• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے سیاسی قد کاٹھ کو سامنے رکھ کر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو الفاظ کے چناؤ میں بڑی احتیاط برتنی چاہئے ۔سیاست اور کھیل کے میدان میں مخالفین کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جس کا جواب بھی اسی انداز میں تلخ و تیز لہجے میں ملتا رہتا ہے مگر جہاں عدالت ، عدالت کے کسی فیصلے اور ججوں کا معاملہ ہو وہاں بہت محتاط ہونا چاہئے خصوصاً قومی رہنماؤں کا رویہ تو مثالی ہونا چاہئے۔ ”شرمناک“ جیسے الفاظ سیاست اور اسپورٹس میں بھی سخت ہی سمجھے جاتے ہیں مگر یہ اعلیٰ عدلیہ یا ماتحت عدلیہ کیلئے تو بہت ہی سخت ہیں اور جیسے کہ سپریم کورٹ نے کہا یہ گالی دینے کے مترادف ہیں۔ 2/اگست کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں پیشی سے ایک روز قبل عمران خان کا یہ کہنا کہ وہ عدالت سے معافی نہیں مانگیں گے، چاہے انہیں سزا ہو جائے اور وہ نااہل قرار دے دیئے جائیں۔ عدالتوں کے احترام میں ان کے سامنے جھکنا اور اپنی غلطی پر رضا کارانہ طور پر معافی مانگنا بڑائی ہے بے عزتی نہیں۔ اگر قومی رہنما اعلیٰ عدلیہ کے خلاف اس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کریں گے تو ان کے کارکن اور حمایتی تو عدالتوں پر حملے شروع کردیں گے اس سے ملک میں سوائے انارکی کے کچھ نہیں ہوگا۔ بار بار دھاندلی کا ڈھنڈورہ پیٹ کر اور الزامات لگا کر عمران خان دراصل اپنے ووٹروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی ہاری نہیں تھی۔ساری مہم کا مقصد سیاسی ہے جبکہ اس وقت پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ خیبر پخوتنخوا میں جہاں اس کی حکومت ہے کارکردگی دکھائے، الیکشن میں دھاندلی کا واویلا اب بے وقت کی راگنی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چونکہ اس کی صوبائی حکومت عوام کی ان توقعات پر پوری نہیں اتر رہی جس کا سنہرا خواب پی ٹی آئی نے انتخابی مہم کے دوران انہیں دکھایا تھا لہٰذا اس نے یہ سوچا ہے کہ نان ایشوز پر فوکس کرکے کارکنوں کی توجہ اس طرف کرائی جائے۔
عدالتی پیشی سے قبل عمران خان کا اپنے کارکنوں کو یہ کال دینا کہ جس طرح انہوں نے آزاد عدلیہ کی بحالی کیلئے جدوجہد کی تھی ایک بار پھر وہ ایسی ہی مہم (جو اب موجودہ عدلیہ کے خلاف ہوگی) کیلئے تیار ہو جائیں انتہائی غیر سیاسی عمل ہے جس سے ان لوگوں کی بات کو تقویت ملتی ہے جن کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اب بھی سیاست دان نہیں بنے جنہیں قومی معاملات میں فہم و فراست ،بردباری اور تحمل مزاجی سے چلنا چاہئے۔ ہر بات پر اس طرح کی دھمکیاں غیر سیاسی رویّے کی عکاسی کرتی ہیں جس سے ان کا اپنا ہی سیاسی نقصان ہوتا ہے۔ اپنی غلطی ماننے میں بڑائی ہے اگر عمران خان 2/اگست کو عدالت عظمیٰ میں پیشی کے دوران بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہتے کہ اگر ان کے الفاظ سے عدالت کا تقدس مجروح ہوا ہے تو وہ اس پر غیر مشروط معافی کے درخواست گزار ہیں۔ معاملہ اسی وقت رفع دفع ہوجاتا اور عمران کا پبلک امیج بہت بہتر ہوتا ۔ مگر یہ کہنا کہ ان کی نقطہ چینی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) پر تھی نہ کہ اعلیٰ عدلیہ پر نامناسب ہے ۔ آخر ڈی آر اوز اور آر اوز بھی تو ماتحت عدلیہ کے ہی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ہی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی بار بار کی درخواست پر چیف جسٹس اس بات پر رضا مند ہوئے تھے کہ ماتحت عدلیہ کو عام انتخابات کرانے میں ملوث کرنا چاہئے۔ جسٹس افتخار چوہدری تو بالکل اس پر تیار نہیں تھے کیونکہ وہ عدلیہ کو ہر قسم کے انتظامی امور سے علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو کون بتائے کہ جتنے بھی حلقوں میں وہ ووٹروں کی فنگر پرنٹ کی تصدیق چاہتے ہیں کیلئے عدالت عظمیٰ حکم جاری نہیں کرسکتی اس کیلئے الیکشن کمیشن صحیح فورم ہے۔ ہاں اگر الیکشن کمیشن انکار کرے تو پھر اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا ہے۔ مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین چاہتے ہیں کہ چونکہ وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں لہٰذا سپریم کورٹ کو فوراً ایک مناسب حکم جاری کر دینا چاہئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ یہ عدالت عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ عمران خان کو آئین کے بارے میں بریف کیا جانا چاہئے۔
اگر فرض کریں عدالت عظمیٰ عمران خان کی بات مان بھی لے تو پھر اسے ہر سیاسی جماعت کا مطالبہ کہ فلاں فلاں حلقوں میں پچھلے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی میں فنگر پرنٹنگ کا حکم دیا جائے یا دوبارہ پولنگ کرائی جائے ماننا چاہئے۔ یقیناً اس سے ایک نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا۔ اس قسم کے مطالبوں میں بڑی عجیب منطق ہے۔ پی ٹی آئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ کے پی کے کے ان حلقوں میں جہاں اس کے امیدوار جیتے ہیں میں بھی کچھ دھاندلی ہوئی ہے۔ جہاں جہاں وہ جیتی ہے وہاں اس کے خیال میں تو الیکشن بالکل صاف اور شفاف تھے اور کوئی ہینکی پھینکی نہیں ہوئی۔ اس کا سارا زور اس بات پر ہے کہ لاہور اور خانیوال کے کچھ حلقوں میں جہاں اس کے سرکردہ رہنما بشمول حامد خان اور جہانگیر ترین ہارے تھے میں بڑی دھاندلی ہوئی تھی۔ مزیداری کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے دھاندلی کے الزامات الیکشن کے نتائج آنے کے ایک دو دن بعد لگائے تھے نہ کہ پولنگ والے دن جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسے بعد میں خیال آیا کہ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے اس طرح کا واویلا اچھی سیاسی چال ہے لہٰذا اسے چلنا چاہئے۔ پیپلزپارٹی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ اندرون سندھ اس نے دھاندلی کی ہے اور وہاں کسی بھی حلقے میں دوبارہ پولنگ ہونی چاہئے وہ تو اس بات کا راگ الاپ رہی ہے کہ پنجاب میں بڑی دھاندلی ہوئی ہے اور وہاں دوبارہ الیکشن ہونا چاہئیں۔ چونکہ دھاندلی کے الزامات لگانے کا فیشن کافی مقبول ہوتا دکھائی دیا لہٰذا جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں بہت دھاندلی کی ہے۔
تمام سیاسی رہنماؤں جو دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں میں سے عمران خان ہی زیادہ پُرجوش انداز میں یہ راگ اب بھی الاپتے رہتے ہیں۔ ہماری ان سے درخواست ہے کہ ان الزامات کو چھوڑیں، مانیں کہ آپ الیکشن ہار گئے لہٰذا ملک کو آگے چلنے دیں۔ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ کے پی کے میں اپنی کارکردگی دکھائے اور لوگوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کرے۔ صرف ان الزامات کو دہرانے سے اس کی سیاست نہیں چمکے گی اور اس کے حمایتیوں میں اضافہ نہیں ہوگا۔
تازہ ترین