• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دادی لیلاوتی‘‘ سندھ میں تعلیم نسواں کے فروغ میں ان کا مثالی کردار رہا

سندھ دھرتی کی خواتین صدیوں سے صنفی مظالم کا شکار تھیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ مردوں کے طاقتور معاشرے میں ان کی تعلیم کو معیوب سمجھاجاتا تھا۔ سندھ کی خواتین کوعلم کے زیور سے آراستہ اور سماجی شعور بیدار کرنے میں ایک اقلیتی خاتون لیلا وتی ہرچندانی کا بہت بڑا کردار ہے اور سندھ کے باشندے انہیں ’’دادی لیلا وتی‘‘ کے نام سے جانتےہیں۔

دادی لیلاوتی 20دسمبر1916ءمیں حیدرآباد کے علاقے ہیرآباد میں ایک صاحب ثروت ہندو گھرانے میں دیوان ہوت چند تیرتھ داس وادھوانی کے ہاں جنم لیا۔رواج کے مطابق بھجن گائیکی کی تعلیم چار سال کی عمر سے ہی استاد جوشی سے حاصل کرنا شروع کی اور سات سال کی عمر میں انہوں نے ہارمونیم بجانا سیکھ لیا ۔

کندن مل گرلز ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔سندھ میں اُس زمانے میں چند گنے چنے تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے مگر اُن میں بھی عورتوں کا تعلیم کی طرف رجحان کم تھا۔اس زمانے میں لڑکیوں کے لیے سرکاری ہائی اسکول کی سہولت صرف میرپور خاص، حیدرآباد اور کراچی میں رہنے والی خواتین کو حاصل تھی۔1939 میں لیلاوتی نے گورنمنٹ کالج کالی موری حیدرآباد سے گریجویشن اور سندھ یونیورسٹی سے سندھی لٹریچر میں ماسٹرز مکمل کیا۔

تقسیمِ ہند سے قبل مسلمان گھرانوں میں تعلیم، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا۔ اس زمانے میں ہندو عامل تعلیمی میدان میں آگے تھے اور انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ تعلیم کا حصول ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے آنے والےدور میں ان کے لیے ترقی کی راہیں کھلیں گی۔

دادی لیلاوتی کو گائیکی کا شوق تو بچپن سے ہی تھا۔پاکستان کے قیام سے قبل گورنمنٹ ٹریننگ کالج فار وومین حیدرآباد میں موسیقی کا ایک پروگرام منعقد ہوا۔ اس میں اُس دور کےصوبائی وزیرِ تعلیم جی ایم سید،سندھ اسمبلی کے سابق اسپیکر میراں محمد شاہ اور علامہ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتا بھی شریک تھے۔ دادی لیلاوتی نے اس پروگرام میں موسیقی کے جوہر دکھائے۔

پروگرام کے اختتام پر جی ایم سید نے اُن کے فن سے متاثر ہو کر میوزک ٹیچر کے طور پر بھرتی کرنے کی پیشکش کی، اور انہیں 1942 میں 35 روپے ماہانہ پرموسیقی کا استاد مقرر کردیا گیا۔دادی لیلا وتی نے 20سال کی عمرمیں سندھ میں منعقدہ ” آل انڈیا میوزک کمپیٹیشن ‘‘ایوارڈجیتا، جس میں اس دورکے نام ور آرٹسٹوں نے حصہ لیا تھا۔

1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیاتودادی لیلاوتی کے دوبھائیوں سمیت تمام عزیز ہجرت کرکے بھارت چلے گئے ۔دادی لیلا وتی اور ان کے روحانی گرو سادھو ٹی ایل واسوانی نے دھرتی کی محبت میں اس ملک سے جدائی گوارہ نہیں کی۔پاکستان بننے کے بعدبعض عناصر کی طرف سے گرو واسوانی اور لیلا وتی پضر عرصہ حیات تنگ کردیاا گیا۔ ،ان سے اس حد تک تعصب اور نفرت کا اظہار کیا گیا کہ دل برداشتہ ہوکران کے گروہندوستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے گئے۔

