• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ کا بھڑک اُٹھنا معمول کی بات ہے، مگر گزشتہ برس ستمبر میں ایسی آگ بھڑکی، جسے 15 ملین ایکڑ پر پھیلے درختوں کو بھسم، 1200 عمارتوں کو راکھ، ہزاروں خاندانوں کو دربدر، ڈھائی درجن انسانوں اور 48 کروڑ جانوروں کو موت کی وادی میں دھکیل کر ہی ٹھنڈ پڑی۔اس آگ نے تقریباً 60 کلومیٹر کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔صُورتِ حال کی سنگینی کے سبب حکومت کو ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں ایمرجینسی نافذ کرنی پڑی، جب کہ ریاست وکٹوریا کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ 

نقصانات کا اندازہ اس رپورٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہےکہ آسٹریلیا کی بیمہ کمپنیز کے پاس آگ متاثرین(تادمِ تحریر) 485 ملین امریکی ڈالرز کے مساوی بیمہ درخواستیں جمع کروا چُکے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیامت یک دَم آئی ہو، بلکہ پہلے معمول کے مطابق کہیں کہیں آگ بھڑکی، جس پر روایتی طریقے سے قابو پانے کی کوشش بھی کی گئی، مگر اس کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی اور پھر اس نے چند دنوں میں دو سو سے زاید مقامات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 

ایک شہری کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا’’ہم ساحلی مقام پر موجود تھے۔ صبح اُٹھے، تو آسمان نارنجی ملا۔8 بجے خطرے کے سائرن بجنے شروع ہوئے اور اعلان کیا گیا کہ’’ جس قدر جلد ممکن ہو، پانی کی طرف چلےجائیں‘‘، سو، ہم سمندر کی جانب دوڑ پڑے۔ ہم چنگاریاں بھڑکنے کی آواز سُن سکتے تھے۔ ایک گھنٹے بعد آسمان سیاہ ہوگیا اور ہر طرف تاریکی چھا گئی۔‘‘

کیا آگ گرمی سے لگی؟

عام تاثر یہی ہے کہ جنگلات میں آگ درجۂ حرارت بڑھنے سے لگتی ہے۔ یہ بات مکمل طور پر درست ہے اور نہ ہی غلط۔ آئیے! اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ستمبر ٹھنڈا ہوتا ہے، مگر اُن دنوں آسٹریلیا میں سورج آگ برسا رہا ہوتا ہے۔ اِس بار بھی وہاں درجۂ حرارت 40ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رہا، مگر اتنی بلکہ اس سے زیادہ گرمی تو ہمارے ہاں بھی پڑتی ہے، لیکن یہاں تو پودوں میں آگ نہیں لگتی؟ جب یہ اُلجھن محکمۂ جنگلات کے چیف کنزرویٹر، سیّد اعجاز حسین شیرازی کے سامنے رکھی، تو اُن کا کہنا تھا کہ’’جنگلات میں آگ لگنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ 

مثلاً کسی شخص کی وجہ سے آگ بھڑک اُٹھتی ہے، بعض اوقات آسمانی بجلی گرنے سے بھی آگ لگ جاتی ہے یا کسی اور وجہ سے کوئی چھوٹی سی چنگاری بھڑک اُٹھتی ہے۔ تاہم، گرمی یا سورج کی تپش سے آگ کو پھیلنے اور شدّت میں اضافے کا ماحول مل جاتا ہے۔ دوسری طرف، جن علاقوں میں موسم سرد رہتا ہو یا بارشیں زیادہ ہوتی ہوں، وہاں کے جنگلات میں کسی انسانی غلطی وغیرہ سے آگ لگ بھی جائے، تب بھی اُس کے زیادہ پھیلنے کے امکانات نہیں ہوتے۔نیز، جنگلات میں لگنے والی آگ دو طرح کی ہوتی ہے۔ 

پہلی قسم کو’’ Bush Fire‘‘ کہتے ہیں۔ یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس میں آگ پانچ ساتھ فِٹ تک اونچی ہوتی ہے، مگر جھاڑیوں میں نیچے ہی نیچے بہت تیزی سے پھیلتی جاتی ہے۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں اِسی قسم کی آگ لگی۔ دوسری قسم’’Crown Fire‘‘ کہلاتی ہے۔ اس میں درختوں کے اوپری حصّوں میں آگ لگتی ہے۔تاہم اسے پہلی قسم کی نسبت بُجھانا زیادہ آسان ہے۔ پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے جنگلات مَری، ایبٹ آباد ڈویژن وغیرہ میں دوسری قسم ہی کی آگ لگتی ہے، البتہ گرمیوں میں مَری کی جھاڑیاں بھی آگ پکڑ لیتی ہیں۔‘‘

