• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی و جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان کشیدگی..خیال تازہ … شہزاد علی

امریکہ بدستور اپنی اس سامراجی سوچ پر کاربند نظر آرہا ہے کہ وہ اپنے اور چند بڑی طاقتوں کے علاوہ دیگر ممالک کے لئے جوہری توانائی کے حصول کو شجر ممنوع سمجھتا ہے، اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ نے پھر کہا ہے کہ واشنگٹن شمالی کوریا کو بحیثیت ایک جوہری ریاست تسلیم نہیں کرے گا اور کہا ہے کہ امریکہ اپنا اور اپنے اتحادی جنوبی کوریا کا دفاع کرے گا۔ خیال رہے کہ قبل ازیں منگل کو شمالی کوریا نے اعلان کیا تھا کہ وہ مزید بم بنانے اور اپنی بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنے نیو کلیئر کمپلیکس ”یونک بیانگ“ میں اس متعلق واقع اپنی تنصیبات کو ازسر نو ترتیب دے کر اپنی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کر رہا ہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ یہ تنصیبات 2007ء میں اقتصادی امداد کے حصول کے لئے بند کر دی گئی تھیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس پر پابندیاں عائد ہیں جبکہ شمالی کوریا اپنے تیسرے ایٹمی تجربے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں پر سخت ناخوش ہے۔ شمالی کوریا نے پچھلے دنوں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے شمالی کوریا کی آرمی کی بڑی مسلح پرموومنٹ کے ثبت نہیں ملے جبکہ دوسری طرف شمالی کوریا کے ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا تھا کہ شمالی کوریا نے راکٹ بردارافواج کو امریکہ پر حملے کے لئے الرٹ رہنے کا حکم دیا ہے۔ اور اس تناظر میں امریکہ اور جنوبی کوریا کے انٹیلی جنیسز نے شمال کے درمیانے اور دور مار میزائلوں کی ہونے والی نقل و حرکت کی نگرانی بڑھا دی ہے۔ جبکہ صدر کم جونگ ان کے اس اظہار خیالات سے کہ امریکی سامراج سے حساب برابر کرنے کا وقت آگیا ہے اس خطے میں تناوٴ اور کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ بعض مبصرین شمالی کوریا کے اعلانات کو صرف لفظی جنگ قرار دے رہے ہیں اور پروپیگنڈا مشق سے تعبیر کر رہے ہیں کیونکہ اگر واقعی کسی ملک کے کوئی جنگی عزائم ہوں تو وہ ایسے طرز کے احکامات کو خفیہ رکھتا ہے جبکہ شمالی کوریا کی جانب سے پوری دنیا کے لئے ایسی خبرین جاری کرنا کہ اس نے بحرالکاہل میں امریکی اڈوں اور جنوبی کوریا میں موجود اڈوں پر بھی حملوں کے ایک منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ نفسیاتی دباوٴ معلوم ہوتا ہے جبکہ بعض مبصرین کے مطابق شمالی کوریا نے حالیہ اعلانات امریکہ کی فضائیہ کے دو بی۔ٹو بمبار طیاروں کی جنوبی کوریا پر کی جانے والی پروازوں کے ردعمل میں کئے ہیں۔ ان پروازوں کا مقصد شمالی کوریا نے امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف جوہری جنگ شروع کرنا ہی ہے۔ جبکہ امریکی حکام کا موقف تھا کہ ان پروازوں کے ذریعے انہوں نے اپنے اتحادی جنوبی کوریا کو یہ یقین دلایا ہے کہ امریکہ اس کی مدد کے لئے چوکنا ہے۔ جبکہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے ہاٹ لائن رابطہ ختم کرنے کا اعلان بھی بیانگ یانگ کے مرکزی ریڈیو سٹیشن سے جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسی صورتحال کہ جب کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے ان دوممالک کے درمیان فوجی مواصلاتی رابطوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس نشریاتی اعلان کی دوسری طرف جنوبی کوریا کی وزارت برائے اتحاد یونیفیکشن منسٹری نے تصدیق کردی ہے۔ جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کی جانب سے مشرقی سرحد پر ایک میزائل منتقل کرنے کے بعد میزائل شکن دفاعی نظام سے لیس دو جنگی بحری جہازوں کو تعنیات کردیا ہے جبکہ امریکہ نے گوام جزیرہ پر شمالی کوریا کے حملے کی دھمکیوں کے پیش نظر وہاں پر میزائل شکن دفاعی نظام تنصیب کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے معاندانہ منفی اعلانات کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں اور انہوں نے شمالی کوریا سے اپنا رویہ بدلنے کی اپیل کی ہے جبکہ انہوں نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ تناوٴ اور کشیدہ صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے اقدامات کریں اور مزاکرات کا راستہ اپنائیں یہ بات اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں نیوز کانفرنس سے ایڈریس کرتے ہوئے کہی ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی جارحیت کے خلاف سخت کارروائی کرے گا، جبکہ بعض مبصرین کے مطابق شمالی کوریا کے پاس امریکہ کو جوہری ہتھیاروں یا بلیسٹک میزائلوں سے نشانہ بنانے کی قوت اور صلاحیت موجود نہیں وہ صرف ایشیا میں واقع کچھ امریکی فوجی اڈوں کو اپنے درمیانی فاصلے تک نشانہ بنانے والے میزائیلوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ بھی رپورٹ کیا گیا ہے کہ جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کے ممکنہ میزائل حملے سے نمٹنے کے لئے تیاریاں مکمل کرنا شروع کردی ہیں جبکہ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ شمالی کوریا اپنے میزائل 15اپریل تک لانچ کرسکتا ہے جبکہ بی بی سی کے مطابق شمالی کوریا بظاہر امریکہ پر باقاعدہ امن معاہدے کی امید میں جوہری معاملات پر گفت و شنید کے آغاز کے لئے دباوٴ ڈالنا چاہتا ہے۔
تازہ ترین