• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں جب سے مودی حکومت نے شہریت کا ترمیمی بل منظور کرکے اسے قانونی شکل دی ہے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے مگر تازہ ترین صورت حال میں بھارت کو تین اہم حزب مخالف جماعتوں نے کانگریس کی دعوت پر مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کے لیے مذاکرات میں شمولیت سے انکار کردیا ہے۔مایاوتی نے الزام لگایا ہے کہ کانگریس نے ان کی بہوجن سماج پارٹی کو دھوکا دے کر ان کے راجستھان میں ارکان اسمبلی کو توڑا تھا۔

مایاوتی بہوجن سماج پارٹی کی مرکزی صدر بھی ہیں اور چار مرتبہ بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش (یوپی) کی وزیراعلیٰ بھی رہ چکی ہیں۔ بہوجن کا لفظی مطلب ہے اکثریتی لوگ یا اکثریتی گروہ یہ جماعت بھارت کے پسماندہ ترین لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے اور اس جماعت کو 1984 میں کانشی رام میں قائم کیا تھا جن کے مطابق بھارت کی پچاسی 85 فیصد آبادی چھ ہزار مختلف ذاتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ بہوجن سماج پارٹی اس وقت یوپی کی دوسری بڑی پارٹی ہے ،جسے 2019 کے انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا بیس فی صد حصہ ملا تھا۔

کانشی رام نے 2006 میں اپنی موت سے تین سال قبل 2003 میں ہی مایاوتی کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔مایاوتی 2007 سے 2012 تک پانچ سال یوپی کی وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں۔ اس سے قبل وہ 2002 سے 2003 تک ایک سال اور اس سے قبل 1995 اور 1997 میں یوپی کی وزیراعلیٰ رہیں۔1995 میں تین مہینے وزیراعلیٰ رہنے کے بعد وہاں اسمبلی تحلیل کرکے صدارتی راج نافذ کردیا گیا تھا اسی طرح 1994 میں چھ ماہ مایاوتی وزیراعلیٰ رہیں اور پھر بی جے پی کے کلیان سنگھ وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ کانگریس میں بی جے پی کے خلاف حزب مخالف کو متحرک کرنے کے لیے تمام جماعتوں سے رابطے کررہی، مگر سب سے پہلے مایاوتی نے انکار کیا اور پھر بنگال کی تری ناھول کانگریس اور پھر دلی میں برسراقتدار شہری حکومت کی عام آدمی پارٹی نے بھی کانگریس کی دعوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

کانگریس نہ صرف شہریت کے ترمیمی بل کی بل کہ نیشنل رجسٹر کے بھی خلاف ہے، جو بی جے پی تشکیل دینا چاہتی ہے تاکہ بہت سے لوگوں خاص طور پر مسلمانوں کو اس رجسٹر میں اندراج سے محروم رکھا جائے اور پھر یا تو ان کی شہریت ختم کردی جائے یا پھر انہیں دوسرے درجے کا باشندہ بننے پر مجبور کردیا جائے۔

اسی طرح مہاراشٹر کی شیوسینا نے بھی کانگریس کی دعوت قبول نہیں کی ہے۔ مایاوتی کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ماضی میں دو موقعوں پر کانگریس نے راجستھان میں بہوجن سماج پارٹی کے ارکان کو توڑ کر اپنے ساتھ ملالیا جب کہ اس وقت بہوجن سماج پارٹی کانگریس کو حکومت بنانے میں باہر سے مدد کررہی تھی۔ گو کہ بھارت میں حزب مخالف کی تمام جماعتیں بی جے پی کی مخالفت کررہی ہیں لیکن پھر بھی وہ ایک پلیٹ فارم پر آنے کو تیار نہیں ہیں۔ مثلاً شیوسینا کو لیجئے جس کا مطلب ہے شیو کی فوج اور یہ مہاراشٹر میں مرہٹوں کی مقامی قوم پرست ہندو جماعت ہے، جسے 1966 میں بال ٹھاکرے نے قائم کیا تھا۔ 

ان کے ابتدائی مطالبات یہ تھے کہ بمبئی میں مختلف عہدوں اور ملازمتوں کے لیے مہاراشٹر کے مقامی لوگوں کو دیگر صوبوں کے مہاجرین پر ترجیح دی جائے۔ آج کل اس کے سربراہ، ادھائو ٹھاکرے نے ہیں جنہوں نے شہریت کے ترمیمی بل کی لوک سبھا میں تو حمایت کی مگر راجیہ سبھا یا ایوان بالا میں ووٹ ڈالتے وقت اپنی مصالحت کو غیر حاضر کردیا۔اس طرح سترہ جنوری کو ہونے والی حزب مخالف کانفرنس یا اجلاس میں کانگریس بڑی حد تک تنہا رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی جو خود کبھی کانگریس میں تھیں اب کانگریس کی رہ نمائی تسلیم کرنے پر تیار اس لیے نہیں ہیں کہ انہوں نے ہی بنگال میں سب سے پہلے شہریت کے قانون کے خلاف بڑے بڑے جلوس نکالے تھے۔ 

