• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھلا 15سال پہلے ہی کی تو بات ہے ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب نواز شریف آرام سے حکومت پر چھائے ہوئے تھے کہ ان کے اپنے لائے ہوئے آرمی چیف پرویز مشرف کو فارغ کر بیٹھنا، دراصل لانا غلطی نہیں تھا فارغ کرنا غلطی تھا۔ چیف نے جہاز میں بیٹھے بیٹھے محسن کو فارغ کر ڈالا اور جلا وطن بھی کر ڈالا اور آرام سے اسی محسن کی پارٹی میں دراڑیں ڈال کر9سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔ پھر ایک انہوں نے بھی غلطی کر ڈالی جو ہر فوجی سیاستدان سے 10سال بعد ہوتی رہی ہے کہ اقتدار کے پنجے ڈھیلے چھوڑ کر ایک این آر او پر اپنے مشیروں کے کہنے پر دستخط کر بیٹھے۔ پھر کیا تھا پی پی پی کے طوفان اور صدر زرداری کی فراست میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آج نشان عبرت بنے ہوئے ہیں۔ اس دوران صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے پاکستان کی تاریخ میں5سال جمہوریت کی ٹرین میں سب کو بٹھا کر فرینڈلی سیاست کی داغ بیل کی سیاست ڈال کر رخصتی باندھی ہوئی ہے ۔ اب مسلم لیگ (ن) کی ٹیم نے اقتدار سنبھال لیا ہے ۔ اُمید یہی تھی کہ اس مرتبہ میاں نواز شریف ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو ضرور پورا کریں گے مگر اس حقیقت کے باوجودکہ دنیا میں تیل کی قیمتیں منجمد ہیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2ماہ میں تیسری مرتبہ یکم اگست سے 2روپے پیٹرول کی مد میں اور 3روپے 75پیسے ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی خوشخبری عوام کو سنائی ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) نے اپنے نئے صدر کے چناوٴ میں تمام سیاسی جماعتوں پر اپنا سایہ ڈالا ہوا ہے، باوجود عوامی مینڈیٹ پورے کا پورا اس کی جھولی میں پڑ ا ہوا ہے مگر اقتدار کی بھوک دوسروں کے مینڈیٹوں کو بھی ہڑپ کرنے میں آگے آگے ہے ۔ اگر یہی ایم این اے اور ایم پی اے خود آکر دوسری پارٹی میں انفرادی طور پر آئیں تو یہ فلور کراسنگ کی زد میں آتے ہیں مگر یہی کام پارٹی کے سربراہان عوام سے اپنے نام اور وعدوں پر ووٹ حاصل کر کے دوسری جماعت کے ساتھ مل بیٹھیں تو یہ فرینڈلی سیاست کہلاتی ہے ۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ اگر سب کچھ اسی ملی بھگت سے کرنا تھا تو پھر الگ الگ کیوں الیکشن لڑنے ہیں۔ اپنے کارکنوں اور عوام کو بیوقوف بنا کر پہلے ووٹ حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کی خاطر اکٹھے ہو جاتے ہیں نہ ان کو عوام سے کئے ہوئے وعدے یاد رہتے ہیں اور نہ ہی عوام کی تکالیف کا خیال آتا ہے ۔ سب مل کر عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اگلے5سال ساتھ لگ جاتے ہیں ۔ دوسری طرف عوام بھی اپنے اپنے غموں اور دکھوں کو بھلا کر پھر ان کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اگر سب نے یہی تماشا کرنا تھا تو پھر الیکشن کرانے کا کیا فائدہ ۔ مشرف حکومت نے9سال ڈالر 60روپے رکھا تھا تو پی پی پی کی حکومت نے 98روپے پر لا کر اقتدار مسلم لیگ (ن) کے حوالے کر دیا تو مسلم لیگ (ن) جو قرضوں کے خلاف ، دہشت گردی کو ختم کرنے ، مہنگائی سے عوام کو چھٹکارہ دلانے کے لالچ میں لا کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو کجا ڈالر کو 110روپے تک لے جانے کی طرف گامزن ہو کر آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے میں مصروف ہے ۔ کراچی سے صدر منتخب کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر کراچی میں امن و امان بحال کرنے میں ہر گز سنجیدہ نظر نہیں آرہی ۔ وہی 10بیس قتل ، بے گناہوں کی لاشیں ، پولیس اور عدلیہ بھی اب غیر محفوظ ہوچکی ہیں ۔ اب تو رینجرز بھی عوام کو تحفظ دینے کے بجائے امن کی آڑ میں قتل میں ملوث ہو چکی ہے ۔ ماضی میں اس کے قاتل آج تک سزا نہیں پا سکے تو آئندہ کیسے پائیں گے ۔ صرف چند دن میڈیا پر شور ہو کر تمام معاملات کا خاموش مُک مُکا ہو جاتا ہے ۔
2013ء ویسے بھی سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا تھا ، اس میں الیکشن سے بڑی تبدیلیوں کی نشاندہی میڈیا نے کروا کر انقلاب آنے کی نوید سنائی تھی وہ تو 2ماہ میں جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ۔ کراچی سے صدر چن کر کیا امن قائم ہو جائے گا؟ کراچی پاکستان کی معیشت ہے جس کو دہشت گردی اور لاقانیونیت کی نظر کر کے ہم پاکستان کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں ۔ ایک طرف افغانستان ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر طالبان سے مذاکرات رکوانا چاہتا ہے جس میں صرف شخص واحد حامد کرزئی کی حکومت کو بچا کر مضبوط کر کے امریکہ کو اس خطے سے نکلنے سے روکنے کی چالیں ہیں۔ خود نیٹو اس جنگ سے تھک کر نڈھال ہو چکی ہے اور وہ بھی چھٹکارہ پانا چاہتی ہے ۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ سمیت چیف آف آرمی اسٹاف جناب پرویز کیانی کی اضافی مدت پوری ہونے کو ہے۔ ان دونوں کی رخصتی کے بعد اس ملک کا کیا بنے گا نہ عوام کو معلوم ہے اور نہ ہی ہمارے حکمران اس کی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ البتہ ہم دہشت گردی کا شکار ایک طرف بھارتی ایجنٹ تو دوسری طرف افغانستان کے ایجنٹ پاکستان کے مفادات سے کھیلتے رہیں گے ۔ ان کے پڑوسی حصے یعنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبے ڈائریکٹ ان کی زد میں رہیں گے جہاں یہ ایجنٹ بآسانی خودکش دھماکے کر کے امن کو تہس نہس کر کے اسلحہ کے زور پر آتے جاتے رہیں گے۔ عوام بے چارگی سے امن کی بھیک مانگتے رہیں گے مگر انہیں کچھ نہیں ملے گا۔ آئندہ فوج کا کیا کردار ہوگا یہ سب امریکن اور نیٹو فوج کی واپسی پر منحصر ہوگا ۔ طالبان فیکٹر موت کے سایوں کی طرح منڈلاتا رہے گا۔ فی الحال تو پاکستا ن کے عوام آنے والے برے یا بھلے وقت کا انتظار کر کے کسی رہبر کے منتظر ہیں جو قائداعظم کے پاکستان کو حقیقی وجود میں لا کر67سال کا ازالہ کر سکے جس کے لئے قوم قربانی دے دے کر ہلکان ہو چکی ہے اور اب قربانی سیاستدانوں سے لے کر ہی وہ اپنی منزل پاسکے ، وہ منزل جو اب سراب میں تبدیل ہو چکی ہے مگر انقلاب کے بغیر منزل نہیں رہزن ملتے ہیں جو قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی سے اس قوم کا مقدر بن چکے ہیں ۔ اب قوم کی باری ہے کہ وہ کب انقلاب کو دستک دیتی ہے۔ کاش پاکستانی قوم بھی شام اور مصری قوم کی طرح اپنے اپنے حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تب ہی یہ سیاستدان اور حکمران عوام کے مفادات سے نہیں کھیلیں گے ۔ فی الحال تو قوم ویسٹ انڈیز سے ون ڈے سیریز اور T-20سیریز جیتنے کی خوشی منا رہی ہے کیونکہ اب عوام کے لئے صرف کھیلوں کی خوشی ہی باقی رہ گئی ہے ۔ اللہ اللہ تے خیر صلہ۔
تازہ ترین