• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کہانی کا فی الحال اختتام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ منظر ِشہود پر ہویدا ہونے والی پیش رفت اور نت نئے امکانات ، نیز قیاس آرائیاں، اس موضوع کو گرم رکھیں گی ۔ پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے عوامی دبائوکے سامنے ہار مانتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا ہے تاکہ فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیں ۔ اس سے پہلے حکومت ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن قائم کرناچاہتی تھی، لیکن اپوزیشن نے بیک زبان اس کی مخالفت کی ،چنانچہ حکومت کو خط لکھنا پڑا۔ اب جبکہ خط لکھا جاچکا ، اپوزیشن نے حکومت کے تجویز کردہ ٹرمز آف ریفرنس کو مسترد کردیا ہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ ٹی او آرز تبدیل نہیں ہوں گے لیکن اگر اپوزیشن نے گلیوں میں احتجاج کے ذریعے حکومت پر دبائو بڑھایاتو ہوسکتا ہے کہ حکومت قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے ٹی اوآرز پر نظر ِ ثانی کرنے پر آمادہ ہوجائے ۔ اس طرح تمام جماعتوںکے اتفاق ِرائے سے تیار کئے جانے والے ٹی او آرز میں دوتین ماہ لگ جائیں گے ۔
تاہم تاخیر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وزیر ِ اعظم کے سر سے بلا ٹل گئی۔ اگلے ایک یا دو ہفتوں کے اندر سمندر پار کمپنیاں رکھنے والے پاکستانیوں کی ایک اور فہرست سامنے آنے والی ہے ۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا وزیر ِاعظم یا ان کے اہل ِخانہ کے نام اس میں شامل ہوں گے یا نہیں۔ آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان ، بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں کے بارے میں یہی کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ مزید انکشافات اپوزیشن پارٹیوں کے نوخیز اتحاد پر منفی اثرات مرتب کریں گے ۔ اگراُن میں دراڑیں نہ بھی پڑیں تو بھی ان کا جوش وجذبہ ماند پڑچکا ہوگا۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پی پی پی ، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر چلنے سے گریز کرے گی کیونکہ اس کا اپنا ماضی ایسے ہی الزامات سے داغدار ہے، یا اس سے بھی بدتر، احتجاجی تحریک کسی’’ تیسرے امپائر ‘‘ کو میدان میں اتارسکتی ہے اور وہ فیلڈرز کو ایک طرف کرکے کھیل کے خاتمے کااعلان کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کے لیڈر آف اپوزیشن، سید خورشید شاہ نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ سندھ میں تحریک چلانے کی بجائے پنجاب میں ہی رہیں ۔ اس صورت میں وہ پی ایم ایل (ن) کے خلاف اسلام آباد میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ ان معاملات کی بازگشت جی ایچ کیو سے بھی سنائی دے رہی ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پہلے بیان دیتے ہوئے بدعنوانی اور دہشت گردی کا براہ ِراست تعلق قراردیا۔ کہنے کا مطلب غالباً یہ تھا کہ چونکہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کررہی ہے ، اس لئے اس کے پاس بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا بھی حق ہے ۔اس بیان پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی کہ فوج کو اپنی آئینی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن ’’اپنے گھر سے صفائی کا آغاز ‘‘ کرنے کے عمل نے آرمی چیف کو زبردست عوامی پذیرائی دلادی ۔ ایک کہانی منظر ِعام پر آئی جس کے مطابق دوجنرلوں اور پانچ اعلیٰ فوجی افسران کو بدعنوانی کے الزام میں ملازمت سے نکال دیا گیا ہے ۔ ان کا تعلق ایف سی بلوچستان سے تھا۔ شروع میں ایسا لگا جیسے یہ بریکنگ نیوز ہے ،لیکن جلد ہی اس کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے جانے لگے ۔ ملنے والی خبروں کے مطابق یہ برطرفیاں کم وبیش ایک سال قبل عمل میں لائی گئی تھیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ جرم کے مقابلے میں سزا بہت نرم تھی۔ چونکہ آئی پی ایس آر اس تاخیر سے خبر دینے کی خاطر خواہ وضاحت نہ کرسکا، چنانچہ عوامی سطح پر یہ تاثر قوی ہوتا گیا کہ اس خبر کے ذریعے سیاست دانوں پر دبائوڈالا گیا ہے کہ اب وہ کچھ کریں، کیونکہ گیند اب اُن کے کورٹ میں ہے ۔ پی ایم ایل (ن) سے تعلق رکھنے والے کئی ایک رہنما، جیسا کہ خواجہ آصف اور رانا ثنااﷲ، اپنے مخصوص انداز میں پر امید دکھائی دئیے ۔ خواجہ آصف کاکہنا ہے کہ وزیر ِاعظم اور اُن کے اہل ِخانہ کے ہاتھ صاف ہیں، اور جس ’’تیسرے امپائر ‘‘ کی عمران خان دہائی دیتے تھے ، وہ کہیں دھند میں کھوچکا ہے ۔ رانا ثنااﷲ کا دعویٰ ہے کہ اگر عمران خان نے اب پنجاب میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی تو اُن سے ’’مناسب ‘‘طریقے سے نمٹا جائے گا۔ اس دوران وزیر ِاعظم نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے بعض مقامات کا دورہ کیا اور عوامی اجتماعات سے خطا ب کیا۔ تقریروں کے دوران اُن کا زیادہ زور خود کو بے قصور ثابت کرنے پر تھا۔ ان تمام معروضات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاناما لیکس کا اثر بطخ کو پانی سے بھگونے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ، چنانچہ ایک مرتبہ پھرعمران خان کی دلی آرزو پوری نہیںہوگی۔ حکومت کو البتہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر ِاعظم کے بیان میں کچھ واضح جھول دکھائی دیتے ہیں۔ جب کمیشن تحقیقات کرے گا تو چاہے جو بھی ٹی اوآرز ہوں،مشکلات شریف فیملی کے تعاقب میں ہوںگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ معاملات میں فتح مند دکھائی دینے کی بجائے نرمی سے ڈیل کرے کیونکہ سختی یا دوٹوک رویہ بحران کے سائے گہرے کرسکتا ہے ۔ اگر مظاہرین رائے ونڈکی طرف مارچ کرتے دکھائی دیں تو ہر ممکن طریقے سے پولیس فورس استعمال کرنے سے گریز کیا جائے ۔ یقیناََ حکومت ایک اور ماڈل ٹائون سانحہ نہیں چاہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے کچھ قوتیں متحرک ہوچکی ہیں،اُنہیں گلیوں میں لاشیں دینے سے گریز کیا جائے ۔
ہمیں ایک طاقتور جوڈیشل کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ گندم سے بھوسے کو الگ کیا جاسکے ۔ ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سنگین جرائم ہیں، انہیں لازمی منظر عام پر لایا جائے،لیکن سمندر پار کمپنیاں قائم کرنا یا غیر ملکی بنکوں میں اکائونٹ رکھنا غیر قانونی نہیں بشرطیکہ وہاں رکھے گئے اثاثے جائز طریقے سے حاصل کئے گئے ہوں۔ ہر سمندر پار کمپنی کو احتساب کے قدموں تلے روند دینا انصاف سے بعید فعل ہے۔
تازہ ترین