طے کیا جاتا۔ پلوشہ رات کو چُھپتی چُھپاتی دو گھڑی کے لیے بخت خان سے ملنےآجاتی۔ مگر اس کا دَم اَٹکا رہتا اور پھر ملاقات ختم ہو جانے کے بعد بھی دونوں کے خیال اور احساس کی ملاقات جاری رہتی۔ 

رقیب خان نے اپنے جگری دوست کی یہ غائب دماغی نوٹ کرلی، تو بخت خان کو بھی یار کے اصرار پر دِل کی بات بتانا ہی پڑی۔ رقیب نے بخت کی حالت کا خُوب مذاق اُڑایا کہ ایک معمولی لڑکی کی یادوں نے ایک کڑیل کا یہ کیا حال کردیا ہے، ایسی لڑکیاں تو زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ بخت خان نےاسے اپنی مجبوری بتائی کہ دو گھڑی سُکون سے مل بیٹھ کر بات کرنے کے لیے بھی کوئی جائے پناہ میسّر نہیں ہے ان دونوں کو۔ رقیب خان نے بخت کو بتایا کہ اگلے ہفتے اُس کےگھر والے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے دُوسرے گائوں جارہے ہیں، جہاں سے واپسی میں انہیں تین چار دن لگ سکتے ہیں۔ 

ایسے میں رقیب کا گھر سے ملحقہ پچھلی طرف بنا حُجرہ بھی خالی رہے گا، لہٰذا بخت چاہے، تو وہ پلوشہ کو وہاں ملنے کے لیے بُلوا سکتا ہے۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ بخت خان کے تو جیسے دِل کی کلی ہی کِھل گئی۔ یوں بھی وہ پلوشہ کو یہ خوش خبری سُنانے کے لیے بےچین تھا کہ اگلے ماہ وہ اپنے گھر والوں کو کسی طرح راضی کر کے پلوشہ کے گھر رشتہ لینے کے لیے بھیجنے والا ہے۔

سرما کا موسم تھا اور سردیوں کی شام تو عصر ڈھلنے سے پہلے ہی اُترنے لگتی ہے، مگر آنے والی جمعرات جب پلوشہ کو بخت خان سے ملنے کے لیے آنا تھا، اُس روز صبح ہی سے آسمان پرگھنے گلابی بادلوں کی دُھند چھا گئی۔ دوپہر سے پہلے ہی برف کے موٹے موٹے گالے آسمان سے گرنے لگے، بارہ بجے تک برف باری شدید ہو چُکی تھی۔ بخت خان پریشان اور اُداس بار بار رقیب کے مہمان خانے کے صحن میں نکل کر آسمان کی طرف دیکھتا اور برف باری رُکنے کی دُعائیں مانگتا۔ مگر عاشقوں کی دُعائیں اگر اتنی آسانی سےقبول ہونے لگتیں، تو پھر جُدائی کے نام سے آج کون واقف ہوتا۔ 

دوپہر تک قریباً ایک فٹ برف پڑچُکی تھی اور دوپہر ڈھلنے تک تو بخت خان پلوشہ کی آمد سے بالکل ہی مایوس ہوگیا۔ ایسے طوفانی موسم میں پلوشہ کا گھر سے نکلنا ناممکن تھا۔ رقیب خان نے بخت کو روکنے کی بہت کوشش کی کہ اس طوفان میں اب گھر واپس جانے کا کیا فائدہ، مگر بخت خان کا دِل محبوب کی جُدائی میں بے قرار تھا، ایک جگہ ٹِک کر کیسے بیٹھا رہتا۔ بخت نے رقیب سے کہا کہ وہ کسی بہانے پلوشہ کے گھر کی طرف پھیرا ڈال کر حالات کا جائزہ لینا چاہتا ہے۔ بخت خان کے جانے کے بعد رقیب نے دروازہ بند کیا اور اندر کمرے میں آکر آتش دان کی بُجھتی آگ سُلگانے کے لیے اُس میں لکڑیاں ڈالنے لگا۔ برف باری رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

