• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانون کی بالادستی کے معاملے میں پاکستان بدترین ممالک میں شامل

اسلام آباد (انصار عباسی) ورلڈ جسٹس پروجیکٹ روُل آف لاء انڈیکس 2021ء کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان (اسکور 0.39) بدترین ممالک میں شامل ہے اور مجموعی طور پر 139؍ ممالک کی فہرست میں اس کا 130واں نمبر ہے۔ 

اسکور کی حد صفر سے ایک تک ہے جس میں اگر کسی ملک کا اسکور ایک ہے تو اس کا مطلب یہاں قانون کی بالادستی بہت ہی سخت ہے، اس لحاظ سے پاکستان کا اسکور 0.39 جبکہ فہرست میں نمبر 130 ہے۔ جنوبی ایشیا کی رینکنگ بھی دیکھیں تو پاکستان آخری دوسرے نمبر پر ہے۔ 

نیپال، سری لنکا، بھارت، بنگلادیش نے قانون کی بالادستی کے معاملے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ خطے میں پاکستان سے بھی زیادہ خراب کارکردگی افغانستان کی ہے یعنی خراب کارکردگی میں پاکستان کے بعد افغانستان کا نمبر آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جن وجوہات کی بنا پر پاکستان کی کارکردگی خراب رہی ہے وہ کرپشن، بنیادی حقوق، امن عامہ اور سلامتی، نگران ضابطوں کا عدم نفاذ شامل ہیں۔ 

ان وجوہات کو دیکھتے ہوئے خطے میں پاکستان بدترین کارکردگی کے معاملے میں دوسرا ملک ہے۔ فوجداری نظام انصاف، شہری انصاف، شفاف حکومت اور حکومتی اختیارات پر ضابطوں کے معاملات میں پاکستان خطے کے 6؍ ممالک میں سے چوتھے نمبر پر ہے۔ 

لیکن مجموعی طور پر پاکستان کی کارکردگی بدتر رہی ہے۔ عالمی سطح پر 139؍ ممالک میں سے دیکھیں تو امن عامہ اور سیکورٹی کے معاملات میں پاکستان تین بدتر ممالک میں شامل ہے اور صرف اس معاملے میں 139؍ ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 137واں ہے۔ سول جسٹس، ریگولیٹری انفورسمنٹ، بنیادی حقوق اور کرپشن کے معاملے میں تیار کردہ فہرست میں پاکستان بالترتیب 124، 123، 126 اور 123ویں نمبر پر ہے۔ 

حکومتی اختیارات پر ضابطہ: اس معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ ملک پر حکمرانی کرتے ہیں وہ خود کتنا قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ اس میں آئینی اور ادارہ جاتی ذرائع شامل ہوتے ہیں جن کے تحت حکومت اور اس کے اختیارات کو محدود رکھا جاتا ہے اور انہیں قانون کے مطابق جوابدہ بنا کر رکھا جاتا ہے۔ 

اس میں حکومتی اختیارات میں غیر سرکاری ضابطے بھی شامل ہیں جیسا کہ آزاد اور خود مختار میڈیا۔ اس کیٹگری میں پاکستان کا اسکور 0.89 ہے اور 139؍ میں سے پاکستان کا نمبر 89 ہے۔ کرپشن کی غیر موجودگی: اس کیٹگری میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت میں کرپشن نہیں ہے۔ کرپشن کی اشکال معلوم کرنے کیلئے تین عوامل پر غور کیا جاتا ہے۔ 

ان میں کرپشن، سرکاری اور نجی مفادات کا غیر مناسب اثر اور سرکاری فنڈز اور دیگر وسائل میں خرد برد۔ کرپشن کی ان تین اقسام کا جائزہ ایگزیکٹو برانچ، عدلیہ، فوج، پولیس اور قانون ساز اداروں میں بیٹھے عہدیداروں کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کا اسکور 0.31؍ اور 139؍ میں سے 123ویں پوزیشن پر ہے۔ 

کرپشن کے معاملے میں پاکستان کو فہرست میں ریڈ زون میں رکھا گیا ہے جہاں کرپشن انتہائی حد تک زیادہ ہے۔ حکومتی شفافیت: اس معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو کس قدر معلومات فراہم کرتی ہے، اپنے عوام کو ایسے اختیارات دیتی ہے جس سے وہ اپنی منتخب کردہ حکومت کو جوابدہ بنا سکیں، پالیسی سازی کے معاملے میں عوام کو کتنا اختیار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان کا اسکور 0.42 ہے جبکہ رینکنگ 101؍ ہے، اگرچہ یہ اوسط رینکنگ سے بھی کم ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان کو ریڈ زون میں شامل نہیں رکھا گیا۔ 

بنیادی حقوق: اس معاملے میں اُن حقوق کا تجزیہ کیا جاتا ہے جو مثبت قوانین کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن انسانی حقوق کے شعبے سے الگ سمجھے جاتے ہیں اور انہیں قانون کی بالادستی کے معاملے میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ بنیادی حقوق کی فراہمی کے معاملے میں پاکستان کا اسکور 0.38؍ جبکہ رینکنگ 126؍ ہے یعنی پاکستان یہاں بھی ریڈ زون کو تقریباً چھو رہا ہے۔ 

امن و سلامتی: اس کیٹگری میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی معاشرے میں لوگ، ان کی جان و مال کتنے محفوظ ہیں۔ 139؍ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 137؍ ہے جبکہ اسکور 0.37؍ ہے۔ ضابطوں کا نفاذ (ریگولیٹری انفورسمنٹ): اس کیٹگری میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ضابطوں پر کس سختی اور موثر انداز سے عمل کیا جاتا ہے۔

ان میں قانونی اور انتظامی ضابطے شامل ہیں جو حکومت اور حکومت سے باہر قابل نفاذ ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں پاکستان کا نمبر 123 جبکہ اسکور 0.39؍ ہے۔ یہاں پاکستان کی کارکردگی اوسط سے بھی نیچے ہے۔ شہری انصاف (سول جسٹس) اس کیٹگری میں دیکھا جاتا ہے کہ شہریوں کو اپنی شکایات کے ازالے کیلئے کس موثر اور پر امن انداز سے سول جسٹس سسٹم کے ذریعے پرسکون ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ 

اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آیا نظام انصاف سستا اور آسانی سے قابل رسائی ہے یا نہیں، تعصب ہے یا نہیں، کرپشن ہے یا نہیں، سرکاری عہدیدار غیر ضروری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ عدالتی کارروائی غیر ضروری طور پر تاخیر کا شکار ہوتی ہے یا نہیں اور یہ بھی کہ فیصلے بھرپور انداز سے نافذ کرائے جاتے ہیں۔ 

اس میں نظام کی غیر جانبداریت، موثریت اور مسائل کے حل کے متبادل نظام کے موثر ہونے یا نہ ہونے کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کیٹگری میں پاکستان کا اسکور 0.40؍ اور رینکنگ 124؍ یعنی اوسط سے بھی نیچے ہے۔ فوجداری نظام انصاف: اس کیٹگری میں دیکھا جاتا ہےکہ قانون کی بالادستی کے معاملے میں کسی ملک کا نظام انصاف کس قدر موثر ہے۔

یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ پولیس، وکلاء، سرکاری وکلاء، جج اور جیل کے افسران سمیت پورا نظام انصاف کی فراہمی کے معاملے میں کس قدر غیر جانبدار اور کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ 

اس معاملے میں پاکستان کی رینکنگ 108؍ اور اسکور 0.35 ہے، یعنی پاکستان کو ریڈ زون کے قریب کی کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

تازہ ترین