• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے مصر میں فوجی بغاوت کی حمایت نے تمام مسلم ممالک میں جمہوریت پسندوں کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔ جان کیری نے جمعرات کو اسلام آباد میں جیو ٹی وی کیلئے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ مصر میں لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر آ کر صدر محمد مرسی کی حکومت کیخلاف مظاہرے کئے جس کے بعد فوج حرکت میں آئی۔انہوں نے کہا کہ مصر کی فوج نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا بلکہ مصری فوج جمہوریت کو بحال کر رہی ہے جس پر میں نے کہا کہ کیا سڑکوں پر گولیاں برسا کر جمہوریت بحال کی جارہی ہے تو جان کیری نے مصر کی سڑکوں پر فوج کے ہاتھوں قتل عام کی مذمت کر دی۔ جمعرات کی شام جیسے ہی یہ انٹرویو جیو ٹی وی پر نشر ہواتو مصر کے متعلق جان کیری کے خیالات مختلف غیر ملکی خبررساں اداروں کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ اخوان المسلمین نے فوری طورپر جان کیری کے موقف کو شرمناک قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر امریکہ میں لوگ سڑکوں پر آ کر فوج سے اقتدار سنبھانے کا مطالبہ کریں تو کیا جان کیری ایسے مطالبے کی حمایت کریں گے؟ ترکی میں سرکاری سطح پر جان کیری کے بیان کی مذمت کی گئی کیونکہ ترکی میں کئی مرتبہ فوج اقتدار پر قبضہ کرچکی ہے اور امریکہ نے ہمیشہ فوجی ڈکٹیٹروں کی حمایت ہے۔ امریکہ میں بھی کئی تبصرہ نگاروں نے جان کیری کے موقف کی مذمت کی۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کے تبصرہ نگار ڈیوڈ روڈھ نے سوال اٹھایا کہ جو پالیسی پاکستان میں نہ چل سکی مصر میں کیسے چلے گی؟ ڈیوڈ روڈھ نے جان کیری کی طرف سے جیو ٹی وی کو دیئے جانے والے انٹرویو کے تناظر میں کہا ہے کہ امریکہ نے مشرف دور میں پاکستان کو گیارہ ارب ڈالر کی فوجی امداد دی تاکہ افغان طالبان پر قابو پایا جاسکے لیکن اس امداد کا غلط استعمال کیا گیا اور افغان طالبان کی آج بھی مدد کی جارہی ہے۔ امریکہ نے ڈالروں کے ذریعہ پاکستانی فوج کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوا۔ اب امریکہ اسی ناکام پالیسی کو مصر میں کیوں استعمال کرنا چاہتا ہے؟ پاکستان میں بھی کچھ جہاندیدہ کالم نگاروں نے سیاستدانوں کو خبردار کیا کہ وہ جان کیری کے خیالات پر غور کریں اور اپنے قول و فعل کے تضاد سے جمہوریت کو ناکام نہ بنائیں کیونکہ امریکہ آج بھی اپنے مفادات کیلئے فوجی جرنیلوں کو گلے لگانے پر تیار نظر آتا ہے اور اسے کوئی شرم محسو س نہ ہوگی۔
جان کیری کے جس انٹرویو پر پوری دنیا میں بحث ہورہی ہے اس انٹرویو پر پاکستان میں کچھ حلقوں کا درعمل میرے لئے خاصا غور طلب تھا۔ جیسے ہی یہ انٹرویو نشر ہوا تو سوشل میڈیا پر مختلف خفیہ اداروں اور کچھ سیاسی گروہوں کے نمائندوں نے یہ اعتراض شروع کر دیا کہ حامد میر نے جان کیری سے پہلا سوال ڈرون حملوں کے بارے میں کیوں نہیں کیا پہلا سوال مصر کے بارے میں کیو ں کیا، بھلا مصر کا پاکستان سے کیا تعلق ؟حقیقت یہ تھی کہ جمعرات کی دوپہر جان کیری اور سرتاج عزیز ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈرون حملوں پر تفصیل سے بات کرچکے تھے۔ جان کیری نے اس پریس کانفرنس میں القاعدہ کے رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری کی پاکستان میں موجودگی کو ہماری خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اگر اس پریس کانفرنس میں ڈرون حملوں پر تفصیل سے بات نہ ہوتی تو شائد میں بھی جان کیری کے ساتھ اپنے انٹرویو کا آغاز ڈرون حملوں کے ذکر سے کرتا لیکن پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملوں پر کیری کا دو ٹوک موقف سامنے آچکا تھا۔
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اس پر کئی پہلوؤں سے بات کی جاسکتی ہے ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر ایک نئے پہلو سے سوال کرنے کی ضرورت ہے تاہم پہلا سوال ڈرون حملوں پرنہیں ہونا چاہئے بلکہ مصر میں فوجی بغاوت پر امریکہ کے غیر واضح موقف کے بارے میں ہونا چاہئے شاید کیری کی زبان سے اصل بات نکل جائے۔پچھلے دس سال میں چوتھے امریکی وزیر خارجہ کے ساتھ میں انٹرویو کرنے والا تھا ۔ کولن پاؤل، کنڈو لیزا رائس اور ہیلری کلنٹن نے انٹرویو کیلئے ہمیشہ مناسب وقت دیا لیکن جان کیری نے صرف سات منٹ دیئے۔ عام طور پر جان کیری کے پائے کے سیاستدان اور سفارت کار انٹرویو سے قبل کچھ موضوعات طے کرلیتے ہیں۔ جن کے بارے میں سوال متوقع ہوتے ہیں تاکہ وہ کچھ تیاری کرلیں اور مطلوبہ اعداد و شمار کا اہتمام بھی کرلیں لیکن مختصردورانئے کے انٹرویو میں یہ اختیاط نہیں کی جاتی اور اسی لئے جان کیری کے منہ سے اصل بات نکل گئی۔ ڈیوڈ روڈھ کے بقول مصر میں محمد مرسی کی حکومت ختم ہونے کے بعد پہلی دفعہ امریکی حکومت کے کسی سینئر ذمہ دار نے گلا پھاڑ کر فوجی بغاوت کو جمہوریت کی بحالی کیلئے کوشش قرار دیا۔ جان کیری کے ان خیالات پر القاعدہ کے رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری کو بھی ایک دھواں دھار بیان داغنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ہفتہ کو جاری کر دہ ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ مصر میں فوجی بغاوت کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی لہٰذا محمد مرسی کے حامی بیلٹ باکس کا راستہ چھوڑ دیں۔ انہوں نے اخوان المسلمین پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکہ کو مطمئن کرنے کیلئے جہاد کا راستہ چھوڑنے والے بھول گئے تھے کہ جمہوریت کاپھل صرف اسے ملتا ہے جو امریکہ کی غلامی قبول کرتا ہے۔انہوں نے مصری فوج پر نتقید کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امداد ، امریکہ میں ٹریننگ فورسز اور امریکہ کی اطاعت سے چلنے والی فوج صرف امریکی مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر ظواہری کا یہ بیان صاف بتا رہا ہے کہ مصر میں ایک منتخب حکومت کیخلاف فوجی کارروائی سے ان عناصر کے موقف کو تقویت ملی ہے جو تبدیلی کے ذریعے ووٹ کے بجائے بندوق کا راستہ اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اخوان المسلمون کوایک طرف امریکہ کی ناراضگی کا سامنا ہے اور دوسری طرف ڈاکٹر ایمن الظواہری کے طعنوں کا سامنا ہے ۔ امریکہ نے ایک جمہوریت پسند محمد مرسی کے مقابلے پر ابن الوقت اور ملت فروش فوجی جرنیلوں کی حمایت سے ہاتھ نہ کھینچاتو صرف مصر میں نہیں بلکہ پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک میں حکومتوں سے برسرپیکار عسکریت پسندوں کیلئے حمایت میں اضافہ ہوگا۔ جان کیری کے دورہ پاکستان سے ایک دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ اور وہاں سے اڑھائی سو قیدیوں کا فرار سکیورٹی اداروں اور صوبائی حکومت کیلئے شرمناک ہے۔ پچھلے سال اپریل میں بنوں جیل سے فرار کے بعد طالبان رہنما عدنان رشید نے ایک ویڈیو بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہم پاکستان کی جیلوں میں بند اپنے دیگر ساتھیوں سے غافل نہیں اس سال جنوری میں انہوں نے ایک جرمن عرب ابو ابراہیم المانی عرف یاسین چوکا اور روسی عسکریت پسند عبدالحکیم کے ہمراہ ایک مشترکہ ویڈیو پیغام میں جیلوں پر حملے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔یاسین چوکا یمن میں القاعدہ کے رہنما انوار الاکی کی ہدایت پر افغانستان آیا تھا۔ جب تک افغانستان میں ایک بھی امریکی فوجی باقی ہے یاسین چوکا اور عدنان رشید جیسے عسکریت پسند مذاکرات کے ذریعے امن کے راستے پر نہیں آئیں گے لیکن پاکستان میں حالت یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے حامی بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں لیکن حالیہ صدارتی الیکشن میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر صدارتی الیکشن 6اگست کی بجائے 30 جولائی کرا دیا۔ الیکشن کمیشن کی نااہلی کے باعث یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی کے شور وغوغا میں عمران خان بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے صدارتی الیکشن کے ساتھ ساتھ جنرل الیکشن میں دھاندلی پر بھی احتجاج شروع کر دیا۔ انہوں نے الیکشن میں دھاندلی پر الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے کردار کو شرمناک قرار دیا۔ شرمناک کا لفظ استعمال کرنے پر انہیں توہین عدالت کا نوٹس جار ی ہوگیا۔2اگست کو وہ اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔ عدالت کا رویہ بہت نرم تھا اور عدالت نے عمران خان کو موقع دیا کہ وہ اپنا بیان واپس لے کر معاملہ ختم کر دیں۔ لیکن عمران خان کے ارد گرد موجود مشرف کی باقیات نے انہیں عدالت کے ساتھ محاذآرائی پر اکسایا اور الٹا حامد خان پر طعنہ زنی شروع کر دی ۔عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں آج پتہ چلا کہ لفظ شرمناک ایک گالی ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق شرمناک واقعی گالی نہیں بلکہ صرف اظہار افسوس ہے لیکن متقدرہ قومی زبان کی شائع کردہ فرہنگ عامرہ میں شرمناک کا مطلب قابل شرم ہے جو انتہائی سخت طعنہ ہے۔ یقینا عمران خان نے یہ لفظ انگریزی معنوں میں استعمال کیا اردو معنوں میں استعمال نہیں کیا لیکن ان کے انداز نے اس لفظ کو گالی بنا دیا۔ بالکل ویسے ہی جیسے جمہوریت کوئی گالی نہیں ہے لیکن جس انداز میں ہم اپنی جمہوریت چلا رہے ہیں اور جس انداز میں جان کیری نے فوج کے قتل عام کو جمہوریت کی بحالی کیلئے کوشش قرار دیا تو یہ لفظ بھی گالی بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنے شرمناک طور طریقے بدلنے ہونگے ورنہ بہت جلد جمہوریت بھی ایک گالی بن سکتی ہے۔
تازہ ترین