اس لیے ممتا بینرجی سمجھتی ہیں کہ ،بی جے پی مخالف تحریک کی قیادت بھی کانگریس کے بجائے ان کے ہاتھ میں ہونی چاہئے،جب کہ لوک سبھا میں نشستوں کو دیکھا جائے تو بی جے پی کی تین سو تین نشستوں کے مقابلے میں کانگریس کی باون اور ممتا بینرجی کی تری ناھول کانگریس کی صرف بائیس نشستیں ہیں، جب کہ جنوبی بھارت کی ڈی ایم کے کے پاس 24 ہیں۔

اسی طرح ایوان بالا راجیا سبھا میں بی جے پی کی تراسی نشستوں کے مقابلے میں کانگریس کی چھیالیس اور ممتا بینرجی کی صرف تیرہ نشستیں ہیں۔ اس طرح ان کا یہ مطالبہ یا حزب مخالف کی قیادت کی توقع کسی طرح بھی ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ ممتا بینرجی بنگال کی مقامی رہ نما ہیں اور وہ کانگریس کی وفاقی حیثیت کو للکار نہیں سکتیں۔ اس طرح حزب مخالف مختلف ٹکڑیوں میں بٹ کر رہ گئی ہے اور بی جے پی اپنے اقتدار کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔

اس کا ایک مظاہرہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت نے تیرہ جنوری کو کیا، جب وزیراعلیٰ یوگی آریتیا ناتھ نے دو بڑے شہروں میں مظاہروں سے نمٹنے کے لیے پولیس کمشنر نظام متعارف کرانے کی تجویز منظور کرلی۔ یاد رہے کہ یوپی میں 2017 میں کوئی پندرہ سال کے وقفے کے بعد بی جے پی کو دوبارہ حکومت ملی تھی اس سے قبل 1997 سے 2002 تک یوپی میں بی جے پی کی حکومت تھی اور ان پانچ سال میں بی جے پی نے تین وزرائے اعلیٰ بدلے تھے، کلیان سنگھ، رام پرکاش گپتا اور راج ناتھ سنگھ۔ 

جس کے بعد 2002 سے 2017 تک یوپی میں بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی کی حکومتیں رہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے یوپی میں کانگریس حکومت نہیں بناسکی ہے ۔اس کی آخری حکومت 1989 میں ختم ہوئی تھی ،جب این ڈی تیواری اس کے وزیراعلیٰ تھے۔ اب یوپی کے وزیراعلیٰ نے پولیس کو مظاہرین کے خلاف وسیع اختیارات دے دیئے ہیں جس سے تشدد میں اضافہ ہوگا۔

دوسری طرف مہاراشٹر میں یہ حال ہے کہ پانچ سال کے وقفے کے بعد کانگریس نے شیوسینا کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی ہے اور وزیراعلیٰ شیوسینا کے سربراہ اودھائو ٹھاکرے ہیں ،جب کہ کانگریس کو دس صوبائی وزارتیں ملی ہیں، اسی لیے تیرہ جنوری کو وزیر تعلیم ورشاگائی کواڑ جو کانگریس کی رہ نما بھی ہیں نے بی جے پی کو مرکزی حکومت کے اس حکم پر اعتراض کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں شہریت کے قانون کو متعارف کرایا جائے۔ انہوں نے پابندی لگادی ہے کہ مہاراشٹر کے تعلیمی اداروں میں کوئی بھی سیاسی جماعت شہریت کے قانون پر طلبا و طالبات کو لیکچر نہیں دے گی۔ 

اس طرح اب بھارت میں شہریت کا قانون ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس کو بی جے پی حکومت بزور طاقت ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کا خیال ہے کہ جس طرح کشمیر کے مسئلے پر کوئی بڑا فساد یا احتجاج نہیں ہوا اور نہ ہی عالمی برادری نے کسی شدید ردعمل کا اظہار کیا ،اسی طرح شہریت کے قانون پر بھی کچھ دنوں بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے گا۔لگتا ہے اس بار بی جے پی نے ایک بڑا غلط فیصلہ جلد بازی میں کرکے نہ صرف اپنی حکومت کو بل کہ پورے بھارت کو ایک بحران سے دوچار کردیا ہے اور اس بحران سے بزور طاقت نکالنا بی جے پی کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

تازہ ترین