• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بلوچستان سے محبت ہے ‘ اس تاریخی سرزمین سے گہری دلچسپی ہے یا اس کے موجودہ غیر یقینی حالات پر تشویش کہ ملک کے گوشے گوشے سے جنگ کے معزز قارئین اس خطے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لئے ٹیلی فون ‘ خطوط یا ای میل مراسلات کے ذریعے سوالات کرتے رہتے ہیں۔ دوسروں کے علاوہ لاہور کے ایک صاحب علم محمد عبدالحمید‘ پشاور کے قاری رحیم گل اور آزاد کشمیر کے مولوی محمد ثقلین معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام ہمارے ہاں سندھ کے راستے آیا یا بلوچستان کے راستے۔ اصل باب الاسلام سندھ ہے یا بلوچستان ؟۔ ویسے تو فروغ اسلام کے حوالے سے ان دونوں تاریخی خطوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے مگر پہل کہاں سے ہوئی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سندھ نہیں بلوچستان کا ساحلی علاقہ مکران تھا جہاں مسلمان فاتحین نے سب سے پہلے قدم رکھے اور اسلامی تعلیمات کو روشناس کرایا۔ سندھ کو اس لئے زیادہ شہرت حاصل ہوگئی کہ غازی محمد بن قاسم نے جس پس منظر میں اس علاقے کو فتح کیا وہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے جسے مورخین نے بجا طور پر غیرمعمولی اہمیت دی۔ پھر علمائے کرام اور اولیائے عظام نے وعظ و تبلیغ کے ذریعے سندھ کے قصبہ قصبہ و شہر شہر اسلام کی روشنی پھیلائی جس سے آگے چل کر پورا برصغیر منور ہوگیا اور سندھ ذہنوں پر چھا گیا۔ اس کے مقابلے میں مکران اور بلوچستان کا مقام نمایاں نہ ہوسکا۔ خود بلوچ مورخین نے بلوچستان کے باب الاسلام ہونے کے اعزاز سے صرف نظر کیا۔ علماء اور اہل قلم نے بھی اسے زیادہ پذیرائی نہ بخشی۔ بلوچ وقائع نگاروں نے بھی اس حوالے سے کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا‘ لیکن تاریخ دانوں نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان کے مطابق مسلمان سب سے پہلے مکران کے راستے بلوچستان میں وارد ہوئے اور مختلف علاقوں کو فتح کرکے انہیں اپنی علملداری میں شامل کرلیا۔
مکران پر پہلا حملہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں حکم بن عمر التغلبی کی کمان میں 640ء کے لگ بھگ ہوا۔ اس نے مکران پر قبضہ کرکے وہاں مسلمانوں کی مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی۔ وہ سندھ پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا مگر حضرت عمر نے اسے روک دیا کیونکہ اس وقت سندھ کے حالات حملے کیلئے سازگار نہیں تھے۔ انہوں نے حکم سے کہا اگر پوری قوت حاصل کئے بغیر سندھ پر فوج کشی کی تو مسلمانوں کو جو جانی اور مالی نقصان پہنچے گا اس کیلئے مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑیگا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے تو انہیں بھی سندھ پر حملے کی تجویز پیش کی گئی۔ انہوں نے حضرت عمر ہی کا موقف اپناتے ہوئے یہ تجویز مسترد کردی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں مکران اسلامی سلطنت کا حصہ تھا۔ حضرت امیر معاویہ کے عہد میں پہلی بار عبداللہ بن سوار کو سندھ پر حملے کیلئے بھیجا گیا مگر یہ حملہ ناکام رہا۔ اسی دور میں سندھ پر مسلمانوں کے دو اور حملے بھی ناکامی سے دوچار ہوئے‘ البتہ مکران کے راستے سندھ پہنچنے کی کوشش میں انہوں نے 644 ء میں بودھیا پر قبضہ کر لیا جو بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت تھی‘ اسکا مرکزی شہر قندابیل یا موجودہ گنداوہ تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر محمود علی شاہ کے مطابق اس ملک میں موجودہ کچھی‘ جیکب آباد کا مغربی حصہ سکھر‘ لاڑکانہ اور دادو کے علاقے شامل تھے‘ یہاں زیادہ تر بودھ مت کے پیروکار رہتے تھے جن کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا‘ اس سے پہلے والئی مکران صحابی رسول حضرت سنان بن سلمہ نے خاران اور خضدار کو فتح کرلیا تھا‘ انکا مزار خضدار کے قریب ہے۔ عبدالملک بن مروان کے عہد میں بھی سندھ کو فتح کرنے کی ناکام کوششیں ہوئیں۔ بالآخر یہ ولید بن عبدالملک کا دور تھا جس میں راجہ داہر کو سزا دینے کیلئے محمد بن قاسم کو سندھ بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم نے یہ حملہ 711-12ء میں کیا وہ مکران پہنچے اور وہاں کے والی محمد بن ہارون کو ساتھ لے کر پہلے موجودہ کراچی کے قریب سندھ کے ساحلی شہر دیبل پر قبضہ کیا پھر اندرون سندھ کی طرف بڑھے‘ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ محمد بن قاسم نے فتح سندھ کے بعد واپسی پر دوبارہ مکران کا راستہ اختیار کیا جہاں کے والی محمد بن ہارون نے ان کا استقبال کیا۔ ان تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ سندھ سے تقریباً چھ سات دہائی پہلے مسلمان مکران کے راستے بلوچستان اور وہاں سے سندھ کے بعض علاقوں میں پہنچ چکے تھے اور اسلام کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ مکران میں ایک مقام دشت قلندر ہے یہاں حضرت خواجہ عثمان مروندی نے جو سندھ پہنچے تو سخی لعل شہباز قلندر کے لقب سے مشہور ہوئے‘ کافی عرصہ رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ باہمی آویزشوں اور بیرونی حملوں کے باعث عرب بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں شریعت کا نظام پوری طرح نافذ نہ کرسکے تاہم مکران میں اسلامی معاشرے کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ بلوچستان کا یہ واحد علاقہ تھا جہاں زرعی پیداوار پر عشر وصول کیا جانے لگا۔ آج بھی یہاں وراثت اور حق مہر کے اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے۔ عورت کو باپ کی میراث سے پورا حصہ ملتا ہے۔ خاوند حق مہر میں عموماً اپنے حصے کی ساری جائیداد بیوی کے نام کر دیتا ہے جس سے اس کا سماجی وقار بڑھ جاتا ہے۔ عربوں نے یہاں کاریزوں کو رواج دیا جو آگے چل کر پانی کے حصول کے لئے بلوچستان کا طرہٍ امتیاز بن گیا‘ اس سے زراعت کو فروغ ملا۔ یہ بلوچستان ہی تھا جس کے راستے مسلمان سندھ اور پنجاب میں داخل ہوئے اور وہاں اسلام کا ابدی پیغام پہنچایا۔ اسی لئے بلوچستان ہی حقیقی معنوں میں باب الاسلام ہے۔
تازہ ترین