• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے تاریخی، سیاحتی اور ثقافتی شہر استنبول میں 14 تا 15 اپریل اسلامی تعاون تنظیم کا تیرہواں سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ سربراہی اجلاس میں متعدد موضوعات پر رکن ممالک کے درمیان مکمل اتفاق پایا گیا ہے تو کئی ایک موضوعات پر اختلافات بھی ابھر کر سامنے آئے۔ ترکی جس نے دو سال کے عرصے کے لئے مصر سے ٹرم چیئرمین کی حیثیت سے اختیارات سنبھالنے تھے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کے باعث ترکی کے صدر ایردوان نے یہ اختیارات مصر کے صدر کی بجائے مصر کے وزیر خارجہ سے حاصل کئے لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری اپنے خطاب کے بعد ترکی کے صدر کا انتظارکئے بغیر اسٹیج سے دور چلے گئے تاکہ صدر ایردوان سےمصافحہ نہ کرنا پڑ جائے۔ اگرچہ سعودی عرب نے ترکی اور مصر کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن سعودی عرب اس کوشش میں ناکام رہا۔
گزشتہ ہفتے شروع ہونےوالا اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا جب عالمِ اسلام کے کئی ایک ممالک افرا تفری اور اختلافات کا شکار ہیں۔استنبول سربراہی اجلاس کے موقع پر انتہائی سخت سیکورٹی انتظامات کئے گئے۔ ترک حکام کے مطابق کم از کم تیس ملکوں کے لیڈر اِس سربراہ اجلاس میں شریک ہوئے جن میں پاکستان کے صدر ممنون حسین، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلیمان اور ایران کے صدر حسن روحانی بھی شامل تھے۔
سربراہی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم نواز شریف کو کرنا تھی لیکن خرابی صحت اور لندن میں میڈیکل چیک اپ کی وجہ سے اجلاس میں شرکت نہ کرسکے اوران کی جگہ صدر ِ پاکستان ممنون حسین نے پاکستان کی نمائندگی کی۔ صدرممنون حسین نے بدھ کو استنبول میں ترکی کے صدر ایردوان سے ملاقات کی ۔دونوں رہنماؤں نے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا ۔انہوں نے علاقائی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے بین الاقوامی امور پربھی بات چیت کی ۔
جمعرات کو شروع ہونے والے سربراہی اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوان نے اسلامی سربراہی اجلاس میں موجود درجنوں مسلم ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت سے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام مسلم ممالک کو مل کر دہشت گردی کے انسداد کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ میرے خیال میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ فرقہ واریت کا مسئلہ ہے ۔ میرا تعلق شیعہ فرقے سے ہے اور نہ ہی سنی فرقے سے بلکہ میں سیدھا سادہ مسلمان ہوں اور میرا مذہب اسلام ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلم ممالک کو تنازعات ختم کرتے ہوئے متحد ہونے کی ضرورت ہےاور ہمیں ایک ایسی تنظیم بنانے کی ضرورت ہے، جس کی ذمہ داری ہمارے درمیان تعاون بڑھانا اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے میں مدد کرنا ہو‘‘۔
سربراہی اجلاس سے قبل تمام مہمانوں کو ایک تاریخی کشتی کے ذریعے باسفورس کی سیر بھی کرائی گئی۔ یہ کشتی جدید جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک کے زیر استعمال بھی رہی ہے۔ افتتاحی اجلاس کے بعد مختلف ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے ملک کا نقطہ نظر پیش کیا۔ اس موقع پر صدر پاکستان ممنون حسین نے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اسلامی ملکوں کی طرف سے مربوط کوششوں کی ضرورت پر زوردیا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور اسے کسی بھی مذہب کے ساتھ جوڑنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان ہرطرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل حل کرنے کیلئے پرعزم ہےاور پاکستان بھارت کے ساتھ بلا تعطل ، پائیدار اور نتیجہ خیز مذاکرات کا خواہاں ہے۔ اس موقع پر ترکی کے وزیراعظم احمد داؤداولو نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت عالم اسلام کومختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سربراہی اجلاس کے ذریعے عالم اسلام کو خوابِ خرگوش سے بیدار کرنے، عالم اسلام میں امن کے قیام، انصاف کی فراوانی اور دنیا میں عالم اسلام کو ایک مقدس اور مبارک دین کے طور پر پیش کرنے کا موقع فراہم کرنے کی امید رکھتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ عالم اسلام ، اسلامی تہذیب و تمدن امن اور انصاف کے پیغام کوآگے بڑھانے کے لئےاستنبول میںیکجا ہوا ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
