پاکستان میں آصف علی زرداری کی جگہ نئے صدر ممنون حسین کی کامیابی کے بعد اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیاں عید کے بعد نیا رخ اختیار کرنے والی ہیں تاہم اس وقت تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی چوائس کے صدر کے ساتھ ساتھ اب نیا آرمی چیف، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیئرمین نیب سمیت تمام کلیدی پوزیشنوں پر اپنی سوچ اورضرورت کے مطابق مختلف شخصیات کو تعینات کرنے کے پورے مواقع مل رہے ہیں اس کے بعد حکومت اور ان اداروں کے درمیان معاملات کیسے چلتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ قومی مفاد اور ذاتی مفاد کس کس کے آڑے آتا ہے، تاہم اس وقت تو حالات شریف برادران کے حق میں جارہے ہیں مگر دوسری طرف ملک میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے بزنس طبقہ اور عوام کو جو توقع تھی اس میں کچھ ٹھہراؤ سے عوامی حلقوں میں کچھ خدشات پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں، خاص کر ا مریکی سیکرٹری خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان سے دو روز قبل مشترکہ مفادات کی کونسل میں قومی انرجی پالیسی کی منظوری کے بعد بجلی، پٹرولیم اور دیگر اشیاء کے نرخوں میں اضافہ پر ہر طبقہ تشویش کا اظہار کررہا ہے کہ حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم ملک میں مجموعی طور پر گورننس کے حالات کی بہتری اور ”اکنامک گورننس“ پر توجہ بڑھانے کے لئے اقدامات کریں ۔اس لئے کہ قومی انرجی پالیسی کے پس منظر میں توانائی کا بحران حل ہوتانظر نہیں آتا بلکہ اس سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ پڑسکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو توانائی کے شعبوں کی بہتری اور عوام اور صنعت و تجارت دونوں کو مطمئن کرنے کے لئے ”انرجی اکانومسٹ“ کی تقرری پر غور کریں، جو اس فیلڈ کا ہو، وہ نہ تو فارماسٹ ہو اور نہ ہی حکومت کی کسی اعلیٰ شخصیت کا پسندیدہ ماہر نہ ہو، پاکستان کو ابھی تک پسندیدہ افراد کو سمجھدار سمجھنے کی پالیسی نے ہمیشہ کئی مشکلات سے دو چار کیا ہے اور جب معاملات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں تو ایسے افراداپنابریف کیس اٹھاتے ہوئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ایسے ماہرین کبھی امریکہ سے زیادہ آتے تھے اب مڈل ایسٹ سے بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہمیں ایسے ماہرین منصوبہ بندی کمیشن سے تلاش کرنے چاہیں جہاں ایک زمانے میں پاکستان کے قابل ترین ماہرین ہوا کرتے تھے۔ اب وہاں واپڈا کی طرح پانی، بجلی، انفراسٹریکچر ، اربن ،رورل ڈیویلپمنٹ اور سوشل سیکٹرکے ماہرین ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ اس کمیشن میں بجلی کی بچت کے حوالے سے بھی کئی سٹڈیز ہوچکی ہیں، مگر اب ان فائلوں پر گرد و غبار جھاڑنے میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انرجی پالیسی پر سیاسی حالات کے پس منظر میں عملدرآمد جاری رکھا جائے اس لئے کہ اس سے ز یادہ مثبت نتائج کی توقع نہیں رکھی چاہئے البتہ قومی سطح پرتوانائی کی بچت کے لئے قائم کردہ ادارے ”انرکان“ کو فعال بنایا جائے جو1985ء سے قائم ہے۔ ایک زمانے میں یہ منصوبہ بندی کمیشن کے ماتحت کام کرتا تھا جب اس منصوبہ بندی کے وزیر حامد ناصر چٹھہ ہوا کرتے تھے۔ اس ادارے کی کارکردگی سے مایوس ہو کر انہوں نے اسے کمیشن کے دائرہ کار سے تو نکلوادیا تھا لیکن اس وقت کے اس کے ایک سربراہ کو وہ عہدے سے نہیں ہٹا سکتے تھے بعد میں جب آصف علی زرداری وزیر ماحولیات بنے تو انرکان کو ان کے ماتحت کردیا گیا۔
اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو یادکرایا جائے آپ بڑے بڑے منصوبوں پر کام کرتے رہیں ، ان کے نتائج تو تب برآمد ہوں گے جب یہ منصوبے شروع اور مکمل ہوں گے۔فی الحال فوری طور پر ملک میں توانائی کی بچت کے لئے اوپر سے آغاز کردیا جائے اس سے اگر 2ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت بھی ہوتی ہے تو اس سے کئی مسائل حل کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا بجلی اور گیس چوری یہ کام ایک دن میں رکنے والا نہیں ہے اسے قومی تحریک کے طور پر چلایا جائے اور اس کے لئے کسی بھی”چور“ سے سیاسی رعایت نہ برتی جائے ۔ اس لئے کہ اب1998ء والا دور نہیں ہے ،اب حکومت اگر بوجہ کسی سے کوئی رعایت کرے گی تو سول سوسائٹی اور عدلیہ اسے آڑے ہاتھوں لے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عید کے بعد تجارتی اداروں کے نئے اوقات کار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے چاہے اس سے مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثر ہو۔ اس وقت حالات ووٹ بنک بچانے سے زیادہ قومی ضروریات پوری کرنے کی ترجیح کا تقاضا کررہے ہیں۔ خاص کر پاکستان کے اندرون حالات میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پس منظر میں اس وقت پورے ملک میں کسی نہ کسی ایشو پر احتجاج کا سلسلہ حکومت کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں ہے۔ اس سے ان کے ا چھے کاموں پر بھی پانی پھررہا ہے اور دوسری طرح”امیج“ پر بھی گہرا اثر پڑرہا ہے۔
پچھلے دنوں واشنگٹن پالیسی میں ماحولیات کے ماہرین نے ایک جامع سٹڈی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیات کے حوالے سے بدلتے حالات اور موسم میں گرمی کے اثرات بڑھنے سے بھی انسانی سطح پر قانون شکنی اور منفی ردعمل کے رجحانات بڑھ رہے ہیں۔ جس سے مجموعی طور پر عالمی سطح پر کرائم بڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان بھی دنیا کا حصہ ہے یہاں اگر گرمی اور موسم کی وجہ سے انسان مزاج مزید گرم ہورہے ہیں تو اس سے آنے والے دنوں میں یقینا کرائم کی شرح بڑھ سکتی ہے ۔دنیا کے بڑے ماہرین نے ماحولیات کی تبدیل کے حوالے سے 60تحقیقی رپورٹس مرتب کی ہیں جس میں امریکہ میں حالیہ دنوں میں کرائم بڑھنے کی وجہ بھی انہی حالات کو قرار دیا گیا ہے جہاں سکولوں کے بچوں پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ قابل ذکر ہے۔ ان ماہرین کے مطابق کافی گرم موسم ہو یا خشک موسم اس سے قانون شکنی کے رجحان میں بہرحال اضافہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے معروف اکانومسٹSoloman hsingکے مطابق جب موسم زیادہ برا ہوتا ہے تو اس سے لوگ ایک دوسرے کو زیادہ متاثر کرتے ہیں یعنی کسی بھی بات پر سخت ردعمل کا اظہار کردیتے ہیں ۔ان ماہرین کے مطابق اگر امریکہ میں موسم 5.4ڈگری فارن ہیٹ تک جاتا ہے تو اس سے قانون شکنی 2فیصد سے4فیصد بڑھ جاتی ہے۔ اس سٹڈی کا اسلام آباد کے حکام ضرور مطالعہ کریں اور سوچ بچار کریں کہ پاکستان میں بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ پٹرولیم سمیت لاتعداد اشیاء کی گرانی پر عوامی ردعمل میں گرم موسم کے اثرات سے کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اس سے تو حکومت کے لئے آنے والے دنوں میں کئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس وقت عملاً عید کا ہفتہ شروع ہوگیا ہے۔ گرانی کی نئی لہر نے ہر طبقہ کو پریشان کردیا ہے ۔ماہ رضمان میں عموماً کام کم اور اخراجات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ عید شاپنگ کی سرگرمیوں میں سالانہ500ارب روپے کی سیل بالواسطہ اور بلاواسطہ طریقے سے ہوتی ہے۔ ا س میں حکومت کو کتنا ٹیکس وصول ہوتا ہے اس بارے میں ایف بی آر کے حکام خاموش ہیں جبکہ جن کی جیب سے پیسہ تاجر طبقہ کو جارہا ہے وہ چیخ رہے ہیں۔ اب تو چند سالوں سے افطار ڈنر پارٹیاں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بزنس کا حصہ بن چکا ہے، یہاں70فیصد سے زائد افراد کو ضرورت کے لئے روزانہ 500روپے نہیں ملتے لیکن افطار ڈنر کے لئے ایک محدود آبادی ایک ہزار سے 1500 روپے تک بھی دے رہی ہے۔ اس سے معاشرتی سطح پر عدم توازن سے معاشرے میں منفی رجحانات کا بڑھانا باعث تشویش ہے جس پر ہم سب کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہئے۔