• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی صائب الرائے حضرات نے ایک نشست میں معاملات کو بہت باریک بینی سے دیکھا اور تفصیلی بحث کی۔ نوازشریف کے مثبت رویوں کو زیربحث لایا گیا اور منفی معاملات پر بھی نظر ڈالی۔ مثبت رویوں میں صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اپنی حکومت نہ بنانا بلکہ وہاں جس کی اکثریت تھی حکومت اُس کے حوالے کرنا۔ بلوچستان میں وہ حکومت بنا سکتے تھے مگر پھر ایک عوامی ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بنا دیا اس کے علاوہ چین کے دورے میں شاندار منصوبے کو شروع کرنے پر چین سے اتفاق کیا اور الٹی گنگا بہانے کا اہتمام کیا کہ ایرانی گیس پائپ لائن بلوچستان سے چین جائے، کراچی سے لاہور تک موٹروے کی تعمیر اور خنجراب سے گوادر تک سڑک اور ریل روڈ کی تعمیر کے منصوبوں کے علاوہ انرجی کے سیکٹر میں بھی سوچ بچار کیا اور گڈانی انرجی کو ریڈار کے علاوہ تھرکول کے چار منصوبوں پر معاہدے کئے، پھر خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں دریاؤں کے تیز بہاؤسے بجلی پیدا کرنے کے پروگرام کا آغاز کرنے کا ارادے کا اظہار کیا تاہم صدارتی انتخاب کو جلد کرانے میں منفی معاملات کے زمرے میں دیکھا گیا اور ہر جگہ میاں شہباز شریف کو اپنے ہمراہ رکھنا بھی اِن صاحبان نے اچھی نظر سے نہیں دیکھا، چین اور پھر آئی ایس آئی کی بریفنگ میں ایک وزیراعلیٰ کا موجود ہونا اور دوسروں کی عدم موجودگی سے غلط تاثر قائم ہوا۔ اس کے علاوہ بھارت کی طرف غیرضروری جھکاوٴ کو اُن کے لئے نقصان دہ سمجھا گیا۔ قطع نظر اس کے عمومی طور پر یہ خیال کیا گیا کہ نواز شریف پاکستان کو صحیح سمت پر لے جارہے ہیں اور ضروری ہے کہ جب اُن کی اِس بکھرے اور حاکمیت کے حوالے سے کمزور ملک کو مضبوط کرنے کی کوشش میں سب لوگ ان کی مدد کریں ۔ سوال تھا کہ کس طرح مدد کی جائے، ایک تو اس طرح جو قلم کار لکھ سکتے ہیں وہ اخبارات میں اپنے مشورے دیں، خیال کیا گیا کہ اخبارات کا اثر کم ہوا ہے اور ٹاک شوز کا اثر بڑھا ہے سارے سیاستداں اور عوام متاثر ہوتے ہیں تو تجویز دی گئی کہ جو بھی ٹاک شوز کرتے ہیں اُن کو مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ جن میں ایک تو یہ کہ پاکستان میں امن وامان بحال کرنے کی سخت ضرورت، ریاست کی حاکمیت گہنا گئی ہے، زنگ آلود ہوگئی ہے۔ یہ دیکھا جائے کہ یہ حاکمیت کی کمزوری کسی منصوبہ کے تحت ہوئی ہے یا قانون نافذ کرنے والے مسلسل نکتہ چینی سے بددل ہوگئے ہیں یاپولیس حکمرانوں کو دیکھ کر خود بھی کرپشن میں ملوث ہوکر معاملات چلا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر پولیس کے افسران اور اہلکاروں کو مستعد کرنے کی ضرورت ہے، انہیں پراعتماد بنانا اور حالات سے مقابلہ کے لئے تیار کرنا چاہئے، سیاسی جماعتوں نے جو اپنے عسکری ونگ بنا رکھے ہیں ان پر قابو پانے کے لئے اگرچہ کراچی میں باہدف آپریشن کیا جارہا ہے، وہ جاری رہے مگر اس میں قدرے تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔ کراچی میں بھتہ اور لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے اس کا مقصد پاکستان کی تھوک اور پرچون سطح تک کی تجارت کو تباہ کرنا ہے تاکہ کراچی سے سپلائی رک جائے، اُس کو کسی طور پر نہیں رکنا چاہئے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار یہاں درست ہیں کہ کراچی میں یہ دہشت گردی نہیں چلنے دی جائیگی۔ اگرچہ وہ کہہ تو گئے ہیں مگر ابھی تک ہدفی قتل بند نہیں ہوئے ہیں، روز 9 سے 10 افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ صاحبان فکر و دانش کا خیال تھا کہ میاں نوازشریف کی بہت سی پالیسیوں اور انداز سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اُن کی پاکستان کے بارے میں نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا، اُن کی حسن کارکردگی کا ریکارڈ بھی شاندار ہے۔ انہوں نے لاہور تا پشاور موٹروے بنائی، پیلی ٹیکسی کی اسکیم اور گوادر کی بندرگاہ بنا ڈالا جو بڑے کارنامے ہیں، البتہ سندھ کی حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت اس پر دباوٴ ڈال سکتی ہے کہ وہ کراچی کی بدامنی کو دور کرے اس لئے بھی کہ اس سے نہ صرف صوبہ بلکہ پورا پاکستان متاثر ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اگرچہ اپنے اپنے پروگرام رکھتی ہیں مگر اُن کو اِس بات پر اتفاق کرنا ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ انہیں موقع ملنا چاہئے کہ وہ توانائی کی ضرورت کے ساتھ پاکستان کی خوشحالی کے منصوبوں کو روبہ عمل لانے کیلئے کام کررہے ہیں اُن کو اس کام میں ان کاپوری قوم، سیاسی پارٹیوں، پروفیسر حضرات، میڈیا، سفرائے کرام سب مل کر اُن کا جہاں تک ہو ہاتھ بٹائیں، اُن کے خلاف جو سازشیں ہوں اُن کو دلیل کے ساتھ روکیں، سیاسی پارٹیوں کو بھی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہئے۔
میاں نواز شریف کے لئے مشورہ ہے کہ تحمل سے معاملات کو چلائیں، اپنی خواہشات اور مذہبی لگاوٴ کے ساتھ ملک کے ساتھ لگاوٴ کو پیش نظر رکھیں جو خود بہت بڑی عبادت ہے۔ اس سے وہ کسی بڑے دباوٴ اور مشکل سے بچ سکتے ہیں۔ اُن کی گڈانی میں تقریر شاندار تھی اور ان کے ساتھ سندھ و بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کے علاوہ گورنر سندھ کا موجود ہونا اچھی علامت کے طور پر لیا گیا ، جہاں انہوں نے ہر ایک پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا اعلان کرکے سندھ میں بے چینی کو دبادیا کہ سندھ میں گورنر راج قائم کیا جاسکتا ہے۔ انہی جذبات کے ساتھ میاں صاحب تعاون اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی خواہش کو اس کی روح کے ساتھ عملدرآمد کریں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے کہیں بہتر ہے اور پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کا عزم رکھتی ہے۔ اس لئے ہرکس و ناکس کو اُن کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تاکہ ملک میں سازشوں کا جال توڑا جاسکے اور قوم کی اجتماعی خواہش اور قومی عزم کا مظاہرہ ہوسکے۔
تازہ ترین