• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

برطانیہ: زمانہ جدید میں بھی فٹبال کے کھیل میں صنفی امتیاز موجود


دنیا کے ترقیاتی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل برطانیہ میں اب بھی فٹبال کے کھیل میں صنفی امتیاز برقرار ہے۔

غیر ملکی ویب سائٹ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ انگلینڈ کے معروف فٹبال کلب اپنی ہی خواتین ٹیم کو مردوں کی ٹیم جتنی سہولیات فراہم نہیں کرتے۔

کوئی ٹیم ہفتے میں ایک مرتبہ مردوں کے لیے متعین کردہ فیلڈ پر پریکٹس کرتی ہیں جبکہ کوئی بچوں کے لیے تیار کیے گئے جوتے پہننے پر مجبور ہیں۔

انگلش پریمیئر لیگ کے تین مہنگے ترین فٹبال کلب کی خواتین ٹیموں کو اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں۔

مانچسٹر یونائیٹڈ کی مردوں کی ٹیم کی پریکٹس کے لیے کلب نے کیرنگٹن میں ایک جگہ متعین کی ہوئی ہے جہاں ان کی خواتین ٹیم پریکٹس نہیں کرتی۔

اسی طرح لیور پول کلب کی جانب سے کرک بے میں ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا ہے جہاں کلب کی خواتین ٹیم کی ٹریننگ یا انہیں سہولیات فراہم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انگلینڈ کے ایک اور کلب ٹوٹنہم کی خواتین کھلاڑیوں کو صرف جمعے کے روز کلب کی 77 ایکڑ اراضی پر بنے ٹریننگ سینٹر میں پریکٹس کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

اس وقت خواتین کے فٹبال میچز کو نہ صرف اسپانسرشپ مل رہی ہے بلکہ اسٹیڈیم کا رخ کرنے والے شائقین کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے لیکن میچ میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھاتی خواتین کھلاڑیوں کے لیے سہولیات کا فقدان ہے۔

دوسری جانب انگلینڈ کی دوسری ڈویژن کی ویمن سپر لیگ (ڈبلیو ایس ایل) کے کچھ کلب خواتین ٹیم کو مردوں کی ٹیم کی طرح ہی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

ان کلبز میں آرسنل، چیلسی اور مانچسٹری سٹی شامل ہیں جو خواتین فٹبالرز کو ٹریننگ کے لیے مردوں کے برابر سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین