• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالغفور کھتری

کیسی انسانی فطرت ہے کہ ،جسے کھیتوں اور باغوں کی ہریالی ، چہار سو پھیلی پھولوں کی خوشبو، اُڑتے پھرتے پرندوں کی چہچہاہٹ اور بلند پہاڑوں کی موجودگی کی صورت میں فطرت کا قرب میسر ہے، اُسے اس فطری ماحول کے برعکس شہر کی ہنگامہ خیز اور مشینی زندگی میں کشش نظر آتی ہے۔ اور شہر کی تیز رفتار زندگی سے بیزار لوگ کھیتوں، باغوں اور پہاڑوں سے گھرے پرسکون علاقوں میں راحت کے متلاشی ہوتے ہیں۔

انسانی فطرت کا یہ تضاد اسے کبھی شہروں اور کبھی ویرانوں میں لئے پھرتا رہتا ہے۔ اس تضاد کے مارے کراچی کے ’’شہر گزیدہ‘‘ لوگوں نے شہر سے تقریباً نومیل دور ’’منگھو پیر‘‘ نام کے اس علاقے کو ’’گوشہ سکون‘‘ کے طور پر چن لیا تھا۔

منگھو پیر کے نام سے یہ علاقہ اپنے دامن میں خود اپنی اور کراچی کی قدیم تاریخ سمیٹے ہوئے ہے،مگر اس کے اوراق بکھرے ہوئے ہیں۔ کچھ مورخین کے مطابق یہ علاقہ کبھی آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو نامعلوم وجوہ کی بناء پر اجڑ گیا۔

سندھ کی مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کےلئے استعمال ہونے والی قدیم ترین شاہراہ پر پہاڑی سلسلوں میں گھرا یہ مقام سات سو سال قبل ایک بزرگ منگھو پیر کے یہاں تشریف لانے پر ’’منگھو پیر‘‘ کے نام سے اب تک جانا جاتا ہے۔ تاریخی شواہد کے مطابق یہ علاقہ اس سے قبل بھی آباد تھا، مگر اس وقت اسے کس نام سے پکارا جاتا تھا، اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔

منگھو پیر، کراچی کے شمال مشرق میں واقع ایک قصبے کا نام ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔ اس کے مقبرے ، مکانات ، کتبے، تالاب چشمے اور دیگر آثار تحقیق کرنے والوں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ منگھو پیر کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ یہاں سلاطین دہلی کے عہد کے ایک بزرگ حاجی سلطان المعروف بہ منگھو پیر مدفون ہیں لیکن اس کی اہمیت کی ایک اور وجہ بھی ہے، جس پر عام طور پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی وہ یہ ہے کہ اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کی آمدورفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی، ان کے تجارتی قافلے اور دوسری اشیاء ادھر ہی سے گزرتی تھیں۔ 

لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے مختلف قصبوں اور شہروں میں ان کا پڑائو رہتا تھا۔اس قصبے کی پہاڑی کے دامن میں پھیلی ہوئی شکستہ، ٹوٹی پھوٹی پرانی اور بوسیدہ قبریں اور ان کے آثار سے بھی ان کے عہد کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ قبریں کب کی اور کس زمانے کی ہیں۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ ان کا زمانہ آج سے کئی سو سال پہلے کا ہے۔

آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس مقام کی تاریخ کو کانسی کے دور یعنی 1700سے2000قبل مسیح سے زیادہ قدیم قرار دیا ہے اور یہ وہ عرصہ تھا جب وادیٔ سندھ کی تہذیب اپنے عروج پر تھی۔‘‘

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ کراچی کے شہریوں کےلئے یہ مقام شہر کی گہما گہمی سے ہٹ کر کچھ گھنٹے یا کچھ دن گزارنے کےلئے ایک آئیڈیل مقام تھا۔

مگر 1925ء تک اس ’’ہل اسٹیشن‘‘ تک پہنچنے کا کوئی واضح راستہ موجود نہیں تھا۔ بس پگڈنڈیاں ہی تھیں، جن پر راستہ کھوجنا پڑتا تھا۔ بالآخر 1925ء میں انگریز حکام نے عوام کی سہولت کیلئے موجودہ پاک کالونی کے قریب سے منگھوپیر تک پکی سڑک بنوائی۔ گو کہ ان دنوں سواری کیلئے موٹروں اور بسوں کا رواج نہیں تھا، صرف اونٹ اور بیل گاڑیاں ہی سواری کا ذریعہ تھیں۔ پھر قیام پاکستان سے قبل لی مارکیٹ سے منگھو پیر تک بسیں چلنے لگیں تو نہ صرف درگاہ پر جانے والے زائرین کےلئے سہولت ہو گئی بلکہ راستے میں پڑنے والے گوٹھوں بشمول منگھو پیرکےلئے ایک بہتر سہولت میسر آگئی۔ اب اشیاء ضرورت کی خریداری اور دیگر کاموں کےلئے شہر سے ان کا رابطہ آسان اور تیز تر ہو گیا۔

شروع ہی سے کراچی کے تفریحی مقامات تک عام آدمی کی رسائی میں بڑی رکاوٹ ٹرانسپورٹ رہی۔ اور خاندان بھر کے افراد یا دوستوں کے گروپ کےلئے کسی مقام تک پہنچنا بہت ہی دشوار تھا۔ ایسے میں اونٹ گاڑی ایسا وسیلہ تھا ،جس میں بچے، بڑے، عورت، مرد سب بیٹھ کر اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے۔