فوری قابو کیوں پایا نہ جاسکا؟

آسٹریلیا میں آگ بُجھانے کا خاصا منظّم نظام موجود ہے، پھر یہ کہ اُسے عالمی برادری کا بھی تعاون حاصل رہا۔امریکا نے بھی وہاں فائر فائٹرز بھجوائے۔آسٹریلیا کی پوری فوج آگ بجھانے میں مصروف رہی۔تاہم، اس سب کے باوجود، ستمبر میں بھڑکنے والی آگ جنوری کے نصف تک قیامت ڈھاتی رہی اور سب بے بسی سے آسمان کی جانب دیکھتے رہے۔ بارش ہوئی، درجۂ حرارت گرا، تب کہیں جا کر صُورتِ حال کنٹرول میں آئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ ماہرین نے اس کے کئی اسباب گنوائے ہیں۔

اُن کے مطابق، آگ پر جلد قابو پانے میں ناکامی کا بنیادی سبب تو یہ رہا کہ آگ جھاڑیوں میں لگی تھی، جسے بُجھانا ایک دشوار کام تھا، پھر یہ کہ خشک سالی کے سبب علاقے میں پانی کی بھی بے حد کمی تھی۔ جہازوں کو پانی لانے کے لیے طویل فاصلوں تک پرواز کرنی پڑی۔ گو کہ کچھ علاقوں میں ہنگامی طور پر بورنگ کر کے پانی کی طلب پوری کرنے کی کوشش کی گئی، مگر پھر بھی آخر تک پانی کی کمی آگ بُجھانے میں رُکاوٹ بنی رہی۔ ماہرین کے مطابق ،آگ پر قابو پانے کے لیے تین بنیادی طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ 

پہلا تو یہ کہ فائر لائن بنانی ہوتی ہے، جس کے تحت جنگلات تک رسائی آسان بنائی جاتی ہے تاکہ بوقتِ ضرورت کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال پر قابو پایا جاسکے۔پھر یہ کہ راستے میں موجود ایندھن کو ہٹا دیا جائے تاکہ آگ کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔ تیسری بات یہ کہ پانی کے ساتھ کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جس کے لیے جہازوں اور ہیلی کاپٹرز سے مدد لی جاتی ہے۔ 

اس ضمن میں اعجاز شیرازی کا کہنا ہے کہ’’اگر خشک ایندھن، آکسیجن اور زیادہ درجۂ حرارت ایک ساتھ موجود ہوں، تو جنگل میں آگ لگنے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا ان تینوں میں سے کم ازکم کسی ایک کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس میں کام یابی مل جائے، تو آگ خودبخود بُجھ جاتی ہے، اسے’’ فائر ٹرائی اینگل‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘

حکومتی کوتاہی کا عمل دخل؟

آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم،ا سکاٹ موریسن نے متاثرین کے لیے 2 ارب ڈالرز سے زاید کا فنڈ مختص کیا ، مگر اُنھیں عوامی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُن پر الزام ہے کہ جب آگ چھوٹے پیمانے پر بھڑک رہی تھی، تب اُنھوں نے توجّہ دِلانے کے باوجود اُس پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم متاثرین سے ملنے گئے، تو عوام نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا اور بروقت امدادی کارروائیاں شروع نہ کرنے پر سخت احتجاج کیا۔

آسٹریلیا کے ماحولیاتی مسائل

آسٹریلیا کے جنگلات میں لگی ہول ناک آگ نے انسانی اور جنگلی حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، تو اس نے ماحولیات کے تحفّظ اور اِس ضمن میں برتی جانے والی کوتاہیوں پر بھی کئی سوالات اُٹھائے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا ایک عرصے سے ماحولیاتی مسائل کی لپیٹ میں ہے، مگر حکومت نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ 