دادی لیلاوتی نےتمام تر مشکل صورت حال کے باوجود پاکستان نہیں چھوڑا ، اور مرتے دم تک ہیر آباد حیدرآباد میں اپنے آبائی گھر میں مقیم رہیں ۔ انہوں نے 1952میں کراچی کے این جے وی ہائی اسکول سے بیچلر آف ٹیچنگ (بی ٹی) کی ڈگری حاصل کی۔حصول علم کے دوان وہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں گلوکاری بھی کرتی رہیں۔1954ءمیں سول سرجن ڈاکٹر تلسی داس ہرچندانی سے شادی ہوئی جن سے ان کے یہاں بیٹے پر دیپ کمارنے جنم لیا۔ شوہر کی حوصلہ افزائی کے باث انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔

دادی لیلاوتی کی ملازمت کی ابتدا تو بطور میوزک ٹیچر ہوئی تھی، مگرقدرت کو دادی لیلاوتی کے ذریعے سندھ کی مفلوک الحال مسلمان خواتین کی زندگی کو علم کی شمع سے روشن کرنا تھا۔کچھ عرصے بعد وہ تدریسی عمل سےمنسلک ہوگئیں اور ترقی کرکےمیر پور خاص کے گرلز ہائی اسکول کی ہیڈ مسٹریس بن گئیں۔

اس اسکول میں مسلمان لڑکیوں کی نسبت ہندوطالبات کی تعداد زیادہ تھی ،اس کی وجہ یہ تھی کہ سندھ کے وڈیرہ شاہی کے قوانین میں مسلمانوں بچیوں کے لیے تعلیم کا حصو ل حرام قرار دیا گیا تھا۔یہ صورت حال دیکھ کر دادی لیلا وتی نے تہیہ کیا کہ وہ سندھ کی تمام بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گی۔

خواتین میں تعلیمی شعور اجاگر کرنے کے لیے وہ سندھ دھرتی کے ہر گاؤ ں میں گئیں ۔سندھ کے دوروں میں انہوں نے وڈیروں اور پسماندہ علاقوں کےرہائشیوں کو قائل کیا کہ وہ بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول بھیجیں ۔اسی تگ دو کے دوران ایک گاؤں میں وہ خواتین کے ساتھ محو گفتگو تھیں اور انہیں قائل کرنے کی کوششیں کررہی تھیں کہ وہ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجیں ۔

اسی دوران وہاں سے پرواز کرتا ہوا ہوائی جہازگزرا جس کی آواز سن کر ایک خاتون خوف زدہ ہوگئی اورکہنے لگی ،’’یہ جن بھوت کی آواز ہے ،‘‘۔ لیلا وتی نے مذکورہ خاتون کو بڑی مشکل سے سمجھایا کہ یہ جن بھوت نہیں بلکہ آسمان پر اڑنے والے ہوائی جہاز کی آواز تھی۔ اس واقعے سے متاثر ہوکر انہوں نے سندھی زبان میں ایک نظم لکھی ،اس نظم کا ایک شعر اردو میں کچھ یوں ہے کہ ،’’سندھ کی بیٹیوں تم اتنی ان پڑھ اور بے خبر کیوں ہو ،تعلیم حاصل کرکے جہالت کا جن کیوں نہیں بھگادیتیں‘‘

ایسا ہی ایک واقعہ ٹنڈوآدم میں پیش آیا ۔ لیلاوتی ٹنڈو آدم ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہی تھیں کہ ایک دیہاتی عورت ان کے پاس آئی اور انہیں ٹکٹ دکھاتے ہوئے کہا کہ اس پر کتنی رقم لکھی ہوئی ہے؟ لیلا وتی نے جب اسے ٹکٹ پر لکھی ہوئی رقم کے بارے میں بتایا تو اس نے کہا کہ بکنگ کلرک نے تو اس سے زیادہ پیسے لیے ہیں۔ 