تبھی کچھ دیر بعد مہمان خانے کے دروازے پر کسی نے ہلکی سی دستک دی۔ رقیب کے ہونٹوں پر مُسکراہٹ آگئی۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا بے چین دوست گھر جا کر بھی سکون سےنہیں بیٹھ پائے گا۔ رقیب طویل صحن میں گری تازہ برف کے اُوپر قدموں کے نشان ثبت کرتا دروازے تک پہنچا، تو اُس کے دروازہ کھولتے ہی سیاہ شال میں لپٹی کوئی ریشم کی گٹھری سی تیزی سے اندر داخل ہوگئی۔ اُس کے لمبے پراندے کی جھنکار نے جیسے موسم میں ایک جلترنگ سا بکھیر دیا۔ اُس کے کومل وجود کی خوشبو سارے صحن میں پھیل گئی تھی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی سی تھی۔ رقیب نے اُسے دیکھا، تو نظریں ہٹانا مشکل ہوگیا۔ اُس کے چہرے کا نور اور سیاہ چادر میں لپٹے رُوپ کا چندن پَل بھر میں رقیب کے گھر اور نظر کو خیرہ کرگیا۔ 

رقیب سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُس کے چھوٹے سے گائوں میں حُسن کا اتنا بڑا خزانہ کہیں چُھپا بیٹھا ہے، پلوشہ رقیب کو دیکھ کر گھبرا گئی۔ ’’وہ… مَیں… بخت خان…‘‘ رقیب نے جلدی سے اُسے تسلّی دی۔ ’’ہاں… تم اندر بیٹھو… مَیں اُسے بُلاتا ہوں۔ وہ تمہارے گھر کی طرف ہی گیا ہے۔‘‘ پلوشہ نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے۔ ’’نہیں… مَیں جاتی ہوں۔‘‘ ٹھیک اُسی لمحے بخت خان برف کے گالوں میں اَٹا وہاں پہنچ گیا اور پلوشہ کو وہاں دیکھ کر اُس کا مایوس چہرہ، خوشی سے کِھل اُٹھا۔ ’’مَیں جانتا تھا۔ تم ضرور آئو گی۔‘‘ پلوشہ شرما گئی۔ رقیب نے اُن دونوں کو اندر بیٹھنے کا کہا اور خود چائے بنوانے کے بہانے وہاں سے نکل آیا۔ 

پلوشہ بخت کے پیچھے چھوٹے قدم اُٹھاتی مہمان خانے کی طرف بڑھی، تو اس کی پازیب کی دھیمی جھنکار نے رقیب کو پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیا۔ وہاں اندر آتش دان کے پاس بیٹھی پلوشہ کو گھر واپسی کی جلدی تھی اور وہ بخت خان کی منّت کررہی تھی کہ آج کی ملاقات بس اتنی ہی سہی۔ دونوں نے ایک دُوسرے کو جی بھر کر نہیں دیکھا، تو کیا ہوا۔ وہ پھر ملیں گے اور بخت مسلسل اُسے چند لمحے اور روکنے کی ترکیبیں کر رہا تھا۔

اور ٹھیک اُسی وقت باہر صحن کی پرلی طرف سے برآمدے میں کھڑا رقیب اپنے اندر اُبلتے جذبات کے طوفان کو سرد کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا۔ اُس نازک سی لڑکی کے ایک ہی جلوے نے پَل بھر میں رقیب خان کا اندر جلا کر بھسم کردیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لڑکپن سے لے کر اب تک گائوں کی بہت سی لڑکیاں بخت خان کو دیکھ کر آہیں بھرتی رہی ہیں اور اُن میں سے چند ایک کے خط اور جوابی رُقعے تو اُن دونوں نے مل کر لکھے اور پھر پڑھ کر زوردار قہقہے بھی لگائے تھے۔ رقیب کو اِس عشق و محبّت کے کھیل میں کبھی زیادہ دل چسپی نہیں رہی تھی، مگر آج اُس کے اندر کا اَلائو پوری شدّت سے بھڑک اُٹھا تھا۔