لی مارکیٹ کے بس اسٹاپ سے چلنے والی روٹ نمبر60 کی عمر رسیدہ بس براستہ بڑا بورڈ اور اورنگی، مسافروں کو اٹارنی چڑھاتی خراماں خراماں نو دس میل کا فاصلہ طے کر کے جب منگھوپیر کے آخری اسٹاپ پر اُتارے گی تو آپ اپنے آپ کو ایسے مقام پر پائیں گے، جس کے ایک طرف طویل اور خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے، اس سلسلے کے کسی قریبی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر نظر دوڑائیں تو اردگرد چھوٹے بڑے پہاڑ اور میدانی سلسلہ بکھرا ہوا ہے۔ چہار سو ایک پراسرار خاموشی ہے ایک اُداسی کی کیفیت ہے، کبھی پہاڑوں کے درمیان بنی ہوئی یہ پگڈنڈیاں مکران کے راستے ایران جانے والے قافلوں میں شامل باربردار جانوروں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں سے گونجا کرتی تھیں۔ 

کبھی اِس وادی میں زندگی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ موجود تھی۔ یہاں خوشیوں کے مختلف مواقعوں پر بجنے والی شہنائیوں کے درمیان زندہ دلوں کے قہقہے تھے۔ دو محبت بھرے دلوں کے درمیان عہدوپیماں تھے۔ معصوموں کی کلکاریاں تھیں اور ساتھ ہی اقتدار کی بھوک اور انا کی تسکین کےلئے انہی میدانوں نے تلواروں کی جھنکار بھی سنی ہو گی۔ غرض کہ زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ رواں

دواں تھی کہ نجانے کسی کردہ ناکردہ گناہ کی سزا میں زندگی کے یہ تمام رنگ پھیکے پڑتے پڑتے بالآخر موہوم ہی ہو گئے۔ سب کچھ معدوم ہو گیا۔ کچھ بھی نہ بچا بس یہ ویرانی اِک اُجڑے دیار کی کہانی سنا رہی ہے۔

منگھو پیر کے مقام کی تاریخی حیثیت کے بارے میں اِس مختصر معلومات کے بعد اب ہم اس مقام پر موجود گرم پانی کے چشموں اور درگاہ کے قریب تالاب میں مگر مچھوں کی موجودگی پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔

یہاں آنے والوں کیلئے درگاہ حضرت منگھو پیر پر حاضری کے بعد تفریح کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جو انہیں فوراً واپس نہیں جانے دیتا۔ ان میں مذکورہ پہاڑی سلسلے کا دلفریب منظر، ہرے بھرے باغات اور مگرمچھوں کی ایک بڑی تعداد کی ایک جگہ موجودگی کے علاوہ ایک منفرد شغل چشموں کے گرم پانی میں نہانا ہے۔

منگھوپیر کی درگاہ کے قریب ٹھنڈے اور گرم پانی کے دو الگ الگ چشمے ہیں اور یہاں سے آگے آدھے میل کے فاصلے پر حضرت جلیل شاہ ؒ کی درگاہ کے قریب دو اور گرم پانی کے چشمے موجود ہیں۔ ماما پارسی نے ان چشموں کے پانی کو ایک جگہ جمع کر کے اُس میں ہر خاص و عام کے نہانےکےلئے دو کشتیاں (پکے حوض) بنوائے یوں انہیں ماما باتھ بھی کہا جانے لگا۔ 

چشموں کے اس پانی میں گندھک و دیگر معدنی اثرات ہیں ،جس سے جلدی بیماریوں کے مریضوں کو خصوصی طور پر شفا ملتی ہے۔ آسومل نے اس پر فضا مقام پر ہفتہ بھر ٹھہرنے کے خواہش مند افراد کیلئے ایک لانڈھی (سرائے کو مقامی زبان میں لانڈھی کہا جاتا ہے) تعمیر کروائی، جہاں دوچار بستر اور کچھ ضروری سامان بھی موجود ہوتا۔ یہ تمام سہولتیں بلامعاوضہ ہوتیں۔ یہاں گرم چشموں کے ساتھ، سادھو ہیرا نند جذام ہسپتال بھی ہے جہاں کوڑھ اور جذام کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔

یہ تھی کراچی سے نو دس میل کی طویل دُوری پر موجود بستی ’’منگھو پیر‘‘ کی کہانی۔ جس کی اپنی ایک تاریخ تھی۔ جو زمانے کے سرد و گرم سہتے یا حادثوں کی نذر ہو کر بالکل ناپید ہو گئی۔ اب ٹرانسپورٹ کی سہولت نے فاصلے سمیٹ لئے اور طویل دُوری گھنٹے بھر کی مسافت رہ گئی تو شہر کے لوگ تفریح کرنے یہاں چلے آتے ہیں۔ ان میں سے شاید کسی کو اس بستی کی تاریخ جاننے کی جستجو رہی نہ ضرورت کہ یہ تاریخی اور نادر خزانہ کسی کےلئے مادی منفعت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔

اقتباس: کراچی کی کہانی تاریخ کی زبانی

تازہ ترین