یہ سن کر وہ اس عورت کے ساتھ بکنگ کاؤنٹرپر گئیں اور مذکورہ کلرک کو پولیس کی دھمکی دے کر اضافی پیسے واپس کروائے ۔ اس کے بعد انہوں نے اس عورت سے کہا کہ اگر تم لکھ پڑھ لیتیں تو تمہارے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔انہوں نے اس خاتونن کو مشورہ دیا کہ تم تو تعلیم حاصل نہیں کرسکیں ، اپنی بچیوں کو اسکول بھیجو تاکہ ان کے ساتھ ایسانہ ہو۔

لیلاوتی اس عورت کے گاؤں گئیں اور اس کی بچیوں کو اسکول تک لانے میں کامیاب ہوگئیں۔لیلا وتی کی کاوشیں رنگ لائیںاورخواتین نے اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔ لیلاوتی کاتبادلہ میرپورخاص کے اسکو ل سے حیدرآباد کے میران ہائی اسکول میں کردیا گیا۔ اُن کے لیے اِس بات کی اہمیت نہیں تھی کہ وہ کس شہر کے کس اسکول میں اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔ وہ ایک مشنری جذبے کے تحت سندھ کی خواٰتین کو جہالت کی پستی سے نکا لنےکے لیےتن تنہا محو سفر تھیں۔ 

مگر یہ سفر آسان نہیں تھا،اس زمانے میں سندھ کےمضافاتی علاقوں میں سفر کی جدید سہولتیںدستیاب نہیں تھیں ۔ لیلا وتی بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر سوارہوکر صحرائے تھر اور دیگر علاقوں کے دورو دراز گاؤں جاتیں اور وہاں کےباسیوں میں علمی شعور جگانے کی کوشش کرتیں۔ یہ سلسلہ اُن کی زندگی میں کبھی بھی اختتام کو نہیں پہنچا۔

انہوں نے ایک جانب تو لڑکیوں کو اسکولوں تک پہنچانے کا کام سر انجام دیا تو دوسری جانب اُن علاقوں میں اسکول قائم کروائے جہاں پر اسکول قائم کرنے کا تصور بھی محال تھا۔ اِس حوالے سے انہیں کئی مربتہ دشواریاں بھی پیش آئیں مگر اُن کا ایک ہی مقصد تھا کہ سندھ کی عورت جہالت سے دور ہوکر خود کو اِس قابل بنائے کہ اُسے کوئی جاہل ہونے کا طعنہ نہ دے سکے۔

دادی لیلا وتی سندھ میں انسپکٹر آف گرلز اسکول کے عہدے پر تعینات رہیں اور انہوں نے بچیوں کے لیے کئی اسکول قائم کیے۔اسی زمانے میںعلاقے کا ایک بااثر شخص ،مسلح افراد کے ہمراہ دادی لیلا وتی کے دفتر پر حملہ کرنے آیا۔ اس نےان کے آفس میں گھس کردادی کو ڈرایا کہ وہ ان کے علاقے میں اسکول تعمیرکرنے کا ارادہ ترک کردیں ورنہ نتیجے کی ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔ دادی نے اس کی دھمکیوں سے ہراساں ہونے کی بجائےاسے نہایت عزت و احترام سے کرسی پر بٹھا کرپانی پلایا۔

دوپہر کے کھانے کا وت تھا اس لے اسے کھانا کھلایا جس کے بعد چائے بھی پلائی گئی ۔پھر اسےسمجھایا کہ یہ بچیاں قوم کی بیٹیاں ہیں ، اس ناتے میری بھی بیٹیاں ہیں ،کیا یہ اچھا نہیں کہ انہیں علم و آگہہی دی جائے تاکہ یہ سماج میں باعزت زندگی گزار سکیں ۔ وڈیرہ دادی کے خلوص،شفقت اور محبت اور ان کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے دادی سے کہا کہ آپ اسکول کھولیں ، آپ کو کوئی نہیں روکے گا، اس کے بعد وہ چلا گیا ۔