اُس کے قدم بار بار مہمان خانے کے آتش دان والے کمرے تک بڑھتے اور پھر دوبارہ برستی برف میں اپنے قدموں کے اُن ہی نشانوں پر واپس لوٹ آتے۔ بخت خان اور پلوشہ باہر کے طوفان سے بے خبر اندر گرم آگ کے قریب بیٹھے کسی اور دُنیا میں گم تھے۔ بخت نے اپنی جیب سے چوڑیوں کا بنڈل نکالا اور پلوشہ کو پہنادیں۔ ’’اِنہیں اپنی کلائیوں سے کبھی جُدا مت کرنا۔‘‘ تبھی حُجرے کا دروازہ دَھڑ سے کُھلا اور دروازے کے بیچوں بیچ رقیب خان اپنی وحشت زدہ سُرخ آنکھوں کے پپوٹوں میں سفید برف کے گالے اَٹکائے کھڑا دکھائی دیا۔ پلوشہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ ’’میں اب چلتی ہوں بخت خاناں…!‘‘ بخت نے گھور کر غصّے سے دوست کی طرف دیکھا، جس کے آنے سے ملن کے چند مزید حسین لمحے اُس کے ہاتھوں سے پھسل گئے تھے۔ 

پلوشہ مُسکرا کر پلٹی، تو رقیب دروازے کے بیچوں بیچ تنا کھڑا تھا۔ ’’اِس لڑکی کو آج یہیں روک لو بخت خاناں… باہر برف کا شدید طوفان ہے… یہ کیسے جائے گی؟‘‘ بخت خان اپنے دوست کے لہجے پہچانتا تھا۔ اُس نے تڑپ کر رقیب کی طرف دیکھا۔ ’’پاگل مت بنو رقیب خان… یہ اب میری عزّت ہے اور مَیں خود اِسے گھر تک چھوڑ کر آؤں گا۔ تم ہٹ جائو راستے سے۔‘‘ مگر وہ رقیب ہی کیا، جو راستے سے ہٹ جائے۔ پلوشہ کا رنگ خوف سے سفید پڑگیا۔ وہ گھبرا کر بخت کے پیچھے جاچُھپی۔ 

بخت خان نے کڑکتی آواز میں رقیب کو ہوشیار کیا۔ ’’بے غیرتی مت دکھاؤ رقیب خاناں، جانے دو اِسے، ورنہ یہ زمانہ میری تمہاری یاری پر تُھوکے گا۔ تم جائو پلوشہ۔ اِس کو میں دیکھتا ہوں۔‘‘ پلوشہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکی۔ بخت خان نے جھپٹ کر رقیب کو قابو کرنے کے لیے جکڑ لیا اور دونوں میں شدید زور آزمائی شروع ہوگئی، مگر پلوشہ کا راستہ ابھی تک بند تھا، کیوں کہ رقیب اور بخت کُھلے دروازے کے سامنے ہی ایک دُوسرے سے بِھڑے ہوئے تھے۔ بخت نے رقیب کو قابو کرنے کے لیے زور لگایا اور پلوشہ نے ذرا سی جگہ پا کر پیچھے سے نکلنے کی کوشش کی، مگر ٹھیک اُسی لمحے پلوشہ کی زُلفوں میں بندھا لمبا پراندہ رقیب کے ہاتھ میں آگیا۔ 

