• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں جس میں آئی ایم ایف کے 5.3 بلین ڈالر کے نئے قرضے اور اس کی بنیاد پر ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے مزید قرضوں کے حصول کو دیکھتے ہوئے مجھے ایک مشہور معاشی قاتل جان پرکنز کی 2004ء میں لکھی گئی تہلکہ خیز کتاب Confessions of an Economic Hitman جس کا ذکر اسامہ بن لادن نے اپنے ایک ویڈیو ٹیپ میں بھی کیا تھا، میں کئے جانے والے اعترافات جس پر میں کئی سال پہلے ایک کالم لکھ چکا ہوں جس میں انڈونیشیا میں معاشی قاتلوں کے منصوبوں اور ان کی سرگرمیوں کا ذکر تھا،آج دوبارہ شدت سے یاد آرہے ہیں۔ ماہر معاشیات جان پرکنز بوسٹن میں ایک مغربی کمپنی Chas T-Main میں کام کرتا تھا جسے نیشنل سیکورٹی ایجنسی جو سی آئی اے طرز کی ایک ایجنسی ہے کی سفارش پر منتخب کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے مطابق پرکنز کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماؤں کو جھانسہ یا رشوت دے کر انہیں ترقیاتی کاموں کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کرے اور جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہ رہیں تو انہیں مختلف بین الاقوامی امور میں دباؤ میں لایا جائے۔ پرکنز کے مطابق قرضوں پر مزید قرضے لینے سے ان ممالک کی اقتصادیات مفلوج ہوکر رہ جاتی ہے جس سے غربت بڑھ جاتی ہے۔ پرکنز کے مطابق وہ طویل عرصے تک اکنامک ہٹ مین کے طور پر کام کرتا رہا، اس نے لاکھوں ڈالر کمائے مگر پھر آہستہ آہستہ اس کا ضمیر ملامت کرنے لگا اور اس نے ملٹی نیشنل کمپنی سے استعفیٰ دے دیا۔9/11 کے بعد جب وہ تباہ شدہ ٹریڈ سینٹر کے مقام پر پہنچا تواس ہولناک تباہی کو دیکھ کر اس نے دنیا کو بچانے کیلئے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا جس کے 24 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں اور اس بیسٹ سیلر کی اب تک کئی ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
اکنامک ہٹ مین پروفیشنلز دنیا کی معروف یونیورسٹیوں سے معیشت اور فنانس میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کئے ہوتے ہیں جنہیں بین الاقوامی مالیاتی ادارے، ملٹی نیشنل کمپنیاں، یو ایس ایڈ اور آئل اینڈ گیس کمپنیاں غیر معمولی پیکیج پر اپنے مشیر کے طور پر ہائر کرتی ہیں جو خصوصی ٹریننگ دے کر ان کے ذہنوں کو اپنے مقاصد کے مطابق تیار کرتی ہیں۔ ان کی یہ ٹریننگ انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہے اور ٹریننگ دینے والے بعد میں ہمیشہ کیلئے غائب ہو جاتے ہیں۔ اعلیٰ ترین سوٹوں میں ملبوس اور نفیس انگریزی بولنے والے ان معاشی قاتلوں کا کام تیسری دنیا کے ممالک کو امداد کے نام پر قرضوں میں جکڑنا ہے جس کے نتیجے میں وہ ممالک آہستہ آہستہ اپنے تمام قومی اثاثے مغربی کارپوریشنوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان معاشی قاتلوں کا بظاہر حکومت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا کیونکہ انہیں بڑی احتیاط سے بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پے رول پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ پرکنز اپنے آپ کو Economic Hitman کہتا ہے جس کے معنی معاشی قاتل کے ہیں۔ مالیاتی اداروں سے لئے گئے ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ بالآخر تیسری دنیا کے حکمرانوں، بین الاقوامی کارپوریشنوں اور مشاورتی کمپنیوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے یہ کمپنیاں غلط اقتصادی جائزے، غیر حقیقی مالیاتی رپورٹیں، ملکی انتخابات میں دھاندلیوں، لابنگ کال گرلز، رشوت اور دھمکی جیسے ہتھیار استعمال کرتی ہیں اور ناکامی کی صورت میں اپنے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹانے کیلئے قتل سے بھی گریز نہیں کرتیں۔پرکنز کے مطابق پہلا معاشی کرائے کا قاتل Kermit Rooseveltتھا جو امریکی صدر روزویلٹ کا پوتا تھا۔ اس نے1953 ء میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کا تختہ پلٹوایا تھا جبکہ مصدق قانونی طریقے سے انتخابات جیت کر صدر منتخب ہوا تھا۔ مصدق کا جرم یہ تھا کہ اس نے برٹش پیٹرولیم کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا تھا جو پورے ایران میں تیل کی پیداوار کو کنٹرول کرتی تھی۔ برطانوی M-16 اور امریکی سی آئی اے نے مصدق کی جگہ ایرانی جنرل فضل اللہ زاہدی کوبٹھا دیا جس میں کرائے کے معاشی قاتل کا اہم کردار تھا۔
73ء کی عرب اسرائیل جنگ میں تیل کے بطور ہتھیار استعمال ہونے کے بعد امریکہ نے سعودی عرب پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے سعودی شاہی خاندان سے کہا کہ اگر وہ ایرانی حکمراں ڈاکٹر مصدق جیسے انجام سے دوچار نہیں ہونا چاہتے تو امریکہ کا ساتھ دیں اور یوں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ معاشی کمیشن وجود میں آیا جس کے بعد امریکی کمپنیوں نے سعودی دولت سے سعودی عرب کی تعمیر نو کی۔ یہ وہی ہنری کسنجر ہیں جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر پاکستان کو پتھر کے دور میں واپس بھیجنے کی دھمکیاں دی تھیں لیکن اگر کوئی ملک ان معاشی قاتلوں کی بات ماننے سے انکار کرتا ہے تو پھر جیکال (سی آئی اے کے قاتل ایجنٹ) کے ذریعے اس ملک کی قیادت کو ختم کروادیا جاتا ہے اور اگر اس میں بھی ناکامی ہو تو خطے میں امن اور سیکورٹی کے نام پر اس ملک پر جنگ مسلط کردی جاتی ہے جیسا کہ عراق میں ہوا۔ پانامہ کے انقلابی صدر جنرل عمر ٹوریجوس ایسے ہی شخص تھے جنہوں نے نہر پانامہ کے معاملے پر امریکی کمپنیوں کو چیلنج کیا تھا۔ جنرل عمر ٹوریجوس چاہتے تھے کہ پانامہ کے عوام خوشحال رہیں۔ یہاں اکنامک ہٹ مین ناکام ہوگئے تو سی آئی اے کے قاتل ایجنٹ جیکال آئے اور اس طرح جنرل عمر ٹوریجوس کو طیارے کے پراسرار حادثے میں مروادیا گیا۔ ایکواڈور کے مقبول رہنما جیمی رولڈوس بھی ایسے ہی پرعزم شخص تھے جنہوں نے امریکی آئل کمپنی ٹیکساکو کی اجارہ داری توڑنے کی کوشش کی۔ رولڈوس کا کہنا تھا کہ تیل کی آمدنی پر ان کے ملک کے عوام کا حق ہے۔24 مئی 81ء کو اس عوامی رہنما کو ایک خوفناک حادثے میں مروادیا گیا اور ان کی جگہ سنبھالنے والے نئے صدر اوسویلڈ ہرٹاڈو نے اپنے پیشرو کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے فوراً ٹیکساکو کو تیل کی تلاش کا ایک بڑا ٹھیکہ دے دیا۔
جان پرکنز کے مطابق اسے تربیت کے دوران بتایا گیا تھا کہ اگر وہ اس نیٹ ورک سے باہر نکلا تو اسے مار دیا جائے گا لیکن یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس کی کتاب اشاعت کے بعد چند دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی اور بدنامی کے خوف سے اسے قتل نہیں کیا گیا۔ پرکنز کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی بینک بھی معاشی کرائے کے قاتلوں کا ایک موثر آلہ ہے۔ معاشی قاتلوں کے کاموں میں ایسے ممالک تلاش کرنا ہے جو قدرتی وسائل خصوصاً تیل اور گیس سے مالا مال ہوں اور جن کیلئے عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کیا جائے۔ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کردیا جاتا ہے اور پاور پلانٹ، انفرااسٹرکچر، انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیئے جاتے ہیں،اس طرح یہ ترقی پذیر ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں جنہیں ادا کرنے کی وہ استطاعت نہیں رکھتے اور بالآخر انہیں ان کی ہر شرط ماننا پڑتی ہیں۔ جان پرکنز کے مطابق ایسی صورتحال میں معاشی قاتل دوبارہ ان مقروض ممالک میں واپس آکر ان ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچنے کیلئے قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضوں کیلئے آئی ایم ایف کو ان ممالک کی معاشی پالیسیوں کو گروی بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں کرائے کے معاشی قاتلوں کے ذریعے ان ممالک کے قدرتی ذخائر، تیل، گیس، معدنیات پر ان کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کرلیتی ہیں۔ ملکی سطح پر ان ممالک کو فوجی اڈوں کے قیام اور ان کے راستے دفاعی اشیاء کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں بھی یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ ہم نے بھی نیٹو اور مغربی ممالک کے اتحادیوں کو افغانستان میں جنگ کیلئے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، ہم نے بھی اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تبدیل کی ہیں، آج ہم بھی پاک ایران گیس پائپ لائن کے ملکی مفاد کے منصوبے پر عملدرآمد کرنے سے ہچکچا رہے ہیں، ہمارے حکمراں اور سیاستدان بھی کروڑوں ڈالر کے مالک ہیں جبکہ عوام غربت اور مہنگائی کی چکّی میں پس رہے ہیں، پاکستان میں بھی ان لیڈروں جنہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے، تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور امت مسلمہ کے اتحاد کی کوشش کی کو راستے سے ہٹادیا گیا، جیسے حقائق دیکھتے ہوئے میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا پاکستان بھی ان معاشی قاتلوں کا آلہ کار بن چکا ہے؟
تازہ ترین