دادی لیلا وتی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن سندھ کے عہدے پر پہنچ گئیں اور 1976 میںوہ اس عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ سکون سے نہیں رہیں۔ انہوں نے سندھ میں کمیونٹی سنٹرز بنائے ،وومن انڈسٹریل ہوم کی بنیاد رکھی ،خواتین کے لئے ایک تحریک کی بنیاد ڈالی گئی تھی جس کا نام ناڑی سبھا تھا ،وہ اس کی متحرک رکن رہیں۔کچھ عرصے وفاقی مذہبی امور کی اقلیتی کمیٹی کی رکن بھی رہیں۔ 1981 سے 1991 تک وہ یونیسیف کی مدد سے کئی اسکول قائم کرنے میں پیش پیش رہیں۔ ناری سبھا جسے اب لیڈیز کلب کہا جاتا ہےاس میں بھی بچیوں کی تعلیم کے لیے ایک ادارہ قائم کیا۔

بطور ڈپٹی کمشنر گرلز گائیڈ تحریک کی طویل عرصے تک رہنمائی کرتی رہیں۔ہیرآباد میں چتربائی جوت سنگھ کی عطیہ کردہ خاندانی زمین پر لیڈیز پارک قائم کیا۔ جب یہ زمین ایک بلڈر کی جانب سے ہتھیانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ایک تحریک منظم کرکے اسے ناکام بنادیا ۔

دادی لیلاوتی صرف ایک استاد نہیں تھیں بلکہ وہ سماجی طور بھی ایک ایسا فعال کردار تھیں، جنہوں نے معاشرےمیں موجود مسائل کو اجتماعی طور پر حل کرنے کی کوشش کی۔ مستحق لڑکیوں کےجہیزسے لے کر اُن کی تعلیم کے مسائل کو بھی وہ حل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش نظر آئیں۔ وہ سندھ کی اُن شخصیات میں سے تھیں جنہوں نےاپنی زندگی بلاتفریق رنگ و نسل و مذہب کے انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ 

وہ سندھ کی پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اِس بات کو محسوس کیا کہ مرد کی تعلیم سے زیادہ ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔انہوں نے اپنی صد سالہ زندگی سندھ کی خواتین کو ملکی معاشرے میںباوقار مقام دلانے کے لیے وقف کردی ۔ خواتین کی تعلیم کے لیے ان کیفقید المثال خدمات پر حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا۔

1985 میں جنرل ضیاءالحق کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ سندھ اسمبلی کی اقلیتی نشست پر صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اس دور میں ان پرسیاسی حریفوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیاکہ ملازمتوں کے کوٹے میں سے وہ ہندو ؤںکی بہ نسبت مسلمان بچوں کو زیادہ ملازمتیںدیتی ہیں ۔جب ان سے اس بارے میں بازپرس ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ مسلمانوں میں بیروزگاری زیادہ ہے۔

دیہی علاقوں کی مفلوک الحال خواتین ننگے پیر چلتی ہوئی ان کے پاس آکر اپنے ،بچوں کےلیےملازمتیں مانگتی ہیں ،تو وہ انہیں کس طرح مایوس لوٹا سکتی ہیں؟زندگی کے آخری ایام میں طویل العمری ، ان کی یادداشت پراثر انداز ہوئی تھی لیکن ان کےحافظے میں ان کے استاد ٹی ایل داس اورصوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام محفوظ تھا جسے وہ روزانہ ہارمونیم پر گایا کرتی تھیں ۔ 12ستمبر2017 کو خواتین کو جہالت کے اندھیروں سے نکا ل کر ان کی زندگی علم کی شمع سے منور کرنے والی افسانوی شخصیت، دادی لیلاوتی اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ان کے بیٹے پردپ کمار بھی شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے او اس وقت وہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو میں طب کے استاد ہیں۔

تازہ ترین