وزیرِ اعظم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُن کا کوئلے کی صنعت سے تعلق ہے اور اسی لیے وہ ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجینسی کے مطابق 2017ء میں آسٹریلیا دنیا کا چوتھا بڑا کوئلے کی کان کنی اور برآمد کرنے والا ملک تھا، یہی وجہ ہے کہ اُسے دیگر ممالک کی نسبت آب و ہوا کی تبدیلی کے زیادہ خطرات کا سامنا ہے۔کوئلے کی بڑی صنعت کے باعث وہاں خشک سالی کے دورانیے میں بھی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

دی کلائمیٹ چینج انڈیکس کے مطابق، آسٹریلیا ان 57 ممالک میں شامل ہے جو 90 فیصد گرین ہاؤس گیسز کے ذمّے دار ہیں۔ تاہم، وزیرِ اعظم، موریسن کا کہنا ہے کہ’’ آگ کا کلائمیٹ چینج سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ واضح رہے، جب موریسن وزیر تھے، تو پارلیمنٹ میں ماحولیات کا مسئلہ اُٹھانے والے اپوزیشن ارکان کا مذاق اُڑانے کے لیے کوئلے کا بڑا ڈھیر ایوان میں لے آئے تھے۔

جانوروں کی نسلیں ہی ختم ہوگئیں

ڈبلیو ڈبلیو ایف (WWF) کے مطابق، آسڑیلیا کے جنگلات میں جانوروں پر ٹوٹنے والی قیامت، معلوم تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے، جس سے اتنی کثیر تعداد میں جانور ہلاک ہوئے۔ سڈنی یونی ورسٹی کے پروفیسر، کرس ڈک مین کے اس بیان کو دنیا بھر کے’’ جانور دوست‘‘ انسانوں میں انتہائی غم و افسوس کے ساتھ سُنا گیا کہ ’’ کم از کم 48 کروڑ جانور، پرندے اور حشرات براہِ راست آگ یا دھوئیں سے ہلاک ہوگئے۔ شاید کچھ جان داروں کی نسل کو تو دوبارہ دیکھا بھی نہیں جا سکے گا۔‘‘ گویا انسانوں کی بداعمالیوں اور بے احتیاطیوں نے جانوروں کی بھی جانیں لے لیں۔ 

آسٹریلیا کو جانوروں کی سر زمین کہا جاتا ہے اور وہاں کے جنگلات میں بہت سے ایسے جانور بھی ہیں، جو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔اس موقعے پر جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔حکومتی انتظامات اپنی جگہ، مگر عوام اپنی مدد آپ کے تحت بھی جانوروں کو بچانے نکل پڑے۔بہت سے افراد تو معصوم جانوروں کے لیے شعلہ بنے جنگل کے قریب پہنچ گئے۔ کسی کو کام یابی ملتی، تو وہ جذبات پر قابو نہ رکھ پاتا اور زخمی جانور سے لپٹ جاتا۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے جنگلات میں پائے جانے والے ایک ریچھ نُما جانور، کوالا کی نسل مِٹ جانے کا خطرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں کے جنگلات میں20 ہزار کے لگ بھگ کوالے موجود تھے اور اب کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنے آگ کا ایندھن بننے سے بچ پائے ہوں گے۔ پھر یہ بھی کہ یہ جانور کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہے، اس لیے زندہ بچ جانے والوں کو نارمل زندگی کی طرف لے جانا آسان نہ ہوگا۔ نیز، ماہرین کا خیال ہے کہ صرف کوالا ہی نہیں، بلکہ کئی دوسرے جانور بھی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

تباہی کا پہلا واقعہ تو نہیں

2009 ء میں بھی آسڑیلیا کے جنگلات میں شدید آگ لگی تھی، جس سے 173 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔اس سے پہلے اور بعد میں بھی اِس طرح کے واقعات رُونما ہوتے رہے۔ اگر اس حوالے سے پوری دنیا کا جائزہ لیں، تو کئی ممالک کے جنگلات آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔خاص طور پر 2019ء میں تو آگ لگنے کے واقعات کثرت سے ہوئے۔ برازیل میں واقع دنیا کے سب سے بڑے جنگل، ایمیزون میں کئی ہفتے آگ لگی رہی۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے برازیل کے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے رپورٹ دی کہ وہاں کے جنگلات میں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دَوران 75 ہزار سے زائد مقامات پر آگ لگی۔اس آگ سے اُٹھنے والے دھوئیں نے3200 کلومیٹر دُور ،ساؤ پالو میں بھی آسمانوں کو سرمئی کر دیا ۔ یاد رہے، دنیا کو 20 فی صد آکسیجن ایمیزون کے جنگلات ہی سے حاصل ہوتی ہے، اسی لیے اُنھیں’’ دنیا کے پھیپھڑے‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