سمٹ کے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ترک صدر ایردوان نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا، ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک ہی اس تہذیب کے وارث ہیں، جو امن اور انصاف کے ستونوں پر تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن افسوس کہ اب ان اسلامی ملکوں کا ذکر جنگوں، مسلح تنازعات، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ صدر ایردوان نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ OIC 2025 نامی منصوبے کے تحت استنبول ہی میں جس بین الاقوامی ثالثی ادارے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی خیر مقدم کیا کہ اس تنظیم کی رکن ریاستوں نے کانفرنس کے پہلے روز اپنی مشاورت میں ترکی ہی میں مسلم ملکوں کے مابین پولیس کی سطح پر ایک مستقل رابطہ مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس نئے پولیس رابطہ مرکز کے ذریعے تنظیم کی رکن ریاستیں دہشت گردی کے خلاف اپنا باہمی تعاون بہتر بنا سکیں گی۔
صدر ایردوان نے اجلاس میں شریک تمام سربراہوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس ا جلاس میں کئے جانے والے فیصلوں سے ہمارے درمیان اتحا د و یک جہتی کو مزید فروغ حاصل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس اجلاس سے ہماری یہ امیدیں وابستہ ہیں کہ اُمت مسلمہ اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید رہے اور یہ اجلاس ہم سب کےلئے امن و آشتی اور خوشحالی و ترقی کا پیامبر بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی بھائیوں کو ہم نے آج تک تنہا نہیں چھوڑا ہےاور آئندہ بھی کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ سربراہی اجلاس کےاختتامی سیشن میں فلسطین کے موضوع سے متعلق خاکہ بل کےعلاوہ اسلامی تعاون تنظیم کے 2016ء تا2025 ء ایکشن پلان اور اختتامی اعلامیےکے ساتھ ہی استنبول اعلامیےکو منظور کرلیا گیا۔اختتامی اعلامیے میں مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔اعلامیے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی سرزمین پر قبضے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دارالحکومت القدس بنانے اور فلسطین کی مکمل آزادی کی ضرورت پر زور دیا گیا ۔اعلامیے میں تمام اسلامی ممالک سے فلسطین کوایک آزاد مملکت کے طور پر تسلیم کرنے کی بھی اپیل کی گئی ہے۔
اعلامیے میں تمام دہشت گرد تنظیموں جن میں داعش، القاعدہ، پی کے کے ، وائی پی ڈی اور وائی پی جی شامل ہیں کے خلاف جدو جہد کو جاری رکھنےاور مغرب میں بھی اسلام فوبیاکے خلاف جدو جہدجاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ۔سمٹ کے اختتامی اعلامیے میں مختلف علاقائی تنازعات سمیت شام ہی نہیں بلکہ بحرین، یمن اور صومالیہ میں بھی ایران کی طرف سے مداخلت اور دہشت گردی کی مسلسل حمایت کی مذمت کی گئی۔ سربراہی اجلاس کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے انقرہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر ایردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اولو سے الگ الگ ملاقات کی ۔ ملاقات میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ کے بارے میں حکومت ِ ترکی کے عزائم سے آگاہ کیا ۔ملاقات میں علاقائی مسائل،دو طرفہ تعلقات اور اسلامی تعاون تنظیم اجلاس سمیت دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
تازہ ترین