• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میںجب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

مجید امجد کا یہ سفر مارگلہ روڈ سے گزرتے ہوئے آج بہت یاد آیا۔ سبب یہ کہ جب ای۔سیون کا موڑ آتا، وہاں چوبدار کھڑے ہوتے تھے جو دائیں ہاتھ مڑنے نہیں دیتے تھے۔ آج ان کی ضرورت ہی نہ تھی کہ جس کے ملنے والوں کو روکنے کے لئے، ان کی ڈیوٹی تھی وہ تو قبر میں سوتے ہوئے کہہ گیا ہے کہ؎

عمربھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

مجھے کل بہت کچھ یاد آیا۔ وہ دن جب مرنے والے کو ٹی وی پر بیان پڑھنے کو دیا گیا جس میں اس کے وہ سارے قصور گنوا دیے گئے تھے جو اس نے نہیں کئے تھے۔ پھر یاد آیا کہ اس نے بلیو ایرا میں بلڈنگ میں ایک حصہ خریدا تھا، جہاں عورتوں کی مدد کے مرکز کو بہت محبت اور توجہ سے چلانے کے لئے ڈاکٹر رخشندہ کی خدمات ایسے حاصل کیں کہ لگتا تھا کہ زندگی بھر کا سودا کیا ہے مگر ان کی زندگی میں اتنے سیاسی نشیب و فراز آئے کہ سارے نام الٹ پلٹ ہوگئے، کبھی یوں تھا کہ آگے پیچھے چوبدار چلتے تھے اور کبھی یوں تھا کہ گھر کے باہر چوبدار نگراں ہوتے تھے۔ کبھی ٹی وی پر چہکتے تھے اور کبھی ان کا نام لینا بھی ممنوعات میں شامل تھا۔ کبھی ان کے نام کا سکہ چلتا تھا اور کبھی ان کا نام لینا بھی ممنوع تھا۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں، دیکھیں نا جس شخص نے ایٹمی دھماکے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا نام بھی کہیں نہیں تھا اس حد تک کہ اخبار میں بھی نہیں تھا۔ اس کا جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ تھا مگر سوائے سندھ کے چیف منسٹر کے، اور کوئی شخص قابلِ ذکر نہ تھا۔ مگر داد دینی چاہئے، اِس عوام کو جو شدید ژالہ باری میں استقامت کے ساتھ، اس کے تابوت کے ساتھ چلتے رہے۔ اس کے گھر بیٹیوں اور بیوہ کو تعزیت کے پیغام پہنچاتے رہے جو ان کے بنائے اسپتال پہ بھی پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رہے اور آج کل تو وہ کسی یونیورسٹی اور اسکولوں کو چلانے کے کام میں گھر میں بند رہ کر بھی، کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے۔ بنی گالہ میں ایک گھر پر ساشے کا بورڈ ہے، شاید وہ بھی ان کی کوششوں سے بنا ہو۔

وہ بھوپال کو اکثر یاد کیا کرتے تھے۔ وہ انڈیا نہیں جاسکتے تھے کہ ایٹمی توپ، ان سے منسوب تھی۔ اسی طرح بہت سے دیگر ادارے بھی ان کے نام سے منسوب کئے جاتے تھے۔ بقول احمد فراز ’’مجھ سے پہلے میرے افسانے گئے‘‘۔ میں چونکہ بھوپال گئی ہوئی ہوں اور وہ تمام گھر محلات دیکھے ہوئے ہیں جن کو نواب خاندانوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ اس لئے جب کبھی مجھ سے بات ہوتی بھوپال ضرور زیر گفتگو رہتا۔ ان کی بیگم ہرچند غیرملکی خاتون تھیں۔ مگر پاکستانی عورتوں کی طرح صبر کرنا آگیا تھا۔ بہت خوش ہوتی تھیں جب شام کی چائے ڈاکٹر صاحب انہیں بناکر دیتے۔ انہیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر قدیر کو کس بات کی سزا میں گھر میں بار بار نظربند کردیا جاتا ہے۔ مگر اس پہ تاسف کا اظہار نہیں کرتی تھیں۔

ویسے امریکہ کو ڈاکٹر صاحب سے خوف کیوں آتا تھا کہ کبھی ان کو مروانے کا منصوبہ گھڑا جاتا، وہ اپنے دوستوں جیسے شامی صاحب کو لکھ کر کبھی اپنی بے بسی اور کبھی سرکار دشمنی پہ شعر لکھ کر کبھی کالم میں تاریخ کو دہراتے اور کبھی کاغذات سے پکار پکار کر کہتے کہ جناب آپ ہی بتائیں کہ ہندوستان میں تو ایٹمی تجربہ کرنے والے کو صدر بنادیا جاتا ہے اور پاکستان میں مجھ سے سفر کی آزادی بھی چھین لی گئی بلکہ چور بنادیا۔ مجھے دنیا کا خطرناک شخص کہلوایا گیا۔ ڈاکٹر قدیر خان ایسی راز کی باتیں اپنے دوستوں کو لکھ کر بھیجتے تھے اور اگر کسی کے گھر تعزیت کے لئے بھی جانا ہوتو کرنل صاحب سے اجازت لے کر جاسکتے تھے۔ ورنہ رقعہ بھیجنے یا فون کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔اب آئے دن شکایت کی جاتی ہے کہ پاکستان میں سائنسی تحقیق کا رجحان کم ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے انجام کو دیکھ کر کون سا سائنس دان پاکستان میں تجربے اور کوئی بڑا کام کرے گا۔ ہم نے تو ڈاکٹر سلام کو بھی نہ عزت دی۔ ہم نے کوئی سائنسی فیکلٹی ان کے نام سے منسوب نہیں کی۔

ویسے ان کی زندگی میں، صحافیوں، وکیلوں اور لکھنے والوں کو سب خبر تھی مگر کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی اشارتاً بھی ان کی کہانی لکھتا۔ ہم روز جلوس نکالتے اور آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں۔ ویسے اس پاداش میں، کچھ صحافیوں کے گھروں میں گھس کر انہیں مارا گیا اور کچھ لاپتہ ہوگئے۔ مگر اس دفعہ تو امن کا نوبل انعام دو صحافیوں کو دیا گیا ہے۔ ایک خاتون جو فلپائن کی ہے اور مرد صحافی جو روسی ہے۔ پتہ نہیں وہ روسی صحافی زندہ کیسے ہے اب تک۔ اب وکی پیڈیا میں اس کی زندگی کا راز کھلے گا جیسے اب بے شمار لوگ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ تعلق اور انٹرویوز کی تفصیل بتا رہے ہیں بالکل اس طرح جیسے ایک صحافی نے 12؍اکتوبر 1999سے 12؍اکتوبر 2021تک کا ماجرا لکھتے ہوئے اللہ حافظ لکھتے ہوئے اسے خدا حافظ سے بدلا تھا۔ اب کچھ بھی نہیں بدلا۔

تازہ ترین