بی بی سی کے مطابق، گزشتہ برس وینزویلا کے جنگلات آتش زدگی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر رہے کہ وہاں آگ لگنے کے 26 ہزار واقعات ہوئے، جب کہ تیسرے نمبر پر بولیویا تھا، جہاں 17 ہزار سے زائد جگہوں پر آگ لگی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آگ لگنے کے بیش تر بڑے واقعات کوئی غلطی نہیں تھے، بلکہ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق زیادہ تر جان بوجھ کر آگ لگائی گئی۔ اس ضمن میں خاص طور پر ایمیزون کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جس کے پیچھے حکومتی ہاتھ کی رپورٹس گردش کرتی رہیں۔

نئے سال کا استقبال نہ ہوا

دنیا بھر میں نئے سال کو رنگا رنگ تقریبات کے ذریعے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ جاپان سے شروع ہونے والی دِل فریب آتش بازی دنیا کے آخری سِرے تک جا پہنچتی ہے، مگر آسٹریلیا کی تو بات ہی الگ ہے۔ وہاں نئے سال کے استقبال کے لیے ہونے والی آتش بازی پوری دنیا میں انفرادیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان مناظر کو دیکھنے کے لیے ہر سال ایک ملین سے زاید سیّاح آسٹریلیا کا رُخ کرتے ہیں، جس سے قومی معیشت کو لگ بھگ 90 ملین امریکی ڈالرز کا فائدہ ہوتا ہے۔ تاہم، جنگلات میں برپا قیامت کے سبب وہاں اس بار نئے سال کے موقعے پر روایتی آتش بازی کی تقاریب منعقد نہ ہوسکیں۔

’’ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں‘‘

آسٹریلیا کے جنگلات کی آتش زدگی سے متعلق طرح طرح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اِسی حوالے سے ایک عرب ٹی وی نے دِل چسپ خبر دی۔ ٹی وی کے مطابق، ’’آسٹریلیا کے سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ آتش زدگی کی ایک بڑی وجہ چیل ہو سکتی ہے۔یہ پرندہ جان بوجھ کر آگ پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔ 

اس مقصد کے لیے چیل جلتی ہوئی کوئی چھوٹی سی چنگاری یا شاخ منہ میں دبا کر اُسے جھاڑیوں وغیرہ میں پھینک دیتی ہے۔‘‘ سڈنی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اس حرکت کا سبب یہ بتایا کہ’’ دراصل زمین پر موجود اونچی جھاڑیاں اور درخت چیل کے اپنے شکار تک پہنچنے میں حائل ہوتے ہیں، لہذا وہ ان چیزوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے جَلا ڈالتی ہے۔ ‘‘

اب کرنا کیا ہے؟

صرف آسٹریلیا ہی نہیں، دنیا بھر کے جنگلات شعلوں کی زَد میں ہیں، جس سے جنگلی حیات شدید خطرات میں ہے۔ طرح طرح کے سنگین ماحولیاتی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ یہ سب ہمارا اپنا ہی کیا دَھرا ہے۔جنگلات کی ہمارے لیے جو اہمیت ہے، اُس سے کون واقف نہیں؟ صرف یہ ایک فائدہ ہی کیا کم ہے کہ جنگلات کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے زمین پر فطری نظام کو توازن بخشتے ہیں۔ گو کہ ماحولیات کے تحفّظ کے لیے عالمی سطح پر بہت سے معاہدے ہوتے رہتے ہیں، مگر اُن پر عمل درآمد کم ہی کیا جاتا ہے۔ 

اس کی ایک بڑی مثال آسٹریلیا ہے، جو اس حوالے سے سب سے زیادہ نشانے پر ہے، مگر اس کے باوجود وہاں عالمی قوانین کی پاس داری سے پہلو تہی کی جا رہی ہے۔ماضی میں ماحولیاتی تحفّظ کے لیے اُٹھنے والی آوازیں تو صدا بصحرا ثابت ہوتی رہی ہیں، لیکن شاید اس بار 48 کروڑ معصوم جانوروں کی چیخیں ہی ہمیں بیدار کردیں۔

تازہ ترین