• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک بہت پیارے دوست عابد بٹ نیویارک میں مقیم ہیں، بٹ صاحب بڑے بزنس مین ہیں اور ان کا ٹیلی کام سیکٹر میں وسیع بزنس ہے۔ عابد بٹ کے ایک صاحبزادے دانیال بٹ تعلیم کی غرض سے لیٹویا کے شہر ریگا گئے۔ نوجوان طالب علم نے ریگا میں ایک پاکستانی ریسٹورنٹ ”کباب پاکستان“ کے نام سے دیکھا جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا پاکستانی جھنڈا دیکھتے ہی دانیال نے فیصلہ کیا کہ وہ اسی ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا کرے گا۔ اس کا آنا جانا شروع ہوا تو ریسٹورنٹ کے نوجوان مالک فرمان علی سے اس کی ملاقات ہوئی۔ فرمان علی بڑا نمازی پرہیزگار نوجوان تھا۔ وہ اکثر دانیال بٹ کو مسجد لے جاتا تھا۔ ادھر نیویارک میں میرا دوست عابد بٹ بڑا خوش تھا کہ شکر ہے کہ میرے بیٹے کی دوستی ایک متقی نوجوان سے ہو گئی ہے اس نے پانچ ہزار یورو اس متقی نوجوان کے اکاؤنٹ میں بھی بھیج دیئے کہ کبھی کہیں میرے بیٹے کے پاس رقم کی کمی ہو تو اسے دے دینا۔ کچھ عرصے بعد جب عابد بٹ خود ”ریگا“ گئے تو اس متقی نوجوان فرمان سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں زمان نے کہا کہ انکل میں یہاں حقہ کلب بنانا چاہتا ہوں آپ مجھے سپورٹ کریں بٹ صاحب نے کہا بیٹا حقہ کلب میں تو ساتھ خاص مشروب بھی بکتا ہے۔ اس پر نوجوان نے کہا کہ وہ ملازمین بیچیں گے ہم نہیں بیچیں گے۔ اس پر بٹ صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا بیٹا وہ لائسنس تو آپ کے نام ہو گا اور آپ کے نام کے زیرسایہ ہی یہ بزنس بھی ہو گا آپ کی کمائی میں حرام کے لقمے بھی ہوں گے سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے آپ کا یہ دہرا معیار اچھا نہیں لگا۔ میں معذرت چاہتا ہوں اتفاق ہے کہ چوہدری سرور، عابد بٹ کے جاننے والے ہیں حسن اتفاق ہے کہ آج کل بٹ صاحب پاکستان آئے ہوئے ہیں گزشتہ دنوں میں ان سے ملنے لاہور گیا تو کہنے لگے کہ ابھی ابھی لابی میں میری ملاقات چوہدری سرور سے ہوئی ہے مگر وہ مجھ سے نظریں چرا رہے تھے۔
میری عطاء الحق قاسمی سے بطور لکھاری بڑی پرانی محبت ہے گزشتہ بیس برس سے میل ملاقات بھی۔ ان سے محبت بڑھانے کا سارا کریڈٹ منصور آفاق کو جاتا ہے۔ قاسمی صاحب نے گزشتہ سے پیوستہ روز چند احباب کا شکریہ ادا کیا ہے میں ان کے لئے پہلے کچھ نہ لکھ سکا اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ میری تحریریں بادشاہوں کو ناگوار گزرتی ہیں سو میں نے سوچا کہ کہیں میری پسندیدگی شاہوں کی ناپسندیدگی میں نہ بن جائے۔ اب جب سب کچھ ہو چکا ہے اور آج نئے گورنر کی تقریب حلف برداری بھی ہوجائے گی تو مجھے قاسمی صاحب سے محبت اور منصور آفاق کے آنسو یاد آرہے ہیں میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں ڈاکٹر اجمل نیازی، اختر شمار، برادر عزیز سلیم صافی اور برادر ڈاکٹر بابر اعوان سمیت ان تمام احباب کا شکریہ ادا کروں جنہوں نے اس خوبصورت آدمی کے حق میں کلمہ خیر رقم کیا۔ اس کی ادبی اور صحافتی خدمات کو سلام کیا۔
میری اس خانوادے کے تین افراد سے ملاقاتیں ہیں مرحوم ضیاء الحق قاسمی سے یادگار ملاقاتیں رہیں۔ یاسر پیرزادہ سے محبت بھری ملاقاتیں ہوتی ہیں اور قاسمی صاحب کی محبت میں ہم زندہ دل لوگ چور چور ہیں اگرچہ پنجاب کی گورنری قاسمی صاحب کو پیش کی جاتی تو عہدے کا مان بڑھ جاتا مگر اب مان سے زیادہ بزنس عزیز تھا مجھے دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ مولانا بہاؤ الحق قاسمی کا فرزند پرانی محبتوں میں زندہ رہتا ہے۔ امرتسر سے محبت کا سفر شروع ہوا تھا، پہلا پڑاؤ وزیرآباد میں ہوا پھر لاہور مسکن بن گیا۔ لاہور میں بادل آتے، بارشیں برستیں تو عطاء الحق قاسمی کی والدہ کہتیں”بیٹا بس بارشیں وہی تھیں جو امرتسر میں برس گئیں“۔ اس زمانے میں شاید قاسمی صاحب مٹی کی محبت کو نہیں سمجھتے تھے جب وہ امریکہ گئے تو انہیں مٹی کی محبت سمجھ آگئی۔ انہوں نے 1969ء میں گرین کارڈ چھوڑ کر پاکستان کو ترجیح دی۔ انہوں نے ادب کی بہت خدمت کی اور ایک پارٹی کی محبت میں گزشتہ کئی برسوں سے قلمی جہاد کیا۔ انہوں نے اپنے گزشتہ کالم میں خود رقم کیا کہ ”سیاست صرف قربانی نہیں صلہ بھی مانگتی ہے“۔ جو پارٹی اقبال ظفر جھگڑا، غوث علی شاہ، راجہ ظفر الحق، سرانجام خان، جعفر اقبال اور تہمینہ دولتانہ کی قربانیوں کا صلہ نہیں دے سکے اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ قاسمی صاحب آپ نے صرف علم اور ادب کی خدمت کی ہے نئے زمانے کی سیاست میں علم اور ادب کی قدر نہیں ہے ویسے بھی آپ کونسا بزنس کرتے ہیں جو لوگ آپ کی عادات سے واقف نہیں تھے اگر کبھی وہ تحفتاً کوئی چیز آپ کو دے بھی جاتے تھے تو آپ وہ اسی حالت میں منیر نیازی مرحوم کو پیش کر آتے تھے۔ آپ کو کیا پتہ کہ ڈیوڈ ملی بینڈ کی انتخابی مہم پر کس نے کس کے ذریعے رقم خرچ کی تھی۔ آپ برطانیہ پھرپھرا کر آجاتے ہیں مجھے حیرت ہے آپ کو آج تک ایم آئی سکس (ایس آئی ایس) کے نام کا پتہ نہیں چل سکا۔ مزید حیرت یہ ہے کہ آپ کو یہ بھی پتہ نہیں کہ سینٹرل لندن میں پوری آکسفورڈ اسٹریٹ کس نے خرید رکھی ہے۔ آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسٹ لندن کے ایلفورٹ روڈ پر کس کا بہت بڑا ٹاور بن رہا ہے آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ انشورنس کلیم کے ایک بڑے اسکینڈل کے بعد کس نے کونسا بزنس شروع کیا تھا آپ کوخبر ہی نہیں کہ کون کس کا پارٹنر ہے ۔قاسمی صاحب! خیر آپ اتنے سادہ بھی نہیں ہیں آپ کو یہ تو ضرور پتہ ہے کہ کس نے سیاست کو کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔ آپ کی عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑا، انتخاب کرنے والوں کا ”چہرہ“ بے نقاب ہوا ہے۔آپ نے اپنے کالم میں اپنی محبوب ترین پارٹی کے دو منتخب صدور کا تذکرہ بھی کیا۔ بس اسی حسن انتخاب کو آپ نے داد دی۔
قاسمی صاحب! آپ کی محبوب ترین جماعت نے اسلام آباد کے حلقے48 پر بھی ڈیل کرلی ہے۔ چوہدری نثار علی خان، میاں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے انجم عقیل خان کی سفارش کی تھی پھر کسی کے کہنے پر اس کے کاغذات نامزدگی واپس کروا دیئے گئے اور یوں ایک شخصیت کیلئے راستہ ہموار کر دیا گیا۔
آج کل گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور قریباً پورے خاندان کے بچے میرے گھر میں جمع ہیں میرا ایک بھانجا انیس برلاس مجھے کہتا ہے کہ سرو کا درخت بہت اچھا دکھائی دیتا ہے میں اپنے معصوم سے بھانجے کا ”چہرہ“ دیکھتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ ”بیٹا اس درخت سے محبت نہیں کرنا، یہ دکھائی ضرور اچھا دیتا ہے مگر نہ اس کا پھل ہے اور نہ ہی اس کی گھنی چھاؤں ہے، بیٹا ایسے انسانوں سے محبت بھی نہ کرنا جو سرو جیسے ہوں“۔ قاسمی صاحب بصد افسوس آپ نے محبت کیلئے ”سرو“ کا انتخاب کیا۔
قارئین کرام! میں نے گزشتہ کالم میں معروف شاعر فرحت عباس شاہ کے چند اشعار کیا لکھے کہ آپ کی طرف سے بہت رسپانس ملا۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ فرحت عباس شاہ اس عہد کے مقبول ترین شاعر ہیں آج ان کی شاعری تبرک کے طور پر شامل کر رہا ہوں کہ
تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
کھول رکھتے ہیں اسی آس پہ در شام کے بعد
تازہ ترین