پلوشہ تکلیف سے کراہ اُٹھی۔ اب صورتِ حال کچھ ایسی تھی کہ بخت خان نے رقیب کو جکڑ رکھا تھا اور رقیب نے پلوشہ کے پراندے کو۔ حُجرے میں جیسے بھونچال سا آیا ہوا تھا۔ تکلیف کے مارے پلوشہ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ بخت خان کے پاس اب کوئی دُوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس نے اپنی کمر سے بندھا خنجر کھولا اور پلوشہ کی طرف دیکھا۔ اور پھر دُوسرے ہی لمحے ایک جھٹکے سے پلوشہ کی چوٹی نیچے سے پراندے سمیت کاٹ دی۔

پلوشہ آزاد ہوکر تیر کی طرح باہر کے دروازے کی طرف لپکی، رقیب خان کے اندر کا رقیب جُنون کی آخری حدیں پار کرچُکا تھا۔ وہ پلوشہ کو جھپٹنے کے لیے اُس کی طرف بڑھا۔ پلوشہ نے آخری مرتبہ بھیگی پلکوں سے اپنے محبوب کو اُس کی عزّت بچانے کے لیے اپنے جگری یار سے خونی لڑائی لڑتے دیکھا اور پھرہوا کے جھونکے کی طرح دروازے سے باہر نکل گئی۔ رقیب خان اپنی ہی جھونک میں تیزی سے باہر جھپٹنے کی کوشش میں بخت خان کے ہاتھ میں کُھلے خنجر کے اُوپر پورے وزن سے ایسا گرا کہ لمحے بھر میں تیز دھار فولاد اس کے دِل کے آر پار ہوگیا۔ 

باہر صحن میں گرتی تیز برف نے بھاگتی پلوشہ کےنازک قدموں کےنشان چند لمحوں ہی میں دوبارہ بھر دیئے، مگر بخت خان کے ہاتھوں پر اپنے ہی دوست رقیب خان کے بہہ کر جَمے خون کے نشان عُمر بھر کے لیے ثبت ہو کر رہ گئے۔ بخت خان کے ہاتھ میں ابھی تک پلوشہ کا کٹا ہوا آدھا پراندہ موجود تھا، جسے بخت خان نے وہیں حُجرے کا کچا فرش کھود کردبا دیا۔ 

وہ چاہتا تو خاموشی سے فرار ہو سکتا تھا، مگر اُس نے باہر نکل کر خود ہی اعلان کردیا کہ اُس کے ہاتھوں رقیب خان کا قتل ہوچُکا ہے۔ کچھ ہی دیر میں سارے گائوں میں یہ بات پھیل چُکی تھی اور اس سے پہلے کہ دونوں گھرانوں کے مشتعل نوجوان ایک دُوسرے کے خون کے پیاسے ہو کر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کی شروعات کرتے، علاقے کی انتظامیہ نے بخت خان کو حراست میں لےکر قریبی تھانے منتقل کروادیا۔ 

کوئی کبھی جان نہیں پایا کہ دو جگری یار آپس میں کس بات پر لڑے تھے۔ بخت خان کے گھر والوں نے رقیب کے خاندان کو خون بہا ادا کرنے کی بہت کوشش کی، مگر وہ تو بخت خان کے خون کےپیاسے ہوچُکے تھے۔ معاملہ جرگے سے عدالت تک پہنچا اور بخت کو پھانسی کی سزا سُنادی گئی۔ بخت اور پلوشہ کی کبھی دوبارہ ملاقات نہیں ہو پائی ، مگر لاکھ تفتیش، تشدّد اور جان لیوا سختیوں کے باوجود بخت کی زبان پر کبھی دورانِ حراست پلوشہ کا نام نہیں آیا۔

کمال صاحب نے اپنی بات ختم کی، تو باہر صبح کی اذانیں شروع ہوچُکی تھیں۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کر ایک کاغذ میری طرف بڑھایا۔ ’’یہ خط تمہارے لیے بخت خان دے گیا تھا، پڑھ لو۔‘‘ مَیں نے کانپتے ہاتھوں سے تہہ کیا ہوا کاغذ